۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
محمد بشیر دولتی

حوزہ/غزہ پر جن کی اِنسانی رگیں نہیں پھڑکتیں وہ آج ظالم و غاصب اسرائیل پر اسلامی جمہوریہ ایران کے جوابی حملے سے پھر پھڑکنے لگی ہیں۔

تحریر: محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی| ایلان کردی کو کون نہیں جانتا۔ایلان تین سالہ ایک پھول جیسا شامی بچہ تھا، اس کی تصویر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر چھاگئی تھی، کوئی میڈیا چینل نہیں تھا جس نے ایلان کردی کے بارے میں آواز بلند نہ کی ہو۔ ایلان کردی کو نہ کسی نے گولی ماری نہ کسی ملبے کے اندر دم گھٹ کے مرا تھا۔پھر بھی دنیا نے ہمدردی کا اظہار کیا مگر کیوں؟

یہ 2 دسمبر 2015ء کی بات ہے۔ عبداللہ کردی استعمار کی لگائی آگ سے اپنے خاندان کو بچانے کے لئے شام سے نکلا تھا، وہ آنکھوں میں اپنا خواب لے کر ترکی کے بحری راستے سے کینیڈا جانا چاہتا تھا۔ داعش و استعمار کی آگ سے بھاگا خاندان سمندر کی بےرحم موجوں اور پانی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ عبداللہ نے اپنی بیوی سمیت پھول جیسے دو بچوں کو ہمیشہ کے لئے کھو دیا۔

ڈوگن نیوز ایجنسی کے مطابق ایلان کی لاش ترکی کے تفریحی ساحل بورڈن سے ملی۔ یہ تصویر ترکی صحافی نیلوفر دیمی نے کھینچی تھی جس میں ننھا ایلان سمندر کنارے اوندھے منہ یوں لیٹا تھا، جیسے اپنی ماں کے انتظار میں ابھی ابھی سویا ہو۔ یہ تصویر تقریبا تمام اخباروں میں چھپی۔ ترکی کے سمندر میں اب تک ہزاروں افراد زندگی کے سنہرے خواب آنکھوں میں سجائے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سوچکے ہیں۔ ایلان کردی کی موت پر ہر آنکھ نم اور ہر دل پُرملال ہوا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں سے لے کر عالمی رہنماؤں تک،عالمی میڈیا سے لے کر مقامی پرنٹ میڈیا تک، اقوام متحدہ سے لے کر یورپی یونین تک کے اجلاسوں میں اس بچے سے ہمدردی اور شامی حکومت کی مذمت کی گئی۔بی بی سی سے لے کر وائس آف امریکا تک،فاکس نیوز سے لے کر اسرائیلی میڈیا تک نے اس بچے سے ہمدردی اور شامی حکومت کی مذمت کی۔سب کے انسانی ہمدردی کی رگ یوں پھڑکی کہ اس کی پھڑپھڑاہٹ آج بھی سنائی دیتی ہے ۔

اسی طرح ستمبر 2022 کی بات ہے کہ ایران کی اخلاقی پولیس نے نامناسب لباس پہننے پر ایک لڑکی کو تحویل میں لیا تاکہ انہیں اخلاقی کلاس میں بٹھایا جائے۔ یہ کہ ایک عام روش ہے۔ اسی دوران لڑکی کا انتقال ہوا۔ یہ بھی ایک کردی ایرانی لڑکی تھی۔چند دن بعد ان کے ایک کزن (جو ترک علیحدہ پسند گروہ سے تعلق رکھتا ہے) نے اسے عالمی میڈیا پہ قتل کے نام سے متعارف کرایا۔

ایران اور ایران سے باہر ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا۔ ایک ہفتہ تک تہران کی سڑکوں پر علماء و باپردہ خواتین کا جینا دوبھر کردیا۔ امریکہ، یورپی یونین اور اسرائیل سمیت عالمی میڈیا نے مہسا امینی کے حق میں اور ایرانی حکومت کے خلاف دل کھول کر پروپیگنڈے کئے۔

یورپی پارلیمنٹ میں مذمتی قراردادیں پاس ہوئیں۔اقوام متحدہ نے عالمی سطح پر مذمت کی۔

حد تو یہ ہے کہ اسرائیلی سفیر اس خاتون کی تصویر لےکر اقوام متحدہ میں پہنچ گیا اور ایرانی صدر کی تقریر کے دوران بھر پور احتجاج کی کوشش کی چونکہ اسرائیل کے پاس ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے اس ایک تصویر کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔

ایک گولی سر میں لگی ملالہ یوسف زئی کی ڈائری عالمی میڈیا تک پہنچ گئی، ملالہ کو ڈائری اور ایک گولی پر نوبل انعام سے نوازا،امن کے لئے رول ماڈل قرار دیا گیا،ظالموں کے خلاف مقاومت کا سنبل بن گئی۔ مغرب کی آنکھوں کا تارا بنی ۔ مغربی تعلیمی اداروں کے دروازے اس کے لئے کھل گئے۔ میڈیا نے اسے سرپہ بٹھادیا۔

اب آپ ان واقعات کے اثر سے باہر نکلیں۔آئیں ذرا غزہ کے مظلوم و بے کس عورتوں اور بچوں کی خبر لیں۔جہاں کوئی اسکول اگر بچا ہے تو بچے نہیں بچے ہیں،اگر ملبوں کے نیچے سے کوئی زخمی بچہ زندہ بچا ہے تو کوئی اسکول نہیں بچا۔جہاں نہ فقط فلک بوس عمارتوں کو زمین بوس کیا گیا بلکہ پارلیمانی بلڈنگ سے لےکر ہسپتالوں تک پر وحشیانہ حملے کئے گئے۔ مغربی میڈیا کو کئی ماہ سے جنگی حالت میں موجود غزہ کے اسکولوں اور بلڈنگوں کے ملبوں سے کسی ملالہ کی کوئی ڈائری نہیں ملی۔

ملبوں میں دبے کسی پھول سے بچے کی کوئی تصویر نہیں ملی۔ زخموں سے چور زندہ بچنے والی واحد بچی کی طرف سے روتے ہوئے "مجھے سونے کے لئے ایک خیمہ دو" پر کسی کا دل نہیں پسیجا۔غزہ کے سینکڑوں اسکولوں کے ملبوں میں دبے ہزاروں ایک لاچار باپ کا کفن میں موجود معصوم بچے کے پاؤں نکال کر اسے موزہ پہنانے پر کوئی متاثر نہیں ہوا۔

ایک مجبور باپ کو جب کہیں سے کیک ملا تو اسے کفن میں لپٹے بچے کے ہاتھ میں دینے پر کسی کی آنکھیں پرنم نہ ہوئیں ۔بھرے گھر والوں کو ہمیشہ کے لئے کھونے والے بچے کو گھر کے ملبے پر کسی اینٹ کے ٹکڑے پر اونگھتے ہوئے دیکھ کر کسی کا دل نہیں ٹوٹا۔ کھانے کی لمبی قطاروں میں ایک روٹی کے لئے اپنے ہی شہر میں دربدر ہونے والے بچوں پر کسی کو کوئی رحم نہیں ایا۔

ملالہ یوسف زئی، الیان کردی، مہسا امینی پر پھڑکنے والی رگوں میں اب ارتعاش نہیں رہی۔انسانیت اب لمبی تان کر سورہی ہے۔ عالمی میڈیا سے لے کر علاقائی میڈیا پہ خاموشی چھائی ہے۔انسانیت اور عورتوں کے حقوق کے نعرے باز اب غزہ کے مظلوموں پر چپ کا روزہ توڑنے کو تیار نہیں۔کاش غزہ میں کوئی الیان کردی کوئی مہسا امینی کوئی ، کوئی ملالہ یوسف زئی بھی ہوتی۔ کاش! تاکہ ان کی رگ انسانیت پھڑکتی۔

غزہ پر جن کی انسانیت کی رگیں نہیں پھڑکتی وہ آج ظالم و غاصب اسرائیل پر ایران کے جوابی حملے سے پھر پھڑکنے لگی ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .