۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
طیب

حوزہ/شہر قم کے مدرسۂ حجتیہ میں زیر تعلیم مولانا محمد طیب علی صاحب کی والدہ NRC.CAA.NPR مخالف احتجاجی مظاہرے میں شریک تھین جنکا انتقال احتجاج کے دوران ہوگیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق NRC.CAA.NPR کی مخالفت میں کولکاتا بی بی انارو امامبارگاہ سے ایک جلوس برآمد ہوا جو کولکاتا پارک سرکس میدان تک  گیا۔

 یاد رہے پارک سرکس یہ وہ  میدان ہے جہاں دہلی شاھین باغ کی طرح ھندوستانی خواتین NRC.CAA.NPR کے خلاف تقریبا ایک مہینہ سے احتجاج کر رہی ہیں انہیں خواتین میں سے ایک سمیدہ خاتون بنت محمد قربان علی کا کچھ ہی دن پہلے اسی پارک سرکس میدان میں احتجاج کی حالت میں انتقال ہوا۔

اطلاع کے مطابق کولکاتا بی بی انارو امامبارگاہ سے ایک جلوس برآمد ہوا جو پارک سرکس میدان تک گیا اس جلوس میں شامل مولانا محمد طیب علی صاحب بھی تھے جو سمیدہ خاتون کے فرزندان میں سے ایک ہیں جنکی تعلیم ملک ایران کے قم شہر کے مدرسہ حجتیہ میں چل رہی ہے،مولانا محمد طیب علی صاحب تدفین کے دوسرے دن ایران سے کولکاتا پہونچے۔ سوگ کے بعد مولانا اس جلوس میں شریک ہوئے اور بی بی انارو امام بارگاہ سے پیدل چل کر پارک سرکس میدان میں اس مقام تک گئے جہاں ان کی ماں مرحومہ سمیدہ خاتون بنت محمد قربان علی ملک ھندوستان کے آئین کو بچانے کی خاطر اور  این،آر،سی۔ سی،اے،اے اور این،پی،آرکی مخالفت کرنے کی حالت میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔

معلوم ہوکہ مولاناجب اس مقام پر پہونچے تو ان پر ایک عجیب سی کیفیت تاری ہوئی اور وہ رو پڑے اسی کیفیت میں انہوں نے وہاں موجود حاضرین سے مخاطب ہوکر کچھ باتیں پیش کیں: 

مولانا نے کہا جب میں جلوس کے ساتھ پیدل چل کر آرہا تھا تو مجھ میں کسی بھی طرح کی کوئی کیفیت نہیں تھی مگر جیسے ہی  اس مقام پر آیا تو ماں کی یاد نے مجھے رلا دیا اور پھر سے یہ احساس ہوا کہ میری ماں، مجھ سے بےلوث محبت کرنے والی ماں نہیں رہیں۔ جب میں RSS کے صدر موہن بھاگوت سے منسوب کتاب"ھندوستان کا سنویدھان" (جوکہ سولہ پیج پر مشتمل ہے ھندی زبان میں لکھی گئی ہے)پڑھی تو یہ اندازہ ہوا کہ اگر ھندوستان میں NRC,CAA,MPR جیسا قانون لاگو ہوا تو ھندوستان کئی ھزار سال پیچھے چلا جائے گا۔ 

مولانا نے یہ بھی کہا کہ NRC. CAA. MPR  یہ سب کالا قانون ہے یہ سارے قانون لاگو نہیں ہونے چاہئے اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ ھندوستان کے سنویدھان کو نہیں مانتے اور نہ ہی ملک سے پیار کرتے ہیں، ھندوستان ایک چمن ہے اور ھم سب اس چمن کے مختلف رنگ و بو والے پھول ہیں اور یہ RSS کے لوگ اس چمن کو اجاڑنا چاہتے ہیں۔

مولانا نے کہا کہ میں ان لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ھم وہی  ہیں کہ جو آزادی کی خاطر انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور انہیں للکارا تھا، آپ تمام ماں اور بہنیں جو یہاں بیٹھیں ہیں یہ نہ سوچیں کہ آپ اکیلی ہیں۔ آپ سبھوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ھندوستان کے مختلف صوبوں،شہروں میں بھی خواتین ھندوستان کے سنویدھان کو بچانے کی خاطر اپنے گھر کے نرم،گرم بستر کو ترک کر کے احتجاج میں بیٹھیں ہیں جن میں سے دہلی کے شاھین باغ،جامعہ ملیہ کا نمایاں نام ہے۔ آپ سب اس احتجاج میں شامل ہوکر یہ ثابت کر چکی ہیں کہ ھم کل بھی ھندوستانی تھے،آج بھی ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ اور یہ بتا دیا کہ ھندوستان ھمارا تھا، ھندوستان ھمارا ہے، ھندوستان ھمارا رہے گا۔
 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .