۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
News ID: 397415
19 مارچ 2024 - 12:15
محمد بشیر دولتی

حوزہ/ غزہ چونکہ اسرائیل کے خلاف مقاومتی تحریک کا مرکز تھا اس لئے اسرائیل ،سعودی عرب اور مصر کے ساتھ مل کر یہاں کے عوام کو مصر میں سینائے صحراء میں بسانا چاہتے تھے۔ اسرائیل کا خواب پورا ہونے سے پہلے حماس نے تاریخی آپریشن کیا۔ اس تاریخی آپریشن کے بعد ایران و عراق اور حماس و انصاراللہ کے علاؤہ دیگر مسلم ممالک کی بےحسی انتہائی افسوسناک ہے۔

تحریر: محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی | کیا آپ جانتے ہیں کہ غزہ میں اتنی بلند و بالا عمارتیں کیوں بنی تھیں؟ اگر نہیں تو جان لیجئے کہ غزہ دنیا کے کمترین رقبے پر ذیادہ آبادی والے شہروں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ کم رقبہ اور ذیادہ آبادی والے شہروں میں سنگاپور پہلا(جو در حقیقت ایک ملک اور ایک شہر بھی ہے۔) دوسرے نمبر پر چین کا ایک شہر مکاؤ اور تیسرے نمبر پر غزہ ہے۔ ذیادہ آبادی اور کم رقبے کی وجہ سے یہاں بلند بالا عمارتیں ذیادہ نظر آتی تھیں جسے اسرائیلی بربریت نے اب ملبوں کے ڈھیر میں بدل دیا ہے۔

شہر غزہ کی سرحد شمال مشرق میں اکیاون (51) کلومیٹر اسرائیل کے ساتھ، جنوب میں گیارہ کلومیٹر مصر کے ساتھ، آٹھ کلومیٹر خان یونس کےساتھ جبکہ مغرب میں چالیس کلومیٹر ساحل مدیترانہ (Mediterranean Sea) سے ملتی ہے۔

شہر غزہ تین سو پینسٹھ کلومیٹر مربع پر مشتمل خشکی کا ایسا ٹکڑا ہے جو کلہاڑی کی شکل میں غاصب اسرائیل اور مصر کے درمیان بحر مدیترانہ (Mediterranean Sea) کے کنارے موجود ہے۔

غزہ کی کل آبادی تیئیس لاکھ سے زائد ہیں

دیکھا جائے تو غزہ نے تاریخ میں کبھی اسرائیل کو ایک الگ ریاست کی حیثیت سے قبول نہیں کیا بلکہ خائن اور غاصب کے طور پر تاریخ میں ثبت کیا۔ غزہ 1917 تک یہ عثمانی خلافت کا حصہ رہا، اس کے بعد اس علاقے پر برطانیہ کا غاصبانہ قبضہ ہوا۔

برطانیہ اور یورپی ممالک 1948 میں جب غاصب اسرائیل کو زبردستی وجود میں لایا گیا تو فلسطینیوں کو زبردستی غزہ کی طرف دھکیلا گیا۔ اس زمانے میں یہ مصر کا حصہ تھا۔ تقریبآ بیس سال بعد 1967 میں اسرائیل نے مصر ،اردن اور شام کے خلاف جنگ کی تو غزہ پر پہلی مرتبہ اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہوگیا۔ اس جنگ میں یروشلم اور مغربی کنارہ بھی اسرائیل کے جارحانہ قبضے میں چلاگیا۔

1987 سے اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ اور ظالمانہ اقدامات کے سبب غزہ میں انتفاضہ کا سلسلہ شروع ہوا، جو 1993 تک زور پکڑ گیا۔ اس آزادی پسند تحریک اور مقاومت کے سبب 2015 میں اسرائیل کو اپنا کنٹرول غزہ سے چھوڑنا پڑا تو اسرائیلی فوج کے ساتھ آٹھ ہزار یہودی جو یہاں قابض ہوگئے تھے وہ بھی یہاں سے نکل گئے یوں یہ خالص مسلمانوں کا علاقہ رہ گیا۔

غزہ سے اسرائیلی انخلاء کے چند ماہ بعد ہی فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے انتخابات منعقد کرایا گیا جس میں حماس نے بےمثال کامیابی حاصل کی، جس کے نتیجے میں غزہ سے الفتح کا خاتمہ ہوا اور حماس عوامی حمایت سے اقتدار میں اگئی۔اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی الفتح جس کا کمان محمود عباس کے پاس تھا اس نے دوبارہ الیکشن نہیں کرایا کہ کہیں دیگر علاقوں میں بھی حماس عوامی حمایت سے مسلط نہ ہوجائیں۔

اسرائیل و امریکہ نے جمہوری طریقے سے آئی ہوئی حماس کی حکومت کو قبول ہی نہیں کیا۔ 2007 میں اسرائیل نے عوامی حمایت کے ذریعے حماس کے کنٹرول کے بعد غزہ کا مکمل محاصرہ کیا جو اب تک جاری ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق غزہ کو گویا کھلی جیل میں بدل دیا گیا

کہتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی مسلم ممالک کے واحد جنرل تھے جنہوں نے دومرتبہ غزہ کا خفیہ دورہ کیا۔ غزہ کے مقاومت پسند جوانوں کو غلیل اور پتھر سے مختلف راکٹوں تک پہنچانے میں اس جنرل اور ایران کا مضبوط ہاتھ ہے۔شہید قاسم سلیمانی نے اپنی نگرانی میں غزہ کے بلند و بالا عمارتوں کے نیچے گاڑی تک کی گنجائش والے مضبوط سرنگ بنوائے تھے۔

غزہ چونکہ اسرائیل کے خلاف مقاومتی تحریک کا مرکز تھا اس لئے اسرائیل ،سعودی عرب اور مصر کے ساتھ مل کر یہاں کے عوام کو مصر میں سینائے صحراء میں بسانا چاہتے تھے۔ اسرائیل کا خواب پورا ہونے سے پہلے حماس نے تاریخی آپریشن کیا۔ اس تاریخی آپریشن کے بعد ایران و عراق اور حماس و انصاراللہ کے علاؤہ دیگر مسلم ممالک کی بےحسی انتہائی افسوسناک ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .