۲۱ آذر ۱۴۰۳ |۹ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 11, 2024
غزہ

حوزہ/ جیسے جیسے غزہ و اسرائیل کے ما بین جنگ کا وقت گزرتا جا رہا ہے صہیونی حکومت کا کھوکھلا پن اور اسکی شکستوں کا سلسلہ لوگوں کی نظروں کے سامنے آتا جا رہا ہے سو دن سے زائد ہوئے اسرائیل محض طاقت کا استعمال کر رہا ہے جبکہ اسے حاصل کچھ نہیں ہو رہا سوائے اس کے کہ اس کی شکست اور کھل کر سامنے آ رہی ہے

تحریر: مولانا نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | جیسے جیسے غزہ و اسرائیل کے ما بین جنگ کا وقت گزرتا جا رہا ہے صہیونی حکومت کا کھوکھلا پن اور اسکی شکستوں کا سلسلہ لوگوں کی نظروں کے سامنے آتا جا رہا ہے سو دن سے زائد ہوئے اسرائیل محض طاقت کا استعمال کر رہا ہے جبکہ اسے حاصل کچھ نہیں ہو رہا سوائے اس کے کہ اس کی شکست اور کھل کر سامنے آ رہی ہے ماہرین بالاتفاق یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ۷ اکتوبر کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے ہونے والی غزہ پر بہیمانہ یلغار کے بعد سے اب تک سوائے عام ہلاکتوں کے اسرائیل کو کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے بلکہ اسکے بالکل الٹ اسے بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا اور اپنے ہی باشندوں کو راست فائرنگ کا نشانہ بنا کر ان کے قتل کا کانٹوں بھرا سہرا بھی سر پر دھرنا پڑا جس کی وجہ سے پورے اسرائیل اور یورپ میں انہیں حلقوں میں تھو تھو ہو رہی ہے جو اسرائیل نواز ہیں۔

تین اپنے ہی ملک کے باشندوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی فوج اور بھی جارحانہ انداز میں حملوں کو جاری رکھے ہوئے ہے جس میں ہر روز ایک نئی داستان اس کے لئے زنجیر پا بنتی جا رہی ہے ، اندھا دھند حملوں کو دیکھتے ہوئے پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف فضا اور بھی خطرناک ہوتی جا رہی ہے ۔ اب اسرائیل میں بھی مظاہرین مسلسل اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف مظاہرے کرتے نظر آ رہے ہیں اور گزشتہ دنوں میں عارضی جنگ بندی کے بعد ہونے والے مذاکرات و قطر و مصر کی ثالث ی کے بعد جو چند اسرائیلی رہا ہوئے انہیں لیکر اب ہر ایک کہہ رہا ہے یہی ایک طریقہ ہے قیدیوں کی رہائی کا ہرگز طاقت کے بل پر قیدیوں کو رہا کرانا ممکن نہیں ہے جہاں تک حماس کی بات ہے تو حماس آج بھی۔

100 سے زیادہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سودمذاکرات کے لئے تیار ہے لیکن اس کی معقول شرط یہی ہے کہ اسرائیل پہلے جنگ بندی پر تیار ہو۔ اس بات کو ہر صاحب خرد مان رہا اور تسلیم کر رہا ہے کہ بغیر مذاکرات کے جو اسرائیل اندھا دھند حملے کر رہا ہے اس سے معاملہ اور سنگین ہوگا اور حاصل کچھ نہ ہوگا جیسا کہ بی بی سی نے بھی ایک رپورٹ میں اس بات کو مانا ہے کہ’’آج حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالیوں کے رشتہ دار اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پہلے ہی رہا ہونے والے تقریباً تمام افراد کسی بھی فوجی کارروائی سے نہیں بلکہ قطر اور مصر کی جانب سے حماس کے ساتھ مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے اپنے گھروں میں واپس لوٹنے میں کامیاب ہوئے ہیں‘‘۔

اسرائیل کے غبارے کی طاقت کی ہوا نکنا اور مزاحمتی محاذ:

اب تک اسرائیل جیسی طاقت کے لئے جس کی انٹلی جنس سے لیکر جس کے جدید ترین اسلحوں اور جدید ترین جنگی ٹیکنیک کی حامل فوج کا چرچہ دنیا میں ہے یہ ایک بڑی شکست ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں بنائی گئی جیل میں چوطرفہ حملوں کے بعد بھی وہ اپنے قیدیوں کو نجات دلانے میں ناکام رہی ہے اور آ ج صہیونی حکومت پر دنیا بھر سے اس بات پر دباو ہے کہ وہ ایک بار پھر انہیں لوگوں کے ساتھ ٹیبل پر آئے جنہیں وہ دہشت گرد سمجھتی ہے ۔ جہاں ہر ایک دنیا کے حالات پر نظر رکھنے والا انسان واضح مسئلہ کے حل کی طرف زور دے رہا ہے وہیں اسرائیل کی منتظمہ کو یہ خبط ہے کہ ہم طاقت کے بل پر قیدیوں کو چھڑانے میں کامیاب ہو جائیں گے جبکہ خود انہیں کے ماہرین اس بات سے متفق نہیں اور واضح طور پر کہہ رہے ہیں۔

’یرغمالیوں کی واپسی صرف سفارتی ذرائع سے ہی ممکن ہے، غزہ میں اس مسئلے کا کوئی مؤثر فوجی حل فی الوقت دکھائی نہیں دے رہا۔‘

اسرائیل کا کھوکھلا پن :

جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے لوگوں کو مزاحمتی محاز کی طاقت اور اسرائیل کے کھوکھلے پن کا اندازہ ہوتا جا رہا ہے اب تو دھیرے دھیرے لوگ اسرائیل میں حماس کے حملوں کو بھول کر اپنے وزیر اعظم ہی کے خلاف مورچہ کھول رہے ہیں ان کی دانست میں جتنا نقصان حماس نے اسرائیل کو نہیں پہنچایا ہے اس سے زیادہ نیتن یاہو کی پالیسیوں نے نقصان پہنچایا ہے فارس نیوز ایجنسی کے تجزیہ نگار وحید صمدی نے موجودہ حالات پر تجزیہ کرتے ہوئے نیتن یاہو کے سلسلہ سے لکھا ہے :

’’ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ 7 اکتوبر کو ہونے والی شکست کے مجرم کا چرچا اسرائیلی پریس میں نہ ہوا ہو۔ یقیناً، زیادہ تر سیاستدانوں نے الزام کی انگلی بنجامن نیتن یاہو پر اٹھائی ہے۔ امریکیوں کے مطابق، بے بی (نتن یاہو کا عرفی نام) اسرائیل کے قیام کے بعد سے سب سے زیادہ دائیں بازو کی وزیر اعظم کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ یہی وہ شخص ہے جو اسرائیل میں سب سے زیادہ اختلاف و تفرقہ کا سبب بھی ہے ۔

نیتن یاہو کا خبط اور اسرائیل کی تباہی :

تجزیہ کاروں کے مطابق، نیتن یاہو نے دائیں بازو کی کابینہ کے ساتھ جو اختلاف پیدا کیا اس نے اسرائیل کو بہت کمزور کیا جبکہ 7 اکتوبر کی جنگ سے چند ماہ قبل اسرائیل میں متنازعہ "عدالتی اصلاحات" کے منصوبے نے اسرائیلی فوج کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت کمزور بنا دیا تھا ۔ اب غزہ جنگ کو ختم کرنے کا نتین یاہو پر جو دباو ہے وہ نیتن یاہو کے فوجی نظریے کے خلاف ہے جبکہ نیتن یاہو کے اس فوجی نظریہ سے ابھی تک اسرائیل کو کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اس کے برخلاف امریکی و اسرائیلی ماہرین کے مطابق نیتن یاہو کی موجودہ سیاست اسرائیل کو بالعموم اور فوج کو بالخصوص اور بھی زیادہ مہلک ضربیں پہنچانے کا سبب ہیں ۔

ماہرین کے درمیان یہیں تک بات نہیں ہے بلکہ اب تو اسرائیل و امریکہ کے سیاسی حلقوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نیتن یاہو پر اپنے ذاتی مفادات کو اسرائیل کے مفادات پر ترجیح دینے کا الزام ہے۔ کیونکہ اگر جنگ ابھی ختم ہوئی تو سب سے زیادہ الزام نیتن یاہو پر ہی آئے گا سیاسی یہ ایک بڑی تباہی ہوگی ممکن ہے کرپشن کے مقدمات کی وجہ سے مقدمہ چلا کر جیل بھی روانہ کر دیا جائے ۔ اس لیے بعض اسرائیلی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ غزہ کی جنگ اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کے باوجود اس لئے جاری ہے کہ اس میں نیتن یاہو کی بقا ہے جبکہ اسمیں انسانی اور سازوسامان کے زیادہ نقصانات ہیںاور یہ سب اس لئے ہو رہا ہے نیتن کو معلوم ہے غزہ کی جنگ کے خاتمہ کے ساتھ ہی اسرائیل میں ایک خانہ جنگی جیسی کیفیت پیدا ہو جائے گی ۔ ادھر جنگ کی وجہ سے دنیا میں اسرائیل پر چو طرفہ تھو تھو ہو رہی ہے کیونکہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ اسرائیلی فوج غزہ میں کئی لوگوں کو قتل نہ کرتی ہو۔

سیاسی بقا کی جنگ :

"افرائیم گنور" نے معاریو اخبار میں اس بارے میں لکھا: "جنگ جاری ہے اور ملک کٹاؤ کی زد میں ہے۔" ہر روز اس ملک کے بہترین فرزندوں کو دفن کیا جاتا ہے۔ لیکن اس ملک کے وزیر اعظم بسسنجامن نیتن یاہو اپنی سیاسی بقا کے معاملے میں مسلسل مصروف ہیں، اس لیے وہ کسی کیمرے سے نہیں چوکتے، سوائے اس کے کہ وہ ان کے سامنے نمودار ہوں اور وہ نعرہ دہرائیں جو وہ اس وقت سے لگا رہے ہیں۔ کہ "ہم مل کر جیتیں گے۔" لیکن نیتن یاہو کا نہ سمجھ میں نہ آنے والا جملہ ہے "ایک ساتھ"۔ اس جملے میں اسرائیل کے زیادہ تر باشندے شامل نہیں ہیں۔ جن کے خیالات وزیراعظم سےمختلف ہیں۔

تمام سروے اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں کہ اسرائیل حماس کو تباہ کر دے اور اس مشن کو پور اکر سکے جس کا اعلان نیتن یاہو نے کیا ہے ۔ اور یہ اس لئے ہے کہ اسرائیلی ماہرین کے مطابق نیتن یاہو ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں جبکہ یہی وہ شخص ہے جس نے جس نے ایک دن ایہود اولمرٹ [لبنان کے ساتھ 2006 کی جنگ کے دوران اسرائیل کے وزیر اعظم] سے اپنی ذمہ داری قبول کرنے کو کہا تھا اور یہ کہا تھا کہ "آپ کو فوج اور زمینی حالات کو دفاع کے لئے تیار کرنا چاہیے تھا۔ میں نے احتساب کی اتنی کم سطح کبھی نہیں دیکھی کیونکہ ناکامی ہر سطح پر نظر آتی ہے، اس لیے اگلا قدم جو ضروری ہے وہ یہ ہے وزیر اعظم کو تبدیل کیا جائے ۔

یہ ساری باتیں سیاسی حلقوں میں ہو رہی ہیں جبکہ نیتن یاہو کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بعض ماہرین یہ تک کہہ رہے ہیں کہیتن یاہو ان دنوں اسرائیل کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں وہ حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل کی ساکھ کو ملیا میٹ کرتے ہوئے کیا تھا اس سے برا ہے اگر اندرونی طور پر دیکھا جائے تو نیتن یاہو نکا کابینہ کے انتہا پسند وزراء کے ساتھ اندرونی جھگڑوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ، امریکہ کے ساتھ تنازعات کو مزید بڑھ گئے ہیں

اسرائیل کی معیشت مشکل وقت سے گزر رہی ہے۔ عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے بعد سماجی خلیج بہت بڑھ گئی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور یورپ کے اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ نیتن یاہو کی کابینہ کی پالیسیوں کے بعد مغربی کنارہ آہستہ آہستہ ایک ٹک ٹک کر کے آگے بڑھنے اور پھٹنے کے قریب پہنچنے والاے ٹائم بم میں تبدیل ہو رہا ہے، تجزیہ کاروں کا خیال ہے۔ کہ نیتن یاہو کی پالیسیوں کا موجود ہ پس منظر عدالت اور جیل سے فرار ہے ادھر جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور دوران جنگ فوج کی کارکردگی اور حماس کی جنگی بٹالین کی تیاری کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ جنگ کے راستے میں کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آئے گا، ۔ نیتن یاہو کے لیے یہ ایک ایک ڈراؤنا خواب ہے ۔ کوئی ایسا شخص جس نے ہارتزکے مطابق ایران کے ساتھ دشمنی پر اس قدر توجہ مرکوز کی کہ اسے 7 اکتوبر کی حماس کی تیاری سمیت دیگر تمام حفاظتی پہلو نظر نہیں آئے اور دوسری طرف اس نے ایران کے خلاف کچھ حاصل نہیں کیا۔ جب جنگ کی دھول چھٹ جائے گی، نیتن یاہو تباہی کی گہرائی کو بہتر سمجھا جائے گا ، جبکہ اسرائیل کی پے در پے ناکامیوں کے درمیان یہ مزاحمتی محاذ کی بڑی جیت ہوگی کہ اس نے جو کچھ کیا اس سے بیرونی اور داخلی طور پر اسرائیل تباہی کے اس دہانے پر پہنچ گیا جسے سمیٹنے میں عرصہ لگ جائے گا ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .