حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے طوفان الاقصی آپریشن اور موجودہ فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کو انٹرویو دیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
سوال: اسرائیل و فلسطین جنگ کی کیا وجہ ہے؟ اس میں اسرائیل کا کیا رول ہے اور حماس نے یہ حملہ کیوں کیا؟
علامہ امین شہیدی: پوری دنیا کی طاقتوں نے مل کر 18ویں صدی کے آخری عشرے میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ انہوں نے ہر صورت میں فلسطین کی سرزمین کو فلسطینیوں سے لے کر یہودیوں کے حوالے کرنا ہے اور اس کے لئے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے تمام ممالک نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ 1917ء میں انہوں نے اعلامیہ بالفور (Balfour Declaration)کے ذریعہ باقاعدہ اس کا اعلان کر دیا کہ وہ آہستہ آہستہ سرزمینِ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی بنیاد فراہم کرتے چلیں گے۔ پھر 1948ء میں انہوں نے ایک غاصب ریاست کی تشکیل کے حوالے سے اعلان کر دیا جس کا نام "اسرائیل" رکھا گیا۔ صورتحال یہ تھی کہ اس میں سب سے زیادہ رول برطانیہ، فرانس، امریکہ اور یورپ نے ادا کیا۔ اقوامِ متحدہ نے چونکہ اس سرزمین کو برطانیہ کے حوالے کر دیا تھا کہ آپ اس کو کنٹرول کریں گے تو انہوں نے فلسطینیوں کو دبا کر اور باہر سے یہاں یہودیوں کو لا کر کے آباد کیا اور اقوامِ متحدہ ہی کے ذریعہ سے فلسطین کی 57 فیصد زمین ان کے حوالے کر دی۔ اس کے نتیجہ میں اسرائیلیوں کو ایک نئی ریاست کے قیام کا موقع مل گیا جس کی پشت پر پوری مغربی دنیا موجود تھی۔
اسرائیل کی تشکیل کے اصل ہدف دو تھے۔ ایک ہدف تو یہ تھا کہ اس خطے میں چونکہ تیل کے ذخائر، معدنیات کے ذخائر اور بہت بڑے گیس کے ذخائر اس کے علاوہ اس علاقہ میں کئی دیگر قدرتی ذخائر بے تحاشا موجود ہیں تو اس علاقہ کو وہ جب جنگوں کا مرکز بنا دیں گے اور انہیں ہمیشہ آپس میں جھگڑوں اور مسائل کا شکار رکھیں گے تو نتیجتاً اس علاقے میں ترقی نہیں ہو گی اور جب ترقی نہیں ہو گی، علم آگے نہیں بڑھے گا، علمی اور ثقافتی حوالے سے جب وہاں کی ثقافت ترقی نہیں کرے گی تو نتیجتاً مغربی ممالک کو اس علاقہ پر قبضہ کرنے کا موقع ملے گا اور اس کے لئے یہاں پر جھگڑے کی بنیاد قائم کرنا ضروری ہے اور وہ ہے اسرائیل اور یہودی ریاست کا قیام۔
دوسرا یہودیوں کے حوالے سے مغربی دنیا کو ایک تلخ تجربہ تھا کہ یہ ایک ایسی نسل ہے جس نے ہمیشہ سے انسانیت کی ناک میں دم کر رکھا ہے لہذا انہوں نے ان کو ایک الگ ریاست دے اور مغربی دنیا سے دور رکھ کر اپنی بھی جان چھڑائی ہے لیکن یہودی ریاست کو اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنے اور ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کو ہمیشہ روندنے کا ایک موقع فراہم کیا۔
اس کے بعد فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنا شروع کر دیا گیا، اقوامِ متحدہ اور اقوامِ عالم نے ان کی پوری پوری حمایت کی۔ ابتدائی دور میں عربوں نے اس کے مقابلہ میں مزاحمت کی اور کئی جنگیں ہوئیں لیکن وہ اسرائیل سے شکست کھا گئے۔ جس کے نتیجہ میں اسرائیل کی قوت و ہیبت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
یہاں تک کہ پچاس کی دہائی میں p-n-oتشکیل پائی اور پی- این- او کی تشکیل کے بعد ایک مزاحمتی عمل خود فلسطین کے اندر سے شروع ہوا لیکن وہ بھی بہت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔ یاسر عرفات کو انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے شیشہ میں اتار لیا اور اس کی شادی بھی یورپ کی ایک خاتون سے کروا دی اور گھر سے ہی اس کی تبدیلی کا آغاز ہوا اور وہ بجائے مبارزہ اور مقابلہ کے مفاہمت وغیرہ کی ڈگر پر چل پڑا۔
1967ء میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ سایہ ایک معاہدہ انجام پایا جس میں دو ریاستی تصور دیا گیا جس کے نتیجہ میں ایک ریاست اسرائیل اور دوسری ریاست فلسطین بننا قرار پائی۔ یاسر عرفات اور اس کے ساتھیوں نے اس کو قبول کر لیا، عربوں نے اس کو قبول کر لیا۔ اس لئے کہ ان کو اندازہ ہو گیا کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ اس لئے بھی نہیں کر سکتے چونکہ اس کے ساتھ پوری دنیا ہے۔ لہذا انہوں نے کمپرومائز کرنا مناسب سمجھا اور جہادی اور مبارزاتی راستے کے بجائے مفاہمت، شکست اور ذلت کا رستہ اختیار کیا۔ لیکن اس کا بھی نتیجہ یہی نکلا کہ جنگ تو ختم ہو گئی لیکن اسرائیلیوں کی پیش قدمی نہیں رکی اور انہوں نے بجائے اس کے کہ فلسطین کو ایک الگ ریاست کے طور پر قبول کرتے، انہوں نے اس کو مزید سکیڑنا شروع کر دیا اور اس کے حدودِ اربعہ پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا یہاں تک کہ اس دوران ایران میں 1979ء میں انقلابِ اسلامی کامیاب ہوتا ہے جس کی کامیابی کے بعد صورتحال تبدیل ہونا شروع ہوئی۔
اب اگر انقلابِ اسلامی سے پہلے اور بعد کی فلسطین کی جنگوں کو دیکھیں تو ایک واضح فرق نظر آئے گا کہ جب امام خمینی (رہ) نے قدس کی حمایت کا اعلان کیا تھا تو اس کے بعد ریاستی طور پر ایران نے فلسطینیوں کا ساتھ دینا شروع کر دیا، ان کے سر پر ہاتھ رکھنا شروع کر دیا لہذا 1979ء کے بعد کی جنگوں میں طوالت کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جو کہ پہلے صرف 2،3 دن جاری رہنے اور عربوں کے پسپا ہو جانے پر ختم ہو جایا کرتی تھیں۔ اس سے پہلے یہ غلیلوں اور پتھر سے یا زیادہ سے زیادہ چاقو سے لڑتے تھے لیکن اس کے بعد ان کے پاس اسلحہ بھی آیا اور آہستہ آہستہ وہ منظم ہونا شروع ہوئے۔ لیکن باوجود اس کے یاسر عرفات نے صہیونیوں کا مقابلہ نہیں کیا یا نہیں کر سکا یہاں تک کہ حماس تشکیل پائی۔ جس کے تشکیل پانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ جو مسلمانوں کے یہودیوں سے جنگ کا جذبہ ہے اسے زندہ رکھا جائے۔
اب جب حماس نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو فلسطینیوں کے اندر ایک نئی روح پیدا ہونی شروع ہوئی۔ اس دوران کئی تحولات بھی آئے جس میں دہشت گروہ داعش کا وجود اور اس کے ذریعہ حماس کے کئی افراد کو ورغلا کر ساتھ ملانا وغیرہ شامل تھا۔ جو کہ بعد میں انہیں حقیقت پتا چلنے پر پشیمانی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسی طرح اسرائیلیوں نے دینِ ابراہیمی کے نام پر الہی ادیان کے درمیان مفاہمت کے نام سے ایک تحریک چلانی شروع کر دی اور اس میں سعودیہ سمیت باقی عرب ممالک کو شریک کیا اور نتیجتاً اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہیں ہموار کرنا شروع کر دیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنا یعنی جہاد و مقاومت سے ہاتھ اٹھانا، غاصب صہیونیوں کے ناجائز حق کو تسلیم کرنا، لاکھوں کروڑوں بے گناہ شہید ہونے والے بچوں، بڑوں، بوڑھوں اور خواتین کے خون کا سودا کرنا، بیت المقدس کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت کرنا، فلسطین کی سرزمین کے مالک بلاشرکت غیرے یہودیوں کو قرار دینا اور مسلمانوں کو ان کا غلام تسلیم کرنا وغیرہ۔ اور ہمارے عرب ملکوں کے حکمرانوں نے اس بات کو تسلیم بھی کر لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یو۔اے۔ای اور بحرین نے تسلیم کر لیا، ترکی اور مصر پہلے ہی تسلیم کر چکا تھا اور اسی طرح کئی اور عرب ممالک کا بھی اضافہ ہوا۔ اور یہ سلسلہ بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا حتی کہ عالم اسلام کی یہ ذہنی کیفیت بنا دی گئی کہ دنیا کہہ رہی تھی کہ جو مسلم ممالک بچ گئے ہیں سب نے اسرائیل کو تسلیم کر لینا ہے لہذا اب اس صورتحال میں حماس کو یہ نظر آ رہا تھا کہ اب اگر انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا تو ان کے اصولی موقف اور انسانی ایشو کو زندہ رکھنا شاید مشکل ہو جائے۔
یہی وجہ ہے کہ آزادیٔ فلسطین کے ہدف کو زندہ رکھنے اور آزادی ٔبیت المقدس کے اندر نئی جان پھوکنے کے لئے فلسطینیوں نے 7 اکتوبر کو اک ایسا معرکہ سرانجام دیا کہ ماضی کی سات دہائیوں میں جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس آپریشن سے فلسطینیوں کو کئی عظیم فوائد حاصل ہوئے اور دنیا کی آنکھ کھلی۔ سب سے پہلا اس کا فائدہ یہ تھا کہ حماس نے یہ ثابت کیا کہ اسرائیلی مکڑی کے جالے کی طرح سے ہیں، انہیں شکست دی جا سکتی ہے۔ حماس نے اس حملہ سے دنیا کو بتایا کہ اسرائیل کی جتنی بھی ٹیکنالوجی اور پیشرفتہ سسٹم ہے جس کی وجہ سے کئی مسلم ممالک ان سے مرعوب تھے، وہ فلسطینیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، حماس نے یہ بھی ثابت کیا کہ جس فوج کو دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور فوج کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا وہ غبارے میں ہوا کی مانند تھا جس کو پھاڑنا اور انہیں شکست دینا صرف چند سو جوانوں کا کام ہے، حماس کے اس حملے نے یہ بھی ثابت کیا کہاسرائیلیوں کے اردگرد جتنی بھی دیواریں اور ٹیکنالوجیز ہیں ان سب کو چکمہ دیا جا سکتا ہے اور ان کی وہ پیشرفتہ ٹیکنالوجیز فیل ہو سکتی ہیں، حماس نے یہ بھی ثابت کیا کہ اسرائیلی کتنے بڑے درندہ صفت ہیں کہ چند سو حماس کے جوانوں کے ردعمل میں وہ اس خطے میں کس کس طرح کے ظلم ڈھا سکتے ہیں۔
حماس نے اس آپریشن کے ذریعہ پوری دنیا کی آنکھیں کھول دیں، حماس کے اس حملے کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ میں رہنے والے عام مسیحیوں کی آنکھیں کھل گئیں کہ یہ یہودی کتنے ظالم اور درندہ صفت ہیں، کتنے وحشی ہیں کہ ان کو نہ بچوں کا پاس ہے اور نہ عورتوں اور بوڑھوں کا خیال ہے، نہ ہسپتالوں کا خیال ہے اور نہ اسکولوں کا خیال ہے۔ ان کو اپنے علاوہ سب کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں اور وہ اپنے مقاصد کے لئے بڑے سے بڑا جرم انتہائی آسانی سے انجام دے سکتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کے اندر حیوانیت اپنے عروج پر ہے۔ یہ حماس کے اس حملے نے اور اس کے ردعمل کے طور پر اسرائیلی درندگی نے ثابت کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ نیویارک، برلن، پیرس، مشی گن، لندن، کینیڈا اور مغرب کے تقریبا تمام بڑے بڑے ممالک اور شہروں میں لاکھوں کے حساب سے لوگ نکلے اور ان میں مسلمانوں کے ساتھ مسیحی بھی تھے اور حتی بہت ساری جگہوں پر یہودی بھی تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس نے بہترین اور تاریخی کام کیا اور وہ جو دینِ ابراہیمی کے نام پر ایک مفاہمت کی تحریک چل رہی تھی اور امن پراسیس کے نام پر وہ فلسطینیوں کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے اور فلسطینی اور بیت المقدس ایشو کو دفن کرنا چاہتے تھے، وہ اس میں بہت بری طرح ناکام ہوئے اور جو بڑے بڑے اسلامی ممالک جو اپنے آپ کو لیڈنگ رول پر دیکھتے ہیں ان ممالک نے جو منصوبہ بندی کی تھی کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کریں گے اور وہاں سفارت خانے کھولیں گے تو وہ سارے کا سارا منصوبہ ملیا میٹ ہو گیا اور اس وقت فلسطین کو حوالے سے رائے عامہ اتنی شدید ہے کہ یہ سارے عرب ممالک مل کر سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی ہلکا سا بھی بیان دے سکیں۔
تو اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو حماس کے اس قدم نے یہ ثابت کیا کہ حماس کے اس آپریشن نے کتنے بڑے فوائد حاصل کئے اگرچہ اس کی قیمت دینی پڑی، اگرچہ اسرائیلیوں نے 5ہزار سے زیادہ نہتے لوگوں کو شہید کیا، اگرچہ اسرائیلیوں نے مختلف بلڈنگز گرائیں، انفراسٹرکچر کو تباہ کیا لیکن دنیا کے سامنے اسرائیل بے نقاب بھی ہوا اور اسرائیل کی ہمدردی کے جو جذبات یورپ وغیرہ میں تھے وہ بھی ختم ہوئے اور خود فلسطینیوں کو یہ احساس ہوا کہ ہم نے ہر صورت میں مقابلہ کرنا ہے، مقاومت کرنی ہے اور اسی میں ہماری بقا ہے۔
سوال: حماس کو ظاہری و باطنی طور پر کن لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے اور اسے سپورٹ کرنے کی وجہ کیا ہے؟
علامہ امین شہیدی: فلسطین ایک اسلامی، قرآنی اور دینی نبوی (ص) کا ایشو ہے۔ یہ کسی خاص قوم، نسل اور جغرافیا کا ایشو نہیں ہے۔ اس لئے بیت المقدس کے مسئلہ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکنیں فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتی ہیں۔ لہذا پوری دنیا کے مسلمان فلسطینیوں کے حق اور حمایت میں کھڑے ہیں، اگرچہ مختلف ممالک کے حکمران اور ان کا رخ اسرائیل، امریکہ اور یورپ کی طرف ہے لیکن اسی ملک کے عوام کے دلوں کا رخ فلسطینیوں کی طرف ہے اور اس کی زندہ مثال آپ کو اسلامی ممالک میں ہونے والے بڑے اور عظیم مظاہرے ہیں جیسے صنعا میں تاریخ کا عظیم ترین مظاہرہ ہوا، بغداد میں تاریخ کا عظیم ترین مظاہرہ ہوا، تہران، مشہد اور قم میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں باہر آئے، پاکستان کے اندر آپ نے لوگوں کو باہر آتے ہوئے دیکھا، اسی طرح باقی اسلامی ممالک میں لوگوں نے اپنے جذبات کا مظاہرہ کیا اور فلسطینیوں سے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔
یہ سب کے سب فلسطینیوں اور حماس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ لیکن جہاں اس پوری تحریک میں عوامی موومنٹ کی ضرورت ہے وہیں پر فلسطین خصوصا حماس سمیت جہادی تنظیموں کو اسلحہ کی بھی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی اور ٹیکنیکی معاونت کی بھی ضرورت ہے، ٹریننگ کی بھی ضرورت ہے اور جدید ترین جنگی طور و طریقے سیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ تو اس حوالے سے ان کا بھرپور پشت پناہ یا تو حزب اللہ ہے یا ایران کی حکومت ہے۔ اس حوالے سے دنیا کو کوئی شک بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات کوئی کسی سے ڈھکی چھپی ہے۔ حتی رہبر معظم نے بارہا اپنی گفتگو میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ہاں! ہم ہیں جو اسرائیل کے مقابلہ میں حماس اور فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں اور ان کو ہم مسلح کرتے ہیں، ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس جرأت کے ساتھ دنیا کے کسی اور ملک نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا جیسا بیان رہبر معظم نے دیا ہے۔اس وقت حزب اللہ فلسطینیوں کے ساتھ ہے، عراقی اور یمنی ان کے ساتھ ہیں، اس وقت بہرحال دنیا فلسطین کے ایشو پر دو حصوں میں تقسیم ہے: ایک وہ حصہ ہے جو بڑھ چڑھ کر فلسطینیوں اور حماس کی حمایت میں میدان میں کھڑا ہے اور دوسرا وہ جو حیلے بہانوں سے اپنی جان بھی چھڑاتا ہے اور فلسطینیوں کی حمایت کے بجائے ان کی پشت پر چھرا گھونپنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
اس موقع پر رہبر معظم کی حکمتِ عملی ایرانی اور اسلامی انقلاب کے حامیوں اور سرکردہ لیڈرز کی بردباری، عمیق سوچ اور حکمتِ عملی کے ساتھ فلسطینیوں کی گام بہ گام اور قدم بہ قدم حمایت اور مدد کے لئے یقینا ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔
سوال: اسرائیل کو جو لوگ سپورٹ کر رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟
علامہ امین شہیدی: یورپ اور امریکہ کے مفادات اس خطے کے اندر ہیں، اس خطے کے اندر جتنے بھی ممالک ہیں وہ انہیں اگر انڈر پریشر رکھنا چاہیں تو ان کے سر پر کسی کا جوتا ہونا ضروری ہے تاکہ ہمیشہ ان کو یہ خطرہ ہو کہ انہیں کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ تو اس کے لئے اسرائیل کا وجود اور اس کی بقا یورپ اور امریکہ کے لئے بہت ہی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورا یورپ اور پورا امریکہ بلا کسی تأمل اور اختلاف کے سب کھل کر اسرائیلیوں کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ لہذا اس جنگ میں بھی آپ نے دیکھا کہ برطانیہ کے وزیراعظم نے اسرائیل آکر اور کھل کر ان کو سپورٹ کیا، امریکہ کے صدر اور وزیرخارجہ نے آ کر کھل کر ان کو سپورٹ کیا۔ یہاں تک کہ امریکی وزیرخارجہ نے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کو خود جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے ہم آپ کی جگہ جنگ لڑیں گے۔ انہوں نے اپنے طور پر بحری بیڑے بھی بھیجے اور ہزاروں اپنے جنگجو فوجی اور سپاہی بھی بھیجے تاکہ حماس کا راستہ روکا جا سکے۔ یہ جو حمایت ہے وہ اسی لئے ہے کہ اس خطے سے اگر امریکی اثر و رسوخ کو ختم کیا جا سکتا ہے تو اس کی ابتدا اسرائیل سے ہو گی اور اسرائیل کے خاتمے کا مطلب ہے امریکہ، یورپ اور مغربی دنیا کا اس علاقے سے اثر و رسوخ کا خاتمہ۔
اس لئے وہ اسرائیلیوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور خطے کے عرب ممالک چونکہ انہی کے بٹھائے ہوئے وہ ایجنٹ ہیں جن کو سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اس سلطنت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ان کے درمیان بانٹ دیا گیا تھا۔
اس لئے اس وقت موجود عرب حکمران اپنے آقا برطانیہ اور امریکہ کے اشارے اور اپنے مفادات کی خاطر فلسطینیوں کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے کے لئے ہمیشہ تیار نظر آتے ہیں اور اسرائیلیوں اور اس غاصب ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔
سوال: آپ کی نظر میں یہ جنگ مزید کتنا آگے جائے گی اور اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ اور یہ جنگ کیسے رک سکتی ہے؟
علامہ امین شہیدی: اس دفعہ جس طرح اسرائیل نے ردعمل دکھایا ہے وہ اس کی بوکھلاہٹ اور اس کی انتہا درجہ کی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا یہ ردعمل دکھاتا ہے کہ حماس نے بہت ہی کاری ضرب لگائی ہے جس کی انہیں کوئی توقع نہیں تھی۔
یورپ کے تمام ممالک کا بلااستثناء کھل کر اسرائیلیوں کی حمایت کرنا بھی یہی بتاتا ہے کہ حماس نے انہیں اس دفعہ ان کے تصور سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اس جنگ کو طول دینے کے درپے ہے۔ اس کی تو خواہش ہے کہ غزہ کی پٹی سے تمام فلسطینی زمینیں چھوڑ کر نکل جائیں اور مہاجر اور پناہ گزین کیمپوں میں چلے جائیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ غزہ کے لوگ اس پر کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہیں۔
یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ 7 اکتوبر سے لے کر آج تک مسلسل جنگ جاری ہے اور اتنے دنوں میں اسرائیل غزہ کے اندر داخل نہیں ہو سکا حالانکہ وہ دعوی کر رہے تھے کہ ہم بس کل ہی (زمینی) غزہ پر حملہ کرنے والے ہیں حالانکہ ان کا وہ پروجیکٹ مکمل فیل ہو چکا ہے اور وہ غزہ میں داخل نہیں ہو سکے اور اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اگر وہ غزہ میں ایک دفعہ داخل ہوں تو غزہ کی گلیاں ان کا قبرستان بن جائیں۔ چونکہ غزہ ان کے لئے کوئی تر نوالہ یا حلوے کی پلیٹ نہیں ہے۔ غزہ وہ سرزمین ہے جس میں زیرزمین سرنگیں ہیں اور یہ ان بھول بھلیوں میں انہی کے جال میں پھنستے ہیں اور اپنی جان سے ہاتھ دھوتے ہیں اور دوسری طرف ایران اور حزب اللہ کی دھمکی ایک زبردست اور واضح اور کھلی دھمکی تھی کہ اگر اسرائیل غزہ میں داخل ہوتا ہے تو پھر جنگ چھڑ جائے گی اور پھر جنگ محدود نہیں رہے گی۔ تو ظاہر ہے انہیں اب چاروں طرف سے خطرہ تھا۔ انہیں یمن سے خطرہ تھا، شام سے خطرہ تھا، فلسطین کے اندر سے خطرہ تھا، حزب اللہ کی طرف سے شدید خطرات لاحق تھے۔ اس لئے اب تک وہ عام اور بے گناہ شہریوں پر حملہ کر کے اپنی بربریت کا ثبوت دے رہے ہیں۔
لیکن ان تمام قربانیوں کے باوجود فلسطینی ہمت ہارنے والے نہیں ہیں۔وہ مقابلہ کے لئے کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے ان شاء اللہ تعالی۔ آکرکار اسرائیلیوں کو رکنا بھی پڑے گا اور معافی بھی مانگنی پڑے گی چونکہ اس وقت اقوامِ عالم کی طرف سے جو ان پر پریشر ہے اور اخلاقی دباؤ ہے وہ کوئی معمولی دباؤ نہیں ہے۔ جیسے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیل پر کھل کر تنقید کی اور حماس کے حملے کو گذشتہ پچاس سالوں میں ہونے والے ظلم و جبر کا نتیجہ قرار دیا اور اسرائیل کو من حیث غاصب ریاست اور اور بچوں اور عورتوں کا قاتل قرار دیا یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی مثالیں آپ کو نہیں ملیں گے۔ لہذا جتنے بھی دن گزریں گے صہیونیوں اور امریکیوں پر پریشر بڑھتا چلا جائے گا اور اس کے نتیجہ میں عائے عامہ میں ان کا چہرہ مسخ سے مسخ تر ہوتا چلا جائے گا۔اور جنگ تو رکنی ہے لیکن جب جنگ رکے گی تو اسرائیلیوں کو بہت کچھ واپس بھی دینا پڑے گا اور کمپرومائز بھی کرنا پڑے گا۔
سوال: اس جنگ میں ایران، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای، یو ایس اے، جیسے ممالک کا کیا رول ہے؟
علامہ امین شہیدی: جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا کہ ایران کا رول بالکل واضح ہے کہ انقلابِ اسلامی کے بعد اس نے فلسطین کی مکمل حمایت کی ہے اور دنیا بھر میں من حیث ریاست اور من حیث نظریہ ان کا سب سے بڑا مدافع ایران ہے۔
جہاں تک ترکی کا سوال ہے تو ترکی سوداگر ہے۔ فلسطینیوں کے نام پر عالم اسلام کے جذبات سے کھیلتا ہے لیکن اس کو بیچتا ہے اور فلسطین سے پیسے لیتا ہے۔ ترکوں کو اگرچہ زعم ہے کہ وہ عثمانی خلافت کے علمبردار ہیں لیکن عملی طور پر اسرائیلیوں اور امریکیوں کے غلام ہیں اور یورپ میں شمولیت کے لئے وہ ہر قیمت دینے پر تیار ہیں۔ اس وقت بھی ان کی کمزوری کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا جو 18 سے 20 ارب ڈالر کا کاروبار ہے وہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کوئی بھی بات نہ کریں اور کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ ہاں! زبانی جمع خرچ اور زبانی بیانات میں وہ شیر ہیں لیکن عملی طور پر انتہا درجے کے ناقابلِ اعتبار اور اہلِ نفاق ہیں۔
جہاں تک سعودیوں کی بات ہے تو وہ بھی درپردہ اسرائیلیوں کو تسلیم کر چکے تھے اور آنا جانا شروع ہو چکا تھا۔ اسرائیلی اب بڑی آسانی کے ساتھ سعودیہ آتے ہیں اور یہ لوگ بھی اسی طرح اسرائیل جاتے ہیں۔ تو اب ایسی فضا میں سعودیوں کے لئے بھی کوئی رستہ باقی نہیں رہا کہ وہ اسرائیلیوں کے حوالے سے کسی نرم گوشہ کا اظہار کر سکیں اگرچہ دلوں میں یہ نرم گوشے بے تحاشا زیادہ ہیں لیکن عملی طور پر اس وقت حماس کے حملے کے بعد وہ یہ جرأت نہیں کر سکتے۔
جہاں تک یو۔ اے۔ ای کا تعلق ہے تو اس نے یو۔ اے۔ ای میں یہودیوں کے لئے ٹیمپل اور ان کی عبادتگاہ بنا کر اور انہیں 50ہزار ویزے دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ اور یہودی آپس میں بھائی ہیں اور ان کے درمیان خون کا رشتہ ہے اور ان کے درمیان کسی طرح کی کوئی مخاصمت نہیں ہے۔
اور جہاں تک امریکہ یا اس کے ساتھ یورپ کا تعلق ہے تو انہوں نے اس جنگ میں اسرائیل کو اسلحہ دے کر، اسرائیل کے ہر قدم کی حمایت کر کے اور خصوصا اس بڑے ہسپتال پر حملے کے حوالے سے ان کی تکنیکی معاونت کر کے اور منصوبہ بندی میں ان کا ساتھ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ اصل جنگ امریکیوں کے ساتھ ہے اور امریکی بڑے مجرم ہیں اور جتنا جرم اور ظلم اسرائیلیوں نے کیا ہے اس میں امریکی بھی ان کے برابر کے شریک ہیں۔