تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | آج پانچ ہفتے ہونے آئے صہیونی حکومت کی جا نب سے مسلسل غزہ پر بمباری ہو رہی کےہے نہ جانے کتنی ہی مانگے اجڑ گئیں کتنی ہی گودیں ویران ہو گئیں کتنے ہی بچے یتیم ہو گئے ابھی تک ۵۷ اسلامی ممالک مل کر کچھ ایسا نہ کر سکے جس سے احساس ہو انکے وجود میں ایمانی حرارت کی تپش ہے اور انکا دل اپنے بھائیوں کے لئے تڑپ رہا ہے یہ سب خوف کے مارے دم دبائے بیٹھے ہیں سوائے اسلامی انقلاب اور ا س سے متاثرہ معاشروں کے کسی نے بھی ہمت نہ کی کہ اسرائیل کے مقابلہ پر کھل کر کہہ کرنے یا کہنے کی جرات رکھتا جبکہ طوفان الاقصی نے اسرائیل کے طاقت کے غبارے کی ہوا ان چند دنوں میں ایسے نکالی کہ اب تک خود صہینویوں کو بھی یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد سے لیکر اب تک جو سارے اسلامی ملک مل کرنہ کر سکے وہ حماس نے کر دکھایا ، حماس کے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد مسلسل اسرائیل کی یلغار اور اس کے سامنے مزاحمتی محاذ کے ڈٹے رہنے کو دیکھتے ہو یہ بات سمجھ آ رہی ہے کہ جو کچھ حماس نے کیا اگر اسکی پشت پناہی اسلامی ممالک مل کر کرتے تو جنگ کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصرا اللہ نے اسرائیل کو مکڑی کے جالے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا تھا سچ کہا تھا ’’ سب سے ہلکا اور ناپائدار گھر مکڑی کے جالے کا گھر ہوتا ہے اور اسرائیل مکڑی کے جالے سے زیادہ نہیں ہے ۔ یوں تو بارہا قائد حریت کا یہ جملا سچ ثابت ہوا لیکن حالیہ حماس کی جانب سے طوفان الاقصی نامی آپریشن نے مکڑی کے جالے کی حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے دنیا پر واضح کر دیا کہ کہ میڈیا کے بل پر تشہیراتی مہم چیڑھ کر اس نے اپنی طاقت کا جو قلعہ لوگوں کے ذہنوں میں بنایا تھا وہ قلعہ نہیں اس کی حیثیت سراب سے زیادہ نہ تھی۔
اس سے پیشتر عبرانی زبان کے معروف روزنامے ہاآریٹز نے مقبوضہ فلسطین کی مخدوش سیاسی اور اقتصادی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے بھی اعتراف کیا تھا کہ صیہونی حکومت کو مکڑی کے گھر سے تشبیہ دینے کے حوالے سے لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا نظریہ درست ثابت ہو رہا ہے۔ چنانچہ مہر خبر رساں ایجنسی نے المیادین نیوز کے ذریعہ مقبوضہ فلسطین کی کشیدہ صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے عبرانی زبان کے اخبار Ha’aretz نے اس خبر چھا پا تھا کہ لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی غاصب صیہونی حکومت کو مکڑی کے گھر سے تشبیہ دینے کی پیشن گوئی درست ثابت ہو رہی ہے۔ جو بات اسرائیل کے روزناموں اور اخباروں کے ورد زبان تھی آج ہر ایک دیکھ رہا ہے کہ کس طرح طاقت کے غبارے سے چندجیالوں نے ہوا نکال کر دنیا پر واضح کر دیا کہ الہی طاقت سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہے ۔
طوفان االاقصی کے بعد دوسرے تو کیا خود اسرائیل کے ذمہ داروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جو کچھ ہوا ہماری سوچ سے پرے ہے فارس بین الاقوامی نیوز گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی خفیہ سراغرساں ایجنسی موساد کے سابقہ سربراہ افریم ہیلوی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’طوفان الاقصی ‘‘ ایک منفرد و بے نظیر ایسا آپریشن تھا جس کی مثال نہیں ملتی ، موساد کے سابقہ سربراہ نے اس امریکی چینل سی ان ان کو انٹریو دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر ۳ ہزار م میزائل غزہ سے اسرائیل کی طرف روانہ کی گئیں یہ ہمارے تصور سے پرے ہے ، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کے پاس اسقدر راکٹس اور میزائلیں ہیں اور نہ ہی ہمیں اسکا اندازہ تھا کہ اسقدر موثر ہونگی ، ہمیں کوئی انتباہ نہیں ملا جو کچھ ہوا وہ بالکل اچانک ہوا ہماری توقع کے برخلاف ہوا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیلی افواج کو بھنک لگے بغیر حماس نے اس حملے کے زبردست رہیرسل کی ہوگی ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مزاحمتی محاذ اسرائیل کے اندر داخل ہو کر کچھ شہروں پر اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب ہو جائے۔
سنیچر کی صبح حماس کی جانب سے اسرائیل پرراکٹ حملوں کی خبر کے قریب دو گھنٹے کے بعد القسام بٹالین کے کمانڈر ’’ محمد الضیف ‘‘ نے طوفان الاقصی نامی آپریشن کے آغاز کی خبر دی ، مزاحمتی محاذ کی فورسز نے ایک تاریخی آپریشن میں کم از کم ۷ صہیونی شہروں میں گھس کر صہیونی حکومت کے اقتدار کے شہرے کو ملیا میٹ کر دیا۔
حماس کی حالیہ انتقامی کاروائی کے بعد جہاں مبصرین و تجزیہ نگار اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں وہیں ایک امریکی فوجی تجزیہ نگار نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ’’ اس وقت صہیونی حکومت کی جا نب سے جوابی کاروائی کا معاملہ بہت پیچیدہ اور سخت ہو گیا ہے ‘‘۔ گزشتہ ۴۷ دنوں سے تابا توڑ بے ر حمانہ حملوں کے بعد بھی اسرائیل ابھی تک حماس کے ہاتھوں قید اپنے فوجیوں کو چھڑانے میں ناکام رہا ہے۔
’’فلیپ ٹامسن ‘‘ نامی ایک امریکی تجزیہ گار نے آسٹریریا کی نیوز ایجنسی اسکای نیوز سے گفتگو کے دوران کہا کہ اب اسرائیل کی جانب سے جوابی کاروائی بہت پیچیدہ ہو گئی ہے اس لئے کہ اسرائیلی یرغمالی فلسطینیوں کے ہاتھوں میں ہیں ، اس فوجی تجزیہ کار نے کہا یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ فلسطینیوں نے اسرائیلیوں کو اپنے عمل سے ہلا کر رکھ دیا ہو اور ان پر وحشت طاری کر دی ہو ، مذکورہ تجزیہ کار نے کہا کہ صہیونیوں پر اب دباو رہے گا کہ وہ اپنے قیدیوں کو آزاد کرائے ، اور یہ اسرائیل کی اولیں ترجیح میں ہوگا کہ اسرائیل کے قیدی اپنے گھر واپس پہنچیں ۔
یاد رہے کہ اب تک کے طوفان الاقصی آپریشن میں جتنے صہیونی ہلاک ہو ئے ہیں انکی اسرائیل کی تشکیل سے لیکر اب تک عدیم المثال ہیں۔
اسرائیل کے طاقت کے غبارہ کی ہوا اور مزاحمتی محاذ :
اسرائیل نے اپنی طاقت کے غبارے میں ذرایع ابلا غ کے تشہیری پمپ سے جو ہوا بھری تھی مزا حمتی محاذ نے ۷ اکتوبر کو اس طرح نکالی کہ امریکہ و اسرائیل کی انٹلیجنس سرویسز بھی حیران و پریشان ہیں کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا ؟
صہیونی حکومت نے جس گنبد آہنی کی تعمیر میں ملینوں ڈالر خرچ کر دئے تھے جس کو لیکر دنیا بھر میں مشہور تھا کہ اسرائیل کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا اسے دنیا نے مزاحمتی محاذ کے سامنے دم توڑتے ہوئے دیکھا ۷ اکتوبر صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے کا وقت تھا جب راکٹوں کی برسات شروع ہوئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اسرائیل کے شہروں میں غزہ کے راکٹ نظر آ رہے تھے۔
حماس کے اِن ہزاروں راکٹوں کے خلاف اسرائیل کا جدید ’آئرن ڈوم‘ نامی دفاعی میزائل نظام بالکل ناکام رہا راکٹوں کی اتنی بڑی تعداد ثابت کرتی ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی مہینوں سے جاری تھی۔ حماس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پہلے مرحلے میں پانچ ہزار راکٹ داغے گئے تھے ان حملوں کی بنا پر غزہ کی پٹی سے 60 کلومیٹر دور اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب تک میں الارم بجنا شروع ہوئے اور جلد ہی مغربی بیت المقدس اور دیگر شہروں میں جہاں جہاں میزائل گرے دھواں اٹھنا شروع ہو گیا۔راکٹوں کی اس برسات کے دوران حماس کے مسلح جنگجو اُن مقامات پر اکھٹے ہوئے جہاں سے ان کو غزہ کو الگ کرنے والی رکاوٹیں عبور کرنا تھیں۔غزہ کی پٹی کے گرد کہیں کنکریٹ سے بنی دیوار ہے تو کہیں کانٹے دار باڑ نصب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فوجی چوکیاں موجود ہیں جبکہ ایسے ہی حملوں کی روک تھام کے لیے کیمرا نیٹ ورک اور سینسر بھی نصب ہیں۔ حماس کے جیالوں نے بہت ہی تیزی سے کے ساتھ مختصر سے وقت میں ان تمام رکاوٹوں کو دور کر دیا جو صہیونی حکومت نے خود کو بچانے کے لئے کھڑی کی تھیں ، دیکھتے ہی دیکھتے حماس کے جنگجو غزہ سے نکل کر ہر سمت میں پھیل گئے اور پھر دنیا نے وہ تصاویر اور ویڈیو دیکھیں جو اسرائیل کے شہروں کی صورت حال کو بیان کر رہی ہیں ۔
حماس کے اس انتقامی آپریشن کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے کچھ وہ لوگ ہیں جو فلسطین کی مظلومیت کی حمایت کرتے ہوئے ہوئے حماس کے اس قدم کی حمایت کر رہے ہیں انکا موقف یہ ہے کہ مسلسل اسرائیل کی جانب سے بڑھتی جارحیت کا جواب اسی طرح سے ممکن ہے جو حماس نے کیا ، دوسری طرف کچھ ممالک اور دنیا کے کچھ لوگ اسرائیل کو مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں انہیں اسرائیل کے مظالم تو یاد نہیں لیکن اسرائیلیوں پر حالیہ ۷ اکتوبر کا حملہ انہیں دہشت گردانہ کاروائی نظر آ رہا ہے یہ لوگ زیادہ تر حماس کے ہاتھوں قید ہونے والے اسرائیلیوں کی دہائی دے رہے ہیں اور اسے غلط قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرح حماس کی قیادت کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان قیدیوں کے ساتھ ہم انسانی ہمدردی کا سلوک کرنے کے پابند ہیں چنانچہ حماس میں شعبۂ عالمی امور کے سربراہ بسم نعیم نے کہا ہے کہ گروہ ’پُرعزم ہے اور ہم اپنے یرغمالیوں کے ساتھ انسانی ہمدردی، پُروقار سلوک کرنے کے پابند ہیں، نعیم نے کہا کہ حماس کے رہنما محمد ضيف نے مجاہدین کو حکم دیا کہ ’معمر افراد، شہریوں اور بچوں کا احترام کریں‘ اور ’ایسے کسی فرد کا قتل نہ کریں جس کا لڑائی سے براہ راست تعلق نہیں۔‘ ‘انھوں نے اسرائیلی یرغمالیوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کی جنھیں فلسطینی مجاہدین نے حملے کے دوران قیدی بنایا تھا ۔ گھڑیالی آنسو بہانے والوں میں اسرائیل کے ایک فیسٹیول کی بہت بات ہو رہی ہے جس میں خاصے اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ اس کے سلسلہ سے نیا انکشاف سامنے آیا ہے کہ خود اسرائیل کے ہیلی کاپٹر نے اپنے ہی لوگوں کو حماس کے جنگجووں کو نشانہ بنانے میں غلطی سے فیسٹیول میں نشانہ بنایا یہ خبر اسرائیل ہی کے اخبار نے دی ہے ۔
یہاں پر عجیب بات یہ ہے کہ جو لوگ اسرائیل کے قیدیوں کے لئے گھڑیالی آنسو بہا رہے ہیں انہیں غزہ پر ہونے والے مسلسل حملے نظر نہیں آ رہے ہیں جبکہ نہ جانے کتنے ہی لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اقوام متحدہ نے جنگ کی ابتدائی دنوں میں ہی اعلان کیا تھا کہ ’غزہ میں ایک لاکھ 23 ہزار 538 افراد حماس اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی اس حالیہ جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں غزہ میں دو کروڑ 30 لاکھ فلسطینی آباد ہیں یہ تعداد اب۱۲ ہزار سے اوپر پہنچ رہی ہے جس میں تقریبا ۴۰ فیصد بچے ہیں ۔
یہیں سے ہمیں بعض ممالک اور بعض ممالک میں بسنے والے لوگوں کی انسانیت سمجھ میں آتی ہے کہ جن لوگوں کو اسرائیل کے چند ایک قیدیوں کی فکر ہے وہ ایک گنجان آبادی پر ہونے والے مسلسل تابہ توڑ حملے اور غزہ کی ناکہ بندی اور وہاں بجلی پانی کی بندش پر کیوں خاموش ہیں کیا یہ لوگ انسان نہیں ہیں ؟ اگر انکا مقابلہ حماس سے تو کیا سارے غزہ میں حماس ہی حماس ہے عام لوگ نہیں ہیں ؟ اگر عام لوگ ہیں تو یہ اسرائیل کے عام لوگوں کے لئے بولنے والے غزہ کے عام لوگوں ، مردوں اور بچوں کے لئے آواز کیوں نہیں اٹھا رہے ہیں ؟ یہ ایک بام و دو ہوا
کا کیا مطلب ہے ؟ افسوس ان کا ضمیر اتنا مردہ ہو چکا ہے کہ غزہ کی تباہی کے مناظر انہیں نہیں دکھتے ، ماوں اور بچوں کی فریادیں انہیں نہیں سنائی دیتیں ہاں اسرائیل کے مکڑی کے جالے کی انہیں بہت فکر ہے ۔
یہاں پر ان ممالک پر اور بھی افسوس ہوتا ہے جو خود کو اسلامی کہتے ہیں اور بجائے مکڑی کے جالے پر جھاڑو پھیرنے کے مسلسل اس کی اعانت کر رہے ہیں اس بات سے بے خبر ایک دن یہ جالا خود انہیں ہی اپنا لقمہ بنانے والا ہے مزاحمتی محاذ تو اپنا کام کر ہی رہا ہے جب صفائی ستھرائی کا کام اپنے عروج کو پہنچے کا تو اس مکڑی کے جالے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا کام بھی تمام ہوگا جنہوں اس جالے کے تانے بانے میں حصہ داری نبھائی تھی اور مدد کی تھی کہ یہ عنکبوتی جال مشرق وسطی میں پھل پھول سکے ۔