۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا علی عباس خان

حوزہ/سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں احتجاج کر رہی خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے مولانا علی عباس خان صاحب نے شاھین باغ دہلی میں پرزور خطاب کا آغاز کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں احتجاج کر رہی خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے مولانا علی عباس خان صاحب نے شاھین باغ دہلی میں پرزور خطاب کا آغاز ان لفظوں سے کیا کہ معاشرہ میں اکثر افراد خواتین کو ناتواں و کمزور سمجھتے ہیں یہاں موجود خواتین نے ثابت کردیا کہ ان کا گروپ مردوں کو طاقت دینے والا ہے، مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت کو سمجھنے کا معیار عقل ہے یہاں پر احتجاجی صورت میں بیٹھنے والی عورتوں کی موجودگی انکی عقلمندی کی دلیل ہے۔ عقلمند اسے نہیں کہتے جو اپنے آپ کو بچائے، بلکہ عقلمند وہ ہوتا ہے جو آئین و عدالت کے تحفظ میں کوشاں رہتا ہے۔
مولانا نے مزید فرمایا لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاں بھیڑ ہوگی وہیں عقل ہوگی جبکہ حقیقت اسکے برخلاف ہے۔ بھیڑ حق کا معیار نہیں، عقل معیار حق ہے جیسے قرآن نے اشارہ کیا (بل اکثرھم لا یعقلون )۔
مولانا فرماتے ہیں یہاں موجود افراد جیت کے امیدوار ہیں اسکی پہلی دلیل؛ واقعہ کربلا ہے جہاں لاکھوں کا یزیدی لشکر تھا لیکن ناپید ہوگیا اور بظاہر بہتر حسینی تھے جو اس طرح کامیاب ہوئے کہ آج بھی حسین(ع ) زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔ امام حسین (ع ) کے ساتھ خواتین بھی تھیں ہمیں کربلا نے سکھایا کہ کسی انقلاب کو کامیاب کرنا ہے تو مردوں کے ساتھ خواتین کا ہونا ضروری ہے ۔
دوسری دلیل؛ خدا پہ بھروسہ
تیسری دلیل؛ انسانی فطرت ہے جس کا تقاضا حق اور عدالت و انصاف کا ساتھ دینا ہے۔
مولانا نے اس ظریف پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا کہ شیطان امید توڑنے کا کام کرتا ہے لہذا نا امید نہ ہوں۔ یہ لڑائی امید اور نا امیدی کی ہے، جیت اسکی ہوگی جس کی امیدیں باقی رہیں کیونکہ جنگ quantity سے نہیں بلکہ quality سے فتح کی جاتی ہے۔
مولانا نے مزید یہ بھی کہا کہ شاید میڈیا یہ دکھا رہا ہے کہ صرف مسلمان یہاں جمع ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف مسلمان نہیں بلکہ اس احتجاج میں ہر انصاف پسند اور عقلمند شامل ہے جو ظلم اور نا انصافی کی مخالفت کو اپنا شعار سمجھتا ہے۔ لہذا آپ بھی کوشش کریں کہ ملک میں شعور و عقلمندی بڑھائیں، جتنی ہماری عقل بہتر ہوتی جائے گی ہم سجھتے جائیں گے کہ کس کی موافقت کرنی ہے اور کس کی مخالفت. ہم پھر بھیڑ کے پیچھے نہیں جائیں گے بلکہ حق و انصاف کی طرف جائیں گے اس راہ میں ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ ہماری تعداد کم ہے یا زیادہ۔
مولانا نے اپنے خطاب کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ اس کام کا رخ ایک خاص طبقہ کی طرف نہ موڑا جائے ورنہ دشمن کامیاب ہو جائےگا کیونکہ تفرقہ پردازی ہی دشمن کا حربہ ہے۔ ہم کم ہیں مگر متحد ہیں جب تک اتحاد کو باقی رکھیں گے خدا بھی ہمارے ساتھ ہے اور اس کی عطا کردہ فتح و کامرانی بھی ہمارا ہی مقدر ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .