حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، محرم الحرام سن 1443ہجری کی آمد پر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید غافر رضوی صاحب قبلہ فلکؔ چھولسی نے اہلبیت علیہم السلام کے غم و اندوہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر رونا، رلانا یا رونے والے کی شکل بنانا غرض امام حسین ؑ کےغم میں کسی بھی طرح سے غمگین ہونے والے کو جنت الفردوس کی بشارت دی گئی ہے۔
مولانا موصوف نے اپنے بیان میں کہا: امام حسین علیہ السلام کی عزاداری، ہماری شہرگِ حیات ہے، ظاہر سی بات ہے کہ اگر انسان کی شہرگ کو کاٹ دیا جائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح اگر ہم سے امام حسین ؑ کی عزاداری کو جدا کردیا جائے تو ہماری زندگی بے معنی ہوکر رہ جائے گی لہٰذا ہمیں ہر قیمت پر امام حسین ؑ کی عزاداری سے ملحق رہنا ہے۔
دوسری مثال دیتے ہوئے مولانا غافر رضوی نے کہا: ایک مچھلی کی زندگی اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ پانی میں ہے، پانی سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے تو مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح ہم دریائے عشق میں غوطہ زن ہیں اگر ہمیں اس عشق کے سمندر سے نکال لیا جائے تو ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔
مولانا نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ہمیں عزاداری ہرحال میں منانی ہے لیکن ہمیں یہ بھی خیال رکھنا پڑے گا کہ ہماری عقیدتیں اپنی حد سے تو آگے نہیں بڑھ رہی ہیں! کہیں ایسا تو نہیں کہ جن ہستیوں کی رضایت کے لئے ہم عزاداری منارہے ہیں انہی ہستیوں کو اپنے اعمال و کردار سے رنجیدہ کردیں! ہمیں عزاداری کی اہمیت کے پیش نظر، دیگر اسلامی احکام کو بھی ترجیح دینی ہوگی تاکہ ہماری عزاداری باہدف، بامقصد، بامفہوم اور بامعنی قرار پائے اور ہمیں خود اپنی زبان سے یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئے کہ ہم حسینی ہیں بلکہ ہمارا کردار اور ہماری رفتار و گفتار زمانہ پر یہ ثابت کردے کہ ہم حسینی ہیں۔