۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
فلسطین

حوزہ / بے گناہ اور بے چارے فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیل کے وحشیانے حملے کو تقریبا چھ  مہینے ہو رہے ہیں جس میں 31 ہزار سے زیادہ افراد اب تک شہید ہو چکے ہیں۔

تحریر: مولانا سکندر علی ناصری

حوزہ نیوز ایجنسی | بے گناہ اور بے چارے فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیل کے وحشیانے حملے کو تقریبا چھ مہینے ہو رہے ہیں جس میں 31 ہزار سے زیادہ افراد اب تک شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے اور 28 ہزار بچے ایسے ہیں جن کے سروں سے والدین کا سایہ اٹھ گیا ہے۔

اس تعداد کے تین برابر افراد زخمی ہیں ان کے علاج و معالجہ کی کوئی سہولت مہیا نہیں۔ غزہ پٹی پر ایک قیامت کا سمان ہے ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں، معصوم بچوں کی آنکھوں سے نیندیں اڑگئیں ہیں، دل کا سکون بھی چھن گیا ہے، کان چیر نے والی مہیب، خوفناک صداؤں سے معصوم بچے سہمے ہوئے ہیں۔ نہ دن کو انہیں سکون ہے نہ ہی رات کو آرام ہے،نہ گھر کی چھت نصیب ہے نہ ہی پناہ گزین کیمپوں میں امن ہے، پریشانی کی کیفیت میں سانسیں لے رہے ہیں۔

کوئی گھر کے ملبے پر کھڑا اپنی یاد ماضی میں گم ہے تو کوئی ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے میں سرگرم ہے، کوئی ملبے سے زخمی بچہ نکال رہاہے، کوئی اپنے بچے کو ڈھونڈ رہا ہے، کوئی اپنے پیارے بچے کو کفن دے رہا ہے، کہیں شہداء پر دستہ جمعی نماز جنازہ ادا ہو رہی ہے، کہیں دستہ جمعی تدفین کی جا رہی ہے۔

ان مظالم پر ملتیں تو بیدار ہوچکی ہیں لیکن حکومتوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا میں غزہ کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔

365 کلومیٹر مربع پر پھیلا غزہ کا یہ چھوٹا سا رقبہ سخت محاصرے میں ہے بنیادی ضروریات سے بالکل محروم ہے، خوراک کی قلت ہے، سوء تغذیہ جیسے مسائل کا سامنا ہے، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، پھول جیسے چہرے ماں باپ کے آنکھوں کے سامنے سکڑ رہے ہیں، جوان بیٹے بوڑھے باپ کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے رہے ہیں، کہیں پر معصوم بچے اپنے ماں باپ کی لاش پر بین کرتے نظر آتے ہیں، کہیں یہ بچے ماں باپ کو ہمیشہ کے لئے وداع کرتے اور خدا حافظ کہتے دکھائی دیتے ہیں، کہیں معصوم بچوں کی لاشوں پر مائیں غمگین کھڑی ہیں، کہیں ان کی فریاد جنگی جہازوں کی خوفناک آواز میں گم ہے، کئی خاندان ایسے بھی ہیں کہ کوئی ان کا وارث نہیں رہا، پورا گھر اجڑ گیا ہے۔

ایسے سخت حالات میں نہ بچوں کے لبوں پر کوئی شکوہ ہے نہ ماں باپ کو ان سے کوئی شکایت ہے ان کو اگر شکایت ہے تو عالمی برادری سے ہے، ظلم و ستم کے پہاڑ غزہ کے بےچارے لوگوں کے سروں پر توڑ دئے پھر بھی نہ عرب ممالک کے سربراہوں، نہ ہی مسلم ممالک کے سربراہوں، نہ ہی اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی عملی اقدام اٹھایا گیا۔ صرف زبانی جمع و خرچ پر ہی اکتفاء کیا۔

غزہ کے تمام لوگوں میں جو چیز مشترک ہے جس کی لاکھ تعریف کریں بھی کم ہے، وہ ان کی استقامت، صلابت، شجاعت اور صبر و تحمل ہے خدا پر اور انبیاء الہی پر ایمان رکھنے کے نتیجے میں یہ بےمثال بلند خصوصیات ان کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھر چکی ہیں۔

غزہ پر اگر کوئی باریک بینی سے نگاہ کرے تو لوگوں کے لئے ایک معجزہ سے کم نہیں۔ اس چھوٹے رقبہ پر چھ مہینے سے مسلسل اسرائیل جیسا طاقتور ملک سب سے پیشرفتہ اسلحوں سے حملے کر رہا ہے لیکن روز بہ روز مقاومت کے حوصلے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ دنیا میں غزہ ،آبادی کے تناسب سے پرتراکم شہروں میں سے شمار ہوتاہے ۔بائیس لاکھ سے زیادہ افراد تقریبا 365 کلو میٹر مربع پر شامل رقبہ پر زندگی کر رہے ہیں۔ اگر آبادی کے تناسب میں دیکھیں تو ہر کلو میٹر مربع پر 5327 افراد بستے ہیں یہی وجہ کہ غزہ میں فلک بوس عمارتیں زیادہ نظر آتی ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے اس کے تین برابر زیر زمین ٹنلز کی صورت میں موجود ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے غزہ لب ساحل مدیترانہ پر واقع ہے اور جو علاقے ساحل سمندر پر واقع ہوں وہاں 10 فٹ یا اسے زیادہ گہرائی میں کھودنے سے پانی نکل آتا ہے لیکن غزہ میں سو فٹ بھی کھودیں وہاں پر پانی کی کوئی خبر تک نہیں۔

یہ اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے جس سے تحریک حماس نے بھر پور فائدے اٹھائے اور پورے دفاعی سسٹم کو زیر زمین رکھا۔ اس طرح دشمن کی نظروں سے مخفی رکھنے میں کامیاب ہوئی اور آج آپ دیکھ رہے ہیں جدید اسلحوں سے وحشیانے حملے ہو رہے ہیں لیکن دفاعی اعتبار سے تحریک حماس کی توانی اور طاقت میں کوئی کمی اور کمزوری نہیں آئی ہے۔

اسرائیل حماس کی بات کو قبول کر کے جنگ بندی پر کیوں راضی نہیں ہو رہا ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے آپ اگر اسرائیل کے اندرونی حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ سب تبادل اسرا کے حق میں ہیں اور جنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ طوفان الاقصی کے بعد اسرائیل نے یہ کہا کہ اب ہم غزہ سے حماس کا بالکل خاتمہ کر یں گے اور اسرا کو کسی شرط و شروط کے چھڑوا دیں گے اور حماس کی جگہ پر کوئی متبادل کسی اور کو لائیں گے لیکن اب تک ان میں سے کوئی ایک ہدف بھی حاصل نہیں ہوا ہے نہ صرف یہ بلکہ اسرائیل مزید دلدل میں پھنستا جا رہا ہے۔

نیتن یاہو چاہتا ہے کہ جنگ کو روکنے کے لئے جیت کا معمولی بہانہ ہاتھ آئے لیکن ایسا موقع ملنا مشکل لگتی۔ اگر بغیر اس کے جنگ کو روک دیے تو جس دن جنگ روکی اسی دن نیتن یاہو کی حکومت کو نہ صرف جانا ہوگی بلکہ نیتن یاہو اور اس کا کابینہ جرائم میں مرتکب ہونے کی بناء پر جیل جانا ہوگا لہذا جنگ کے طول ہونے میں اس کو فائدے ہیں وہ نہیں چاہتا کہ جلدی سے جنگ ختم ہو۔

عالمی برادری کا اور امریکہ کی جانب سے بھی اسرائیل پر بہت دباؤ اور پریشر ہے کہ جنگ کو مزید پھیلنے سے روکے ورنہ دوسری صورت میں پورا خطہ ناامن ہونے کا حتمال زیادہ ہے ۔ امریکہ کی ابتداء سے کوشش رہی کہ جنگ غزہ سے باہر کشیدہ نہ ہو اسی کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا رہا لیکن اس میں وہ ناکام رہا جبکہ اسرائیل سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ ایران کو جنگ میں گھسیٹا جائے۔ اس کے لئے وہ ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اس کی ایک مثال سید رضی پر حملہ اور جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر ہونے والا حملہ ہے۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں مل کر یہ حملہ کروایا جب ایران نے وطن عزیز پاکستان کے ساتھ ہماہنگی کے بعد ان دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور پہلے سے طے شده منصوبے کے تحت پاکستان نے بھی حملہ کیا تو اسرائیل اور امریکہ خوشی سے پھولے نہ سما سکے اور پاکستان کے حملے کے بعد فورا امریکہ کے وزیر خارجہ نے فخریہ انداز میں کہا کہ اب تو ایران بند ڈبہ سے باہر نکلا ہے۔

در حقیقت پاکستان اور ایران کو آپس میں لڑانا مقصود تھا دونوں ممالک کی ہوشیاری اور دور اندیشی سے امریکہ اس میں ناکام ہوا۔ ایران کو کہیں پھنسانے کی ان کو بڑی خواہش تھی ایران کی ذکاوت اور فراست کی وجہ سے ان کے شرور سےامان میں ہے لیکن کرنا خدا کا یہ تھا کہ الٹا امریکہ مشرق وسطی میں بری طرح سے پھنس چکا ہے ۔عراق میں حشدالشعبی روز امریکی افواج پر حملے کر رہی ہے، سوریہ میں بھی امریکی فوج مورد حملہ ہے، دریائے سرخ میں امریکی کشتیوں پر انصار اللہ حملے کر رہی ہے، پورے یورپ کو بہت پہلے سے اس اہم دریائی اسٹریٹیجک کا علم تھا یہ سارے ممالک مل کر اس باب المندب کو انصار اللہ کے ہاتھوں سے چھیننے کے لئے سعودی عرب کے ذریعہ آٹھ سال جنگ مسلط کی اس جنگ میں ظاہرا حملے سعودی عرب کر رہا تھا لیکن پس پردہ ستر مسلم اور غیر مسلم ممالک مل کر انصار اللہ کے ساتھ جنگ لڑ رہے تھے۔ آٹھ سال کے بعد بھی یہ ممالک یمن والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے بلکہ روز بہ روز حریف کے ہاتھوں ان کی پےدرپے شکست ہوئی۔

آخر میں مجبور ہو کر جنگ بندی پر راضی ہوا اس وقت بھی یمن کا زمینی، دریائی اور ہوائی ہر طرف سے محاصرہ تھا۔ تین لاکھ افراد کو موت نے آغوش میں لیا، کہیں سے بھی اس ظلم و بربریت کے خلاف آواز نہیں اٹھی عالمی استکبار کی سعودی عرب کو حمایت حاصل رہی آج فرق یہ ہے کہ امریکہ مجبوری میں انصار اللہ کے سامنے آیا ہے اس لئے ملک بدر الدین نے ابتداء میں ہی کہا "امریکہ ہم سے لڑنے آیا تو ہمیں خوشی ہوگی" تا کہ دنیا کو دکھا سکیں گے کہ امریکہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

ہوا بھی ایسا ہی۔ کئی ہفتے تک امریکی وزیر خارجہ نے مختلف ممالک کے دورے کئے اور ایک مضبوط اتحاد انصار اللہ کے خلاف بنانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی بےنتیجہ رہا۔ دس ممالک امریکہ کے ساتھ میز پر اکٹھے بیٹھنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوئے۔ اس کا مطلب ہے انصار اللہ اس وقت عالمی سیاست پر پوری گرفت رکھتی ہے ایک ہفتے میں ختم کرنے کے خواب دیکھنے والوں کا خواب چکنا چور ہوا آج اس کے پاس ایسے میزائل ہیں کہ جن کی رینج حیفا تک ہے۔

اس کی اس قدرت اور طاقت کو دیکھ کر دنیا حیران ہے کہ اس کو یہ کہاں سے ملی۔ صرف یہ اسلحے جنگ نہیں جتواتے بلکہ جنگ میں سب سے زیادہ ضرورت ایمان کی ہوتی ہے۔ یہ صفت اہل یمن اور اہل غزہ دونوں کے پاس ہے۔

اہل ایمان کا یہ اتحاد خطے کی سیاست میں ایک سنگ بنیاد ہوگا اور مستقبل میں اس خطہ کی قسمت کا فیصلہ بھی یہی کرے گا۔ ظلمتوں، اندھیروں اور تاریکیوں کا دور اب ختم ہوگا اور ان افراد کے ایمان کے سایہ میں سحر طلوع ہو گی اور یقین مانیں! موجودہ حالات اسی سحر کی نوید ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .