حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حال ہی میں فلسطینی تنظیموں اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ ہوئی جو پانچ روز تک جاری رہی،بلاشبہ اس جنگ میں جہاد اسلامی تنظیم کے 11 کمانڈر اور ارکان شہید ہوئے جبکہ غزہ کی پٹی کے 200 کے قریب شہری شہید اور زخمی ہوئے لیکن سب سے بڑا نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل اس جنگ میں ہار گیا۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ اگر اسرائیل کے پاس یہ جنگ برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی تو وہ اتنی جلدی جنگ بندی پر راضی نہ ہوتا، نیتن یاہو کی حکومت کو اس وقت جس سنگین اندرونی بحران کا سامنا ہے اس سے نکلنے کے لیے اسے کسی قسم کی طویل جنگ کی اشد ضرورت ہے۔
اسرائیل جنگ بندی اور جہاد اسلامی کی شرائط کو قبول کرنے کے لیے فوری آمادگی ظاہر کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل میں اب جنگ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رہی، اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بھی مصر کا بہت شکریہ ادا کیا جس نے جنگ بندی کے لیے ثالث کا کردار ادا کیا۔
اسرائیلی اخبار ھارتز نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ایک مضبوط فوجی طاقت ہونے کے باوجود اسرائیل غزہ کی پٹی کو اپنی شرائط پر راضی نہیں کروا سکا۔
حماس اور جہاد اسلامی دونوں نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اگر اس نے ٹارگٹ کلنگ کی پالیسی پر عمل کیا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے اور جنگ بندی اس شرط کے ساتھ ہوئی، حالانکہ نیتن یاہو حکومت نے صرف اتنا کہا کہ جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے،اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
اسرائیل نے یہ جنگ جہاد اسلامی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے منصوبے کے ساتھ شروع کی اور اس نے فلسطینی تنظیموں کے درمیان تصادم پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا،جہاد اسلامی تنظیم مضبوط ہوتی گئی اور جہاد اسلامی کی مقبولیت نہ صرف فلسطین بلکہ عرب اور عالم اسلام کی سطح پر بہت بڑھ گئی۔
اسرائیلی حملوں کے جواب میں فلسطینی تنظیموں نے تواتر کے ساتھ میزائل حملے کر کے ثابت کر دیا کہ جہاد اسلامی کے کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ سے بھی اس تنظیم کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے بقول اسرائیل کو فلسطینی تنظیموں کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے، وہ دونوں گروہوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور ان کی اندرونی ڈیٹرنس کو بحال کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔
صیہونی حکومت کے حملوں کے جواب میں فلسطینی تنظیموں نے ایک مشترکہ آپریشنل کمانڈ قائم کرنے، مشترکہ طور پر پورے تنازعہ والے علاقے کا انتظام کرنے اور ایک مضبوط مزاحمتی قوت کو برقرار رکھنے میں سرعت دکھائی، جس کے نتیجے میں اسرائیل کے ساتھ فوری طور پر تصادم شروع ہوا، یہاں تک کہ مصر سے جنگ بندی کی اپیل کرنی پڑی۔
فلسطینی تنظیموں کی فضائی دفاعی فورسز نے تل ابیب کے بن گوریان ہوائی اڈے پر فضائی ٹریفک بند کر دی اور بیس لاکھ سے زائد صہیونی تہہ خانوں میں چھپنے پر مجبور ہو گئے، غزہ کی پٹی کے قریب صہیونی بستیوں کے مکین دوسرے علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
5 روزہ جنگ میں فلسطینی تنظیموں کی جانب سے داغے گئے تقریباً 1500 میزائلوں میں سے دو تہائی میزائل اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام میں گھس کر اسرائیلی علاقوں پر گرے، جس کی وجہ سے اسرائیل کو پہلی بار اپنا نیا فضائی دفاعی نظام ڈیوڈ سلنگ استعمال کرنا پڑا، لیکن پھر بھی اسرائیل خود کو فلسطینیوں کے میزائلوں سے نہیں بچا سکا۔
اسرائیل مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو روکنے کے لیے آئرن ڈوم اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے واول بیلسٹک اور کروز میزائلوں کو روکنے کے لیے ڈیوڈ سلنگ نامی نظام کا استعمال کرتا ہے۔
جہاد اسلامی تنظیم نے صیہونی حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں پر 1469 میزائل داغے اور جنگ بندی کے نفاذ تک اسرائیلی بستیوں پر میزائلوں کی بارش جاری رکھی، درحقیقت کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق جنگ بندی کے نفاذ کے بعد کئی گھنٹے تک جہاد اسلامک کے میزائل حملے جاری رہے۔
اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کی 5 روزہ جنگ صیہونی حکومت کی ایک بہت بڑی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے اپنی شکستوں کی طویل فہرست میں ایک نئی شکست کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔