۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
علامہ شبیر میثمی

حوزہ/ علامہ شبیر میثمی نے اپنے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا آقای رئیسی جمہوری اسلامی کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ان شاء اللہ ایک اچھا کردار ہماری نظر میں سامنے آیا ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام جمعہ مسجد بقیۃ اللہ ڈیفنس کراچی و شیعہ علماء کونسل پاکستان کے رہنما علامہ شبیر میثمی نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ شہادت قائد ملت جعفریہ پاکستان شہید عارف حسین الحسینی،آپ میں سے اکثر نام سنتے رہے ہوں گے اور ایک عالم دین کی شہادت پر افسوس کرتے ہوں گے۔ شہید عارف حسین الحسینی کی قیادت کا عرصہ بہت کم رہا۔ شہید عارف حسین الحسینی سے کسی مقام پر ایک سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنی دو سالہ قیادت میں کیا کیا ہے؟ شہید نے ایک عجیب جملہ کہا جو ان کی سوانح حیات میں لکھا ہوا ہے کہ دو سال مجھے یہ بات ثابت کرنے میں لگ گئے ہیں کہ میں شیعہ اثنا عشری ہوں۔ یہ حالت تھی اس وقت قوم کی۔ قوم کے اندر مسائل بہت سے پیچیدہ تھے، ہیں اور مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ شہید کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ اتحاد بین المسلمین کی ایک فضا قائم کرگئے اور اس فضا میں الحمدللہ رب العالمین قائد ملت جعفریہ آیت اللہ سید ساجد علی نقوی نے مزید مضبوطی ڈالی۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دھماکے سے بہت سے مومنین شہید ہوگئے تھے، شہید عارف حسین الحسینی جب جائے حادثہ پر پہنچے تو بعض مومنین نے ان سے سوال کیا کہ اب قیادت کا آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ شہید نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن ہمارے بزرگ ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گے ہم اس پر عمل کریں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب کئی سالوں بعد جامعۃ المنتظر لاہور میں متحدہ مجلس عمل کا اجلاس ہو رہا تھا اور اس میں مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی اور ایک اور پارٹی کے درمیان شدید اختلاف ہوا۔ پریس کانفرنس میں کسی نے مولانا فضل الرحمٰن سے پوچھا کہ آپ کا آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ علامہ ساجد علی نقوی صاحب ہمارے بزرگ ہیں، جو فیصلہ وہ کریں گے ہم اس پر عمل کریں گے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہوں نے آج پاکستان کو شام بننے سے روکا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کی جو بنیاد شہید عارف حسین الحسینی نے ڈالی ہے، اس ہم بھلا نہیں سکتے۔ ان شاء اللہ ہماری نوجوان نسل ان کی یاد کو زندہ رکھے گی۔ 

علامہ موصوف نے اسلامی جمہوریہ ایران کے نو منتخب صدر کے تعلق سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جناب رئیسی صاحب نے ایرانی صدر کے طور پر اپنا عہدہ سنبھال لیا ہے۔ آئندہ آنے والوں سالوں کے لئے میں اسے ایک مثبت ٹرینڈ سمجھتا ہوں۔ یہ تو میڈیا والوں کا کہنا تھا کہ ہاشمی رفسنجانی ہارڈ لائنر ہیں اور احمدی نژاد سافٹ لائنر ہیں۔ یہ پریس والے ان جملوں سے ہمارے مائنڈ کو سیٹ کرتے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ یہ سب معصوم ہیں، لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ اچھے اچھوں سے یہ بہت اچھے ہیں۔ جس طرح سے امریکہ سے سات کھرب سے زیادہ ڈالر، تیس ہزار سے زیادہ اپنے فوجی اور لاکھوں سے زیادہ افغانی شہریوں کو مروایا ہے، ان سے تو یہ بہتر ہیں۔ لیکن ان لوگوں کا نام بلیک لسٹ میں نہیں جاتا، آقای رئیسی جیسے لوگوں کا نام بلیک لسٹ میں چلا جاتا ہے کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو موت کی سزا دی ہے۔ کیا اسرائیل کے صدر اور پرائم منسٹر نے لوگوں کو نہیں مروایا؟ جمال خاشقی کا کیا ہوا؟ کشمیر میں مودی کیا نہیں کر رہا ہے؟ ان کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ لیکن اگر ایک شیعہ عالم دین چیف جسٹس کے بعد صدر بنے گا تو امریکہ اعتراض کرتا ہے کہ ایسے شخص کو آپ نے صدر کیوں بنایا ہے؟ اس لئے تاکہ تمہیں پتا چلے کہ تمہارے منہ میں انگلی ڈال کر اپنا حق لینے والا کھڑا ہے۔ آقای رئیسی جمہوری اسلامی کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ان شاء اللہ ایک اچھا کردار ہماری نظر میں سامنے آیا ہے۔ 

علامہ شبیر میثمی نے کرونا وبا کے تعلق سے احتیاطی تدابیر کو بیان کرتے ہوئے کہا حکومت ایس او پیز دے یا نہ دے، اگر کسی کھانے کے بارے میں آپ کو پتا چل جائے کہ سڑ گیا ہے، آپ نہیں کھائیں گے، جیسے زہر نہیں کھاتے۔ لاکھ لوگ کہیں کہ کورونا نام کی کوئی چیز نہیں ہے، میں آپ کو پچھلے پچیس دن خوجہ جماعت کے غسل خانے میں آنے والی میتوں کی لسٹ دے سکتا ہوں کہ اتنے لوگوں کا کورونا پازیٹو تھا ۔ سمجھیں یہ جھوٹ بھی ہے، تین رات پہلے ہمارے ایک خدمت گزار کا فون آیا کہ کوئی ایسی جگہ بتادو جہاں وینٹی لیٹر مل جائے، آکسیجن مل جائے۔ پوری رات اسے کچھ نہیں ملا۔ دوسرے دن دوپہر کو پتا چلا کہ وہ انتقال کرگئے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ ہم ایسی حالت میں داخل ہوں کہ ہمارے گھر والے پریشان ہوں۔ زمانے کے امام کی نگاہ میں آپ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ میں آپ کو اللہ اور رسول کا واسطہ دیتا ہوں، ویکسین لگوائیے، فاصلے رکھئے، اگر کسی کو کورونا ہوجائے تو فوراً علاج کیجئے۔ یاد رکھئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔“ اور اگر کسی نے ایک جان کو مرنے سے نہیں بچایا اس نے پوری انسانیت کو ختم کردیا۔

آخر میں استقبال محرم کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ محرم الحرام کی مجالس میں ان ذاکرین، علماء اور خطباء کو زیادہ موقع دیں جو کربلا کے مقصد کو زندہ کریں۔ وہ لوگ جو مجلس میں باتیں تو اچھی کرتے ہیں لیکن مقام امام حسینؑ، مقصد رسولؐ، مقصد قرآن پر بحث نہیں کرتے ہیں ان کو پڑھنے دیں، ان پر تنقید نہیں کریں۔ آپ ان مجالس میں جائیں جہاں آپ کی زندگی کو زندہ کیا جائے، جہاں آپ کی فکر کی احیاء ہو ، جہاں آپ کی فکر کو مہمیز ملے اور آپ جانیں اور اسلام میں مزید آگے آئیں۔ دو مہینے اور آٹھ دین میرا اور آپ کا امتحان ہے کہ آیا علوم آل محمد علیہم السلام کے دستر خوان سے اچھی غذا لے کر اپنی فکر کو بہتر کرتے ہیں یا نہیں کرتے ہیں۔ یہاں پر آنے والے اچھے صاحب حیثیت ہیں لیکن جو ڈونیشن ہم توقع کر رہے تھے وہ ہمارے پاس نہیں پہنچا ہے۔ محرم الحرام کا بہت لمبا خرچہ ہے، آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .