۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
آیت الله اعرافی
مزاحمت اسلامی کی جانب سے غاصب صہیونیوں کو  کاری ضرب کا سامنا کرنا پڑے گا

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ابتداء میں اس مقدس راہ میں امت اسلامی کے مقدسات کےدفاع، امریکہ و اسرائیل کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اور آزادی قدس کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والوں بالخصوص جنرل شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے لئے خدائے متعال کے حضور رحمت کا طلبگار ہوں۔

سُبْحانَ الَّذي أَسْري‏ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَي الَّذي بارَکْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ الْبَصيرُ

میرے بہن بھائیو،  امت اسلامی کے فرزندو اور دنیا کی ستمدیدہ قوموں!

سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 میں آپ علماء کرام،برادران مقاومت اور تمام ان افراد پر کہ جو امت اسلامی، فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کے دفاع کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں اپنی، اسلامی جمہوریہ ایران کے دینی تعلیم کے مراکز اور قدس شریف بین الاقوامی انجمن کی طرف سے آپ پر درود و سلام بھیجتا ہوں اور خداوند عالم کے حضور دعاگو ہوں کہ وہ اپنی بارگاہ میں آپ کی طاعات و عبادات اور ماہ مبارک کے روزوں کوقبول فرمائے اور امید کرتا ہوں کہ آزادی قدس کے ساتھ امت اسلامی کا تابناک مستقبل ہو اور خدا اس کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو عزت والا اور سربلندی سے نوازے اور کفر و  کفار و منافقین اور ان کا دفاع کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کرے۔

گذشتہ سات عشروں کے دوران صہیونیوں کے مقابلے میں عالم اسلام کی صورتحال:

تقریبا ۷۰ سال قبل کہ جب غاصب صہیونی حکومت وجود میں آئی تو اس کے اہداف کے حصول کے لیے بہت زیادہ کوششیں ہوئیں اس غاصب حکومت کے اہداف میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک پھیلے ہوئے سرسبزوشاداب علاقے اور بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر کر بحر ہند تک ہماری تہذیب و تمدن کے تمام مراکز پر قبضہ شامل تھا تاکہ اس خطے کے ممالک، سرزمینوں اور اقوام کی سرنوشت اس کے ہاتھوں میں ہو اور دنیا کے تہذیب و تمدن کے دل میں وہ ایک بہت بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئے۔ اس مقصد کی خاطر اسرائیل نے جغرافیائی توسیع کے ساتھ ساتھ کوشش کی کہ اپنی فوجی طاقت میں بھی اضافہ کرے تاکہ وہ اپنے وہم و گمان کے مطابق خطے کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہو اور اس فوجی طاقت کے ذریعہ زمین میں فساد اور تباہی پھیلائے لیکن خدا کے فضل و کرم سے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کے آغاز ہی میں فلسطین اور اس میں موجود مقدسات اسلامی واپس لینے کے لئے دشمن سے جہاد کرنے کے فتوی سامنے آگئے۔ اس موقع پر دنیائے اسلام کے علماء جیسے آیت اللہ بروجردی، آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی اور آیت اللہ سید محسن حکیم(رحمۃ اللہ علیہم) جیسے بزرگ شیعہ مراجع کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور اس مسئلہ پر امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پندرہ سال قبل مدرسہ فیضیہ قم میں تقریر کی۔ اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بھی انھوں نے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا اور ان کے بعد ولی امر مسلمین جہان حضرت سید علی خامنہ ای نے بھی مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کی بھرپور حمایت جاری رکھی۔ ان بزرگ شیعہ علماء کے علاوہ ایران کے دسیوں علماء نے قدس شریف کی حمایت اور غاصب صہیونیوں کی مذمت میں بیانیے صادر کیے اور علمی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ایران کی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی(Phd) اور ڈگریوں کے لیے  ۱۸۷۰سے زائد فلسطین کے موضوع پر تھیسز(Thesis) لکھے جانے کے علاوہ حقوق ملت فلسطین کے دفاع میں سینکڑوں کتابیں اور مقالے لکھے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ شیخ محمود الشناوی اور شیخ حسن مامون (رحمھما الله )جیسے اہل سنت کے دسیوں علما کے فتووں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ الازہر کے ان دو علماء کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اسرائیل کے خلاف مسلح جہاد شروع کیا اور برسوں تک مسلمانوں کے ایثار اور قربانیوں کے نتیجے میں غاصب اسرائیل اب تک اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے اور اسرائیل کے کارنامے میں جرائم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اسرائیل کے جرائم نے ہٹلر جیسے سفاک انسان کے جرائم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج سب پر واضح ہو چکا ہے کہ اسرائیل اپنے اہداف سے ہاتھ کھینچ رہا ہے اور وہ دریائے نیل کے ساحل سے لے کر دریائے فرات تک پھیلے ہوئے سرسبزوشاداب علاقے پر قبضے کی آرزو کو فراموش کر چکا ہے اور اب وہ اپنے وجود کی حفاظت کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔خدا کے فضل و کرم سے ہمیں اطمینان ہے کہ غاصب اسرائیل کبھی بھی اپنی شوم آرزؤں کو حاصل نہیں کرسکے گا اور بہت جلد فلسطین صہیونیوں کے قبضے سے آزاد ہوکر ملت فلسطین اور  امت اسلام کی آغوش میں واپس آئے گا۔

صہیونیوں کے جرائم:

صہیونیوں نے غاصب صہیونی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی ملت مظلوم فلسطین کے خلاف جرائم کا آغاز کردیا۔ ان کی سرزمین پر قبضہ کیا، ان کے گھروں کو مسمار کر کے لاکھوں فلسطینی خاندانوں کو بے گھر کر دیا اور دسیوں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے اپنے ہی ملک سے نکال دیا۔ اس غاصب حکومت نے دوسرے مرحلے میں مقبوضہ سرزمین کو وسعت دینے کے لیے صحرائے سینا، دریائے اردن کے مغربی ساحل،گولان کی پہاڑیوں،  علاقہ شبعا اور دیگر علاقوں پر حملے کیے اور غاصب صہیونیوں کے یہ وحشیانہ حملے لبنان تک بھی پہنچ گئے اور لبنان کے جنوبی اور شمالی علاقےبھی  ان حملوں سے محفوظ نہ رہے۔البتہ ان جرائم کو دیکھ کر اقوام عالم کی جانب سےکسی قسم کا اقدام کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی بلکہ فلسطینی زمین پر ناجائز قبضے کے اقدامات میں دنیا کی بڑی طاقتوں کی جانب سے غاصب صہیونیوں کو حمایت حاصل تھی۔ جب صہیونی  گھروں کو تباہ کر رہے تھے اور فلسطینیوں کو قتل کر رہے تھے اور کسی بچے، بوڑھے اور مرد و زن پر رحم نہیں کرتے تھے تو کوئی ڈپلومیٹک اقدام نہیں ہوا اور اپنے آپ کو حقوق کے بشر کا علمبردار کہنے والے خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ اس وقت سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ بعض عرب اور اسلامی ممالک غاصب صہیونی حکومت سے تعاون اور تعلقات استوار کرنے میں لگے ہوئے تھے اور بعض ممالک اب بھی یہ سیاست کر رہے ہیں لیکن آج اس سیاست کا چہرہ ذرا مختلف ہے۔ بعض سیستدان اور عرب ممالک حکام صراحت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ صہیونیوں کا بھی ہمارے خطے میں اپنا وطن ہونا چاہیے۔ بعض عرب ممالک کے سربراہان اپنی اقتصادی اور سیاسی کانفرنسوں میں صہیونیوں کو دعوت دیتے ہیں اور آج بعض عرب ٹی وی چینل ہماری سرزمینوں پر یہودیوں کے داخل ہونے کے متعلق فلمیں نشر کرتے ہیں۔ ان فلموں میں جھوٹے واقعات کے ذریعہ تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے لیکن فلسطینیوں کے رنج و الم کے متعلق کوئی فلم نہیں بنائی جاتی اور نہ ہی نشر کی جاتی ہے۔

یہودیوں سے پیکار(جنگ) میں ایران کے نفوذ کی تاریخ:

یرِیدُونَ لِیطْفِؤُا نُورَ الله بِأَفْواهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ کرِهَ الْکافِرُونَ۔

اے فرزند ان امت اسلام!

گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی تک دنیائے اسلام کے جوانوں کی بہت بڑی تعداد اگرچہ جہاد اور مزاحمت کی ثقافت سے آشنا تھی لیکن ان کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے وہ میدان جہاد میں وارد ہونے کی مناسب فرصت پیدا نہ کرسکے لیکن ۱۹۷۹ء میں خطے میں بنیادی تبدیلی آئی جس کی وجہ سے خطے میں صہیونیوں سے ڈٹ کرمقابلہ کرنے کا ولولہ پیدا ہوا۔

جس زمانے میں صہیونیوں نے فتنہ و فساد اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا اور وہ لوگوں کے گھروں کو گرا رہے تھے اور علاقے کی افواج کو چند دنوں میں شکست دے رہے تھے تو 1979ء میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں نصرت الہی آ پہنچی۔ شہنشاہی نظام کی بساط لپیٹ دی گئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب حالات بدل گئے اور تہران میں اسرائیل کا سفارتخانہ بند ہوکر  فلسطین کے سفارت خانے میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے بعد عالمی دن "یوم القدس" کا اعلان ہوا تاکہ فلسطین ہمیشہ کے لئے امت اسلامی کا مسئلہ بن جائے اور اسرائیل کے خلاف جہاد دنیا کے تمام آزادی پسندوں کے لیے ایک واجب کی شکل اختیار کرلے۔ اس طرح ایران کی اطلاعاتی، سیاسی، اقتصادی اور فوجی طاقت ایک دوست ملک کے عنوان سے فلسطینی مزاحمت کی پشت پناہ بن گئی اور صہیونیوں کے خلاف پیکار کی تاریخ میں یہ نقطہ آغاز تھا کہ جس نے فلسطین کو اسلامی مزاحمت کی علامت میں تبدیل کر دیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران نے حزب اللہ لبنان اور فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت شروع کر دی اور انہیں اسلحہ اور میزائل دئیے۔ یہ وہ وقت تھا کہ مزاحمتی تحریکوں کی شکست کا زمانہ گذر گیا اور ان کی فتح و کامیابیوں کا زمانہ شروع ہوگیا۔ غاصب صہیونیوں کے ٹینک کہ جو ان کے خیال میں ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ تھے صہیونی فوجیوں کی لاشیں اٹھانے کے وسیلے میں تبدیل ہوگئے اور مزاحمتی گروپوں کے میزائل بارش کی طرح صہیونی بستیوں پر برسنے لگے اور ان میں رہنے والے صہیونی چھپنے کی جگہ تلاش کرنے لگے۔ خوردو نوش کی اشیاء کے انبار صہیونیوں کی پناہ گاہوں میں تبدیل ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب مزاحمتی تحریکوں نے پہلی فتح حاصل کی اور امت اسلامی نے اس دن جشن منایا اور اپنی کھوئی ہوئی عزت کو دوبارہ حاصل کیا۔ اس وقت صہیونی فوج پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ وہ فوج جو خطے کی افواج کو ایک ہفتے میں شکست دیتی تھی وہ ۲۰۰۶ء اور ۲۰۰۸ء کی جنگوں میں مقاومت کے بارش کی طرح برسنے والے میزائلوں کی چند دن بھی تاب نہ لاسکی اور عبرتناک شکست سے دوچار ہوئی۔

"صدی ڈیل" ایک سازش:

آج مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے صہیونی دشمن کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے ایک جدید سازش سامنے آئی ہے جو بظاہر تو سیاسی ہے اور اسے "صدی ڈیل" کا نام دیا گیا ہے۔ جب اسرائیل کو میدان جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو طبیعی امر تھا کہ وہ سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سیاست میں بھی وہ ممالک مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں جو اسرائیل سے روابط استوار کرکے ذلت و رسوائی کو قبول کر چکے ہیں۔ وہ اس کام کے ذریعہ مزاحمتی تحریکوں اور بالخصوص ملت فلسطین کی فتح کے اثرات کو ختم کرنا چاہتے ہیں البتہ یہ سازشیں بھی بغیر وجہ کے نہیں ہیں اور اس کا سرچشمہ امریکہ کی ہٹ دھرمی ہے کہ اس نے تمام بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے بیانیوں کی بھی پرواہ نہیں کی۔ تاکہ وہ دریائے اردن کے مغربی ساحل میں غاصب اسرائیل کی حاکمیت کو قبول کرتے ہوئے دریائے اردن کے مغربی ساحل اور گولان کی پہاڑیوں کے کچھ حصوں کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کر سکے۔ یہاں پر بھی ہم بعض عرب حکام، بین الاقوامی اداروں حتی کہ اقوام متحدہ کے کمزور اور  شرم آور ردعمل کو دیکھ رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہونے کے باوجود اس کی طرف سے کوئی اقدام نہیں ہورہا ہے اور اس سلسلہ میں صرف زبانی کلامی بیانات پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے اور یہی سکوت اسرائیل کو جرات دے رہا ہے کہ وہ اپنے گردونواح کے علاقوں پر قبضہ کرے اور شام کے کچھ علاقوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنائے اور آج بعض عرب ممالک اپنے ملکوں میں اسرائیل کا سفارت خانہ کھولنے کے متعلق باتیں کر رہے ہیں تاکہ وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات کو بہتر بنا سکیں لیکن صہیونیوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صورتحال ہمیشہ باقی نہیں رہے گی اور جلد یا بدیر سے انہیں مزاحمت مقاومت اسلامی کی جانب سے کاری ضرب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

شهادت حاج قاسم سلیمانی:

امریکہ اور صیہونی اس نتیجہ پر پہنچے کہ سردار حاج قاسم سلیمانی میں جو ایک مضبوط اور تجربہ کار فوجی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں، کی سربراہی میں چلنے والی مزاحمتی تحریک ایک ایسا خطرہ ہے جس سے ان کی قابض حکومت کے وجود کو خطرہ ہے۔ لہذا  ان کا خیال تھا کہ اس کردار کو نشانہ بناتے ہوئے وہ مزاحمتی تحریک کے مرکزی حیثیت کو کمزور کرسکتے ہیں اور ان حساب کتابوں کی بنیاد پر انہوں نے بغداد میں اس عظیم کمانڈر اور ان کے ساتھیوں کو اپنی بے دردی کا نشانہ بنایا کہ جس کی وجہ سے سردار قاسم سلیمانی اور حاج ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کی شہادت واقع ہوئی۔ لیکن اس بار بھی  ان کا حساب کتاب غلط تھا  اور شہید سردار سلیمانی اور ان کے ہمنواؤں کی شہادت پر گہرا غم ہونے کے باوجود  ہم نے واضح طور پر دیکھا کہ سردار سلیمانی اور ان کے ہمنواؤں کی شہادت نے اس مزاحمتی تحریک کے جذبے پر ایسا گہرا اثر ڈالا  کہ جس نے ایک (تربیتی)اسکول اور مکتب کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے اپنا اثر و رسوخ کا دائرہ کار قدس فورس سے بھی آگے بڑھا دیا۔

آج ہم  ان عظیم کمانڈروں کی شہادت کے بعد واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ ہم ایک ایسے تاریخی موڑ پر ہیں کہ جو ہماری فتح و پیروزی کی نوید سنا رہی ہے اور اس فتح کی علامتوں میں سے ایک انقلابی گارڈز کے توسط سے عین الاسد کے اڈے پر بمباری کے دوران امریکیوں کا خوف ہے اور یہ مضحکہ خیز بات تھی کہ امریکی صدر ٹرامپ کہ جو خود کو دنیا کی سب سے طاقتور فوج کا مالک سمجھتا ہے، نے اس واقعہ کی تلخ حقیقتوں کو چھپانے کے لئے جھوٹ بولا اور ہلاکتوں کی تعداد چھپا دی۔لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد  آخر کار اس کے جھوٹ کا انکشاف ہوا اور اس کا فریب عوام کے سامنے آ گیا اور یہ مزاحمتی تحریکوں کی طاقت کا بہترین ثبوت ہے  اور یہ کہ یہ طاقت اللہ تعالٰی کے فضل و کرم اور شہید کمانڈروں کے خون کی برکت سے ان شاء اللہ بہت جلدحتمی فتح حاصل کرے گی۔

کرونا کے مقابلہ میں مغرب کے مسائل:

حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے کچھ ہی دن بعد دنیا میں متعدی مرض کرونا کی بیماری کا ایک طوفان شروع ہوا اور اس نے مغرب اور امریکہ کی جھوٹی طاقت کا پول سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا کیونکہ وہ ممالک جو خود کو عالمی تہذیب کا علمبردار سمجھتے تھے وہ ماسک اور طبی سامان چوری کرنے کے لئے ایک دوسرے کے مقابل پر اتر آئے اور دنیا کی رائے عامہ نے بھی اس حقیقت کو دیکھا۔ اور وہ  ممالک کہ جو اب تک اپنی یکجہتی پر فخر کیا کرتے تھے انہوں نے اس بحران میں اپنے اتحادیوں کو خدمات اور سازوسامان فراہم کرنے سے انکار کر دیا ،اور ان کا اس رویے پر استدلال یہ تھا کہ انہیں خود کو ان آلات کی زیادہ ضرورت ہے۔

آج کہ جب دنیا کے کورونا کے ساتھ محاذ آرائی کو چند ماہ گزر رہے ہیں یہی ممالک دنیا میں کرونا وائرس پھیلانے کا سب سے بڑا مرکز بن چکے ہیں اور ان ممالک کے لاکھوں افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں اور کئی سو ہزار افراد کی موت واقع ہو چکی ہے اور ان ممالک کے لوگوں نے دوکانوں  اور مختلف اسٹورز پر حملہ کیا اور انھیں لوٹ لیا  اور ڈاکٹروں نے بزرگ عمر مریضوں کو اسی طرح ان کے ھال پر چھوڑتے ہوئےمرنے کے لئے چھوڑ دیا حتی کہ  ان ممالک میں طبی اور صحت کی خدمات کی فراہمی میں نسل پرستی اور سفید اور سیاہ کے درمیان امتیازی سلوک کو واضح طور پر مشاہدہ کیا گیا۔ اور آج بھی ہم مغرب میں بے روزگاری کے خلاف مظاہرے دیکھ رہے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مغربی نظام اور مکاتب فکر اپنے نظریہ تہذیب کے اختتام کو پہنچ چکے ہیں۔

ان حالات میں ضروری تھا کہ عوامی قوتوں خصوصا نوجوانوں سے کورونا بیماری سے لڑنے میں مدد لی جائے جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کیا۔ ظالمانہ اور جابرانہ پابندیوں کے باوجود ایرانی عوام، نوجوان اور مدارس اور علماء کے طلباء میدان میں آئے اور ملک کے طبی اور صحت کے عملے کی مدد کی اور سرکاری اداروں اور مومنین کے ذریعہ غریب خاندانوں کی مدد کرکے یہ ثابت کیا کہ مذہب اور علم کے درمیان کوئی کشمکش نہیں ہے اور اس طرح انہوں نے کرونا کے خلاف جنگ میں ایک کامیاب انسانی تجربے کا مظاہرہ کیا  کہ جس سے ہر کوئی استفادہ کرسکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دوران میں مذہبی مدارس نے اپنا متواضعانه اور عظیم کردار ادا کیا اور قرآن و سنت نبوی کی تعلیمات سے الہام لیتے ہوئے بیمار اور متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ اپنے اسلامی اور انسانی فریضہ کے مطابق عمل کیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کا نظریہ اور پروگرام:

ہم لوگ انقلاب اسلامی کی کامیابی اور ایران میں اسلامی جمہوریہ کے قیام سے ہی رہبر معظم انقلاب، حکومت اور قومی سطح پر فلسطینی عوام کے حقوق کے دفاع کے لئے ہر فورم پر اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور ہمارا  یہ مطالبہ ہمارے عقائد، مبانی اور فقہ اسلامی کے آئین کے عین مطابق ہے کہ جس میں مظلوم کے خلاف مدد اور مزاحمت کی ضرورت پر تاکید کی گئی ہے۔ ہم اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے دو راہ حل کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہیں کہ دونوں کا انحصار حقیقت ، منطق ، دینی تعلیمات ، بین الاقوامی اصولوں اور آزاد قوموں کے وقار کی بنیاد پر ہے۔

پہلا حل:

یہ ایک ایسا راستہ ہے جس کو اسلامی جمہوریہ ایران نے رہبر معظم انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کے الفاظ میں تہذیبی اقدام پر بیان کیا ہے اور اس میں تمام مذاہب اور قبائل سے تعلق رکھنے والے فلسطینی عوام کے تمام حقوق شامل ہیں۔ اس راہ حل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی پیش کیا گیا جس کی بنیاد پر تمام اصیل فلسطینی عوام  کےدرمیان ایک آزاد اور جامع ریفرنڈم کرایا جانا چاہئے کہ جو اقوام متحدہ کی قراداد کی روشنی میں فلسطینیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے اور ہمیں یقین ہے کہ اس حل کے نتیجے میں تمام فلسطینی سرزمینوں میں ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہو گا اور گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران صہیونی مجرموں کے کئے گئے جرائم پر مقدمہ چلایا جائے گا۔

دوسرا حل:

یہ راہ حل جہاد اور مزاحمتی تحریکوں کو اپنانا ہے کہ جس کی بنیاد عقل اور فطرت پر ہے کہ جو اسلامی امتوں کے تعاون سے تمام فلسطینی، شامی اور لبنانی اقوام کے غاصبانہ صہیونیوں  کے مظالم کے خلاف اپنے جائز دفاع کے لئے محاذ  لیناہے ۔ یہ راہ حل بھی تمام بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق جائز ہے اور اس کے علاوہ  یہ کسی بھی ملک کے لوگوں کا فطری حق ہے کہ وہ اپنی زمینوں اور دینی مقدسات کے دفاع کے لئے کسی بھی غاصبانہ دشمن کا مقابلہ کریں۔اور  اسی مناسبت سے تمام اسلامی ممالک پر صیہونی دشمن کے خلاف جدوجہد میں فلسطینی عوام کی مدد کے لئے اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔

کسی بھی قوم  کے حکومتوں، اداروں اور تنظیموں سے مطالبے اور مقابلے کی راہیں:

ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ اسلامی ملتوں کو اپنے ملکوں پر حکومت کرنے والی حکومتوں اور حکومتی نظام سے مندرجہ ذیل امور کا مطالبہ کرنا چاہئے:

1. اسرائیل کے ساتھ تمام معاشی ، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کو منقطع کریں اور اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔

2. سیاسی تعلقات منقطع کریں اور تمام ممالک میں اسرائیلی سفارت خانوں کو بند کریں اور غیر ملکی تعلقات کے ذریعے اسرائیل سے مقابلے پر توجہ دیں۔

3. صیہونیوں کے خلاف فلسطینی، لبنانی اور شامی مزاحمت کے لئے مالی اور معاشی امداد کریں۔

4. فلسطین کی سیاسی حمایت کرنا اور بین الاقوامی اداروں میں اپنی فعالیت اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے پروگرامز کے اجراء کی پیش کش کے ذریعے اسرائیل کے خلاف کھڑا ہونا۔

5. اسرائیل کے ساتھ تمام خفیہ اور کھلی گفت و شنید کا خاتمہ اور اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کےتعلقات کو معمول پر لانے سے عدم قبولیت۔

6. تمام ممالک سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم کریں اور اسرائیل کی حمایت نہ کریں۔

7. اسرائیل کے خلاف جنگ میں فرقہ وارانہ ، مذہبی اور نسلی اختلافات سمیت تمام اختلافات کو ایک طرف رکھنا۔

8. صدی ڈیل کو قبول نہ کرنا۔

9. دنیا کے تمام ممالک میں یوم القدس کو عالمی دن کے طور پر منانے کو رسمیت دینے کا اعلان کرنا۔اور  اسی طرح اقوام متحدہ کو بھی مزاحمتی تحریکوں اور مزاحمتی محور کو تسلیم کرنا چاہئے اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے حق کو تسلیم کرنا چاہئے۔

مذہبی مدارس کا نقطہ نظر:

امت مسلمہ کے بھائیو اور فرزندان!

اسلامی جمہوریہ ایران کے مدارس دینیہ اپنے اسلامی عقائد اور خود انحصاری کے ساتھ ساتھ امت اسلامیہ کی عظیم معاشی ، تجارتی ، تیل اور انسانی اور مالی دولت کی علمی طاقت اور اپنے مراجع عظام اور رہبر عظیم حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ عالم اسلام کے موجودہ بحران کا حل مسلمانوں کی مختلف طاقتوں کا عملی ثبوت دینا اور نئی اسلامی تہذیب کی تعمیر کے لئے عالم اسلام کے اتحاد کی راہ پر گامزن ہونا ہے۔اور اس سلسلے میں سب کے لئے  خاص طور پر علماء کرام اور روحانی حضرات کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپس میں مل جل کر تعاون کریں تاکہ اسلام کی جامع اور متوازن تہذیب کومتعارف کروایا جا سکے۔وہی اسلام کہ جو فرد اور معاشرے کے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے اور عدل و انصاف اور پیشرفت و صلح اور مزاحمت اور جہاد کے درمیان جمع کر سکتا ہے۔ ہم سب کو ایسا اسلامی مبلغ ہونا چاہئے کہ جو ہمارے نظریات اور حقائق کا مجموعہ ہو۔وہ اسلام جو نوآوری ، اصلیت ، جدیدیت اور روایات کو اکٹھا کرتا ہے۔ ایک ایسا اسلام جو اندرونی اور بیرونی دنیاؤں اور عرفان، علم و دانش، مذہب، قومی مفادات اور تمام اسلامی ، مذہبی اور انسانی مقاصد کے لئے تمام اسلامی مفادات کے مابین مشترک ہے۔ اور اسی بنیاد پر ہم امت اسلامی کے تمام فرزندان سے مندرجہ ذیل پیشکش پر عمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

۱: ہم اپنے تمام بھائی بہنوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک نئی اسلامی تہذیب اور اسلامی اتحاد کی تعمیر کے لئے کوشش کریں۔

۲: ہم سب سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں اور اسلامی مکالمے کی طرف رجوع کریں۔

۳: ہم سب سے کسی بھی قسم کے تعصب ، تشدد یا انتہا پسندی کو ایک طرف رکھنے کے لئے گذارش کرتے ہیں۔

۴: ہم ایک مشترکہ اسلامی معاشی اور تجارتی منڈی قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

۵: ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے مشترکہ اسلامی منڈی قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

۶: ہم مشترکہ اسلامی ثقافتی اور میڈیا مارکیٹ قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

۷: ہم سب سے مشترکہ اسلامی تشخص کو بحال کرنے اور اسلامی اقدار کی طرف لوٹنے کے لئے کوشش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

۸: ہم سب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور امت اسلامیہ کے دشمنوں سے کسی قسم کے روابط اور لالچ میں نہ پڑیں۔

۹: ہم کسی بھی قسم کے ظالمانہ قبضے اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر زور دیتے ہیں۔

آخر میں ، ہم ایک بار پھر عالم اسلام کے تمام بھائیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کسی قسم کا تعاون نہ کریں۔ چاہے وہ صیہونی حمایت یافتہ ٹی وی سیریز کا اجراء ہو یا مشکوک معاہدوں اور ثقافتی اور میڈیا اور نشریات میں تعاون یا اپنے حفظان صحت کے اصولوں میں صیہونیوں کےتجربیات استعمال کرنے کے بہانے سےانہیں  کانفرنسوں میں مدعو کرنا ہو۔

اس کے علاوہ ہم آزادی کی جدوجہد کے راستے میں فلسطینی عوام کی حمایت کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور یہی وہ کام ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کر رہا ہے اور آج وہ امریکہ اور صیہونی سامراج کے خلاف جنگی محاذ میں اسلامی دنیا اور مزاحمتی محور پر سب سے آگے ہے اور یہ  سب کچھ مذہب ، اعتقاد ، آئین ، ایران کے بنیادی اور اصولی قوانین اور رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت سید علی خامنہ ای کے رہنما خطوط کی بنا پر ہے کہ وہ اسلامی سرزمین کے آخری چپے کی آزادی تک اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت کو ضروری سمجھتا ہے اور ان سب پر قدس شریف کو مقدم کرتے ہوئے اسے اپنا  مذہبی ، اعتقادی،  اخلاقی فریضہ سمجھتا ہے کہ اگر پوری دنیا اس فریضہ کو ترک کر دیتی ہے تو بھی وہ اسے ترک نہیں کرے گا۔جس طرح وہ امریکی سازشوں کے خلاف مزاحمت کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتا ہے کہ کوئی سا بھی وقت یا جگہ اسے محدود نہیں کر سکتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .