تحریر: مولانا سکندر علی ناصری
حوزہ نیوز ایجنسی| طوفان الاقصیٰ آپریشن نے غاصب اور قابض اسرائیل کی ابہت کو ملیا میٹ کردیا اور اس کے غرور و تکبر کو خاک میں ملایا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی رات میں کیسے ممکن ہوا؟ اسرائیل کے پاس دنیا کی سب سے پیش رفتہ جدید ٹیکنالوجیز ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی ایجنسی دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں سے ہے نہ صرف اسرائیل کے لیے موساد کام کرتی ہے بلکہ اسرائیل کو بچانے اور اس کے استحکام کی خاطر دوسرے بہت سے ممالک کی ایجنسیاں بھی اس کے ساتھ تعاون کرتی ہیں ان تمام باتوں کے باوجود طوفان الاقصی آپریشن نے اس کو ناقابل جبران شکست سے دوچار کردیا۔ در حقیقت تحریک حماس کے عسکری شعبہ القسام برگیڈیر کے جنرل محمد الضیف دو سالوں سے منظر عام سے غائب تھا اچانک وہ منظر عام پر آکر اس آپریشن کا پہلا مزائل فائر کیا اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان دو سالوں میں بےکار نہیں بیٹھا ہے بلکہ وہ اس آپریشن کے منصوبے بناتا رہا ہے اور اس کی تائید حماس کے بیانات سے ہوتی ہے کہ دوسال سے وہ لوگ اس کی تیاری کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہ آپریشن ایک ہفتہ دو ہفتے کے لیے نہیں بلکہ یہ دوسال تک کے لیے بنایا گیا آپریشن ہے جس کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کا اختتام قبلہ اول قدس کی آذادی پر منتج ہوگا۔1973کی عرب اسرائیل جنگ میں عرب کی شکست ہوئی اس نے اسرائیل کو علاقے میں ایک بڑی طاقت قوت کے طور پر پیش کیا اس کے بعد سے کسی میں جرئت نہیں ہوئی کہ اس کے ساتھ جنگ لڑے لیکن پہلی بار تھی حزب اللہ کے جوانوں نے 2006 میں 33 روزہ جنگ میں بہادری کے ساتھ اسرائیل سے جنگ لڑی اور اسرائیل کے تمامتر ظلم و بربریت کے سامنے خدا پر توکل کرتے ہوئے پوری طرح سے استقامت دیکھائی جنوب لبنان آج کی غزہ پٹی کی طرح ویران ہوگیا کھنڈرات میں بدل گیا اس وقت بھی لبنان کے مظلومین کے حق میں کوئی بولنے والا نہیں تھا اسرائیل کے وحشیانے حملوں میں بے گناہ بچے عورتین شھید ہوئیں لیکن حزب اللہ کےصبر تحمل اور استقامت کے نتیجے میں حزب اللہ لبنان نے اپنی بات منواکر جنگ ختم کی اپنے اسیروں کوباعزت طور پر چہوڑوانے میں کامیاب ہوی جس میں اسرائیل کو بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے اور یہ اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بڑی شکست تھی۔ یہ الاقصی آپریشن تاریخ اسرائیل میں وہ پہلی جنگ ہے جس نے اسرائیل کے سیاسی، سیکورٹی اور فوجی اداروں کو بہت بڑا دھچکا پہنچایا ہے جو امیج اس کا دنیا میں تھا وہ اب ختم ہوگیا ہے دنیا میں مضبوط فوجی اعتبار سے اسرائیل چوتھے نمبر پر ہے۔عرب اسرائیل کی جنگ کی تاریخ بہت طویل ہے 1967 میں جب عرب اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھیڑی جو چھ روزہ جنگ کے نام سے مشھور ہے، چھ روز میں اسرائیل نے تمام عرب ممالک کو واضح شکست دی اسے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسنے اپنے کو توسیع دی اس جنگ میں اسنے نوار غزہ اور جزیرہ سینا کو مصر سے کرانہ باختری کو نہر اردن اور یوریشلم کو شرق اردن سے اور جولان کے پہاڑ کو سوریہ سے غصب کیا اور انہیں اسرائیل میں شامل کیا اس چھ روزہ جنگ میں عرب کی بیس ہزار فوج اور اسرائیل کی آٹھ سو فوج مارےگۓ اس میں اسرائیل جنگ جیتی اس کے بعد سے دنیا خصوصا عرب ممالک کے اذھان میں یہ بیٹھ گیا کہ اسرائیل ناقابل شکست قوت ہے اس لیے کوئی بھی اسے جنگ کرنا تو دور کی بات حتی سوچنا بھی ناقابل معاف جرم سمجھنےلگا اسی وجہ سے اسرائیل کی جرئت اور غرور و تکبر میں اصافہ ہوتا رہا جس کے نتیجے میں جو کچھ اس کے دل میں اتا وہی بےچارے فلسطینوں کے ساتھ کرتا رہا انسانی حقوق پامال کیا اور احترام انسایت کو نظر انداز کیا معصوم فلسطینی بچوں کو بےدردی سے شھید کیا ممنوعہ بموں کو وحشیانہ اندازے سے استعمال کیا لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی مسلمانوں کو تہ تیغ کیا فلسطین جلتی رہی یہ دنیا تماشا بنکر ان دلسوز مناظرکودیکھتی رہی ماں باب کے سامنے ان کے بچے ٹکرے ہوتے رہے انسانی حقوق کے علمبردار خاموش تماشے بنے ماں بہنوں کی عزت لٹتی رہی لیکن حقوق نسواں کی تنظموں کے لبوں پر تالے پڑہے رہے کوئی ان مظالم پر بولنے کی جرئت نہیں کی آزادی بیان کے بلند و بالا نعرے لگانے والے میڈیا صحنے سے غائب ہوگے آج بھی غزہ پر وحشیانہ حملے ہو رہے ہیں جان ہاتھیلی پر رکھے اخباری کتنے نمائندوں کو اسرائیل نے نشانہ بنایا اور شھید کیا لیکن کوئی اخبار اپنے ان نمائندوں کی حمایت میں اسرائیل کی مذمت تک کرنے کا گوارہ نہیں کرتا ہے آج غزہ آگ کے شعلوں میں ہے کتنے خاندان ایسے ہیں جن کا کوئی نہیں رہاء کوئی ملبے تلے امداد کے انتظار میں ہے کوئی بچہ زخمی کی تاب نہ لاتے ہوے جان دے رہا ہے بچہ ماں کے سامنے سکڑ رہا ہے کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں اتا کوئی مرہم پٹی کے لیے چیخ رہاہے اس وقت غزہ میں قیامت برپا ہے امداد کی شدید ضرورت ہے دواء کی قلت ہےشھداء کی تعداد میں بے تحشا اضافہ ہو رہاہے ہر طرف خون میں لت پت لاشیں بکھری پڑی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ کہ امداد رسان اداروں کو جانے کی اجازت نہیں زخمیوں کو لے جانے والے ایمبولینس کو بھی نشانہ بنایا جاتاہے نہ ہسپتال محفوظ ہیں نہ اسکولز، نہ گھر محفوظ ہیں، نہ ہی آشیانے نہ ہی مساجد محفوظ ہیں اس وقت آپ غزہ کی مظلومیت کو دیکھیں کہ جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے وہاں کی بجلی پانی اور گیس بند ہیں اور مزید غذا اور بنیادی ضروریات بند کرنے کی دھمکی دے رکھی لیکن یہ جنگ یقینا مظلوم فلسطینیوں کے حق میں تمام ہوگی اگرچہ اسرائیل کی کوشش ہے اپنی دردنگی کے زریعے غیور ملت فلسطین کو کچلنے کی لیکن ان کا یہ خواب نہ پورا ہوا ہے نہ آیندہ پورا ہوگا اسرائیل اس میں ایران کو ملوث کرنے کی تلاش کر رہا ہے کہ علاقہ میں ایک جنگ چھیڑے جس میں کسی نہ کسی طرح سے امریکہ کو ایران کے مقابل میں لاکھڑا کرسکے لیکن براہ راست امریکہ اس میں مداخلت نہیں کریگا اس کے بھی کچھ عوامل ہیں ایک تو یہ اس وقت یوکرائین کے مسئلہ میں پھسا ہوا ہے دوسرا تایوان میں چین کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور امریکہ مالی طور پر بھی کمزور ہوچکاہے اس وقت امریکہ پس پردہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا، لیکن سب حیران اس آپریشن کے بارے میں ہیں کہ یہ اپریشن ایک دن یا دو دن کا کام نہیں ایسے بڑے آپریشن کے لیے ہفتوں اور مہینوں کی تیاری کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر اتنے عرصے تک حماس بیک گراونڈ میں اسرائیل کے خلاف منصوبے بناتے رہے اسرائیل کو اس کا پتہ تک نہیں ہوا یہ خود اپنی جگہ پر اس کی ایک بڑی کمزوری ہے اس کی پیشرفتہ دور بین اور ریڈار سیسٹم پوری طرح فلسطین پر فوکس ہوتا ہے اس کے باوجود انکے آنکھوں سے مخفی یہ آپریشن کامیاب ہونا کوئی معجزہ سے کم نہیں جنگی اور اطلاعاتی شعبوں کے ماہرین اور متخصصین کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کی تیاری ایک غیر معمولی طریقے سے ہوئی ہے اور اس آپریشن کے منصوبے کو مخفی رکھنے کے لیے دور حاضر کے تمام جدید وسائل اور زرائع سے دوری اختیار کی تاکہ پیش رفتہ اسلحوں کی آنکھ سےمخفی رہ سکے لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ اچانک حماس نے یہ قدم کیوں اٹھایا ایک بات تو یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل پر حملہ کرنے کا مناسب موقع تھا کیونکہ اسرائیل اندرونی طور پر اختلافات کا شکار ہے تقریبا سال ہونے والا ہے کہ نتن یاہو کے خلاف لوگ سرکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ دوسری بات اسرائیل یوکرائین کے مسئلہ میں کھل کر روس کے خلاف یوکرائین کے ساتھ دیا ہے اسے حماس نے اپنے لیے غنیمت سمجھی تاکہ روس کی حمایت حاصل کرسکےتیسری بات جو بھی اسرائیل کے حامی ممالک ہیں وہ اس وقت یا اندرونی یا تو بیرونی بڑے مسائل اور مشکلات میں پھسے ہوئے ہیں وہ اگر اسرائیل کی حمایت بھی کرنا چاہے بھی تو کچھ نہیں کر سکتے ہیں چوتھی بات یہ ہے کہ عرب ممالک بھی پہلے کی طرح اسرائیل کے ساتھ نہیں دینگے اس کی تائید امریکہ کے وزیر خارجہ کا دورہ خلیج کے بعد جاری بیان سے معلوم ہوتی ہے اس آپریشن کے فورا بعد امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلینکن نے اسرائیل کا دورہ کیا وہاں اسنے بیان دیا غزہ کے لوگ غزہ چھوڑ کر نکل جائیں یہ در حقیت اسرائیل کا مطالبہ تھا اس کی اسنے تائید کی اس کے بعد وہ عرب ممالک کے دورے کیے دورہ کے اختتام پر اس نے کہا کہ امریکہ نقلی مکانی کے مطالبات کو مسترد کرتا ہے اس کا مطلب ہے عرب ممالک نے ساتھ دینے سے انکار کیا ہے لیکن ہماری دعا ہے کہ اے اللہ مظلوم ملت فلسطین کو نصرت اور کامیابی عطا فرما آمیں یا ایھا المسلمون اتحدوا اتحدوا!