حوزہ نیوز ایجنسیI جب پوراملک افراتفری کاشکارہے،ملک کا چپہ چپہ اورچھوٹا بڑا ہر شہر سراپا احتجاج ہے،دن بدن اس میں شدت آرہی ہے،اور ہردن پہلے سے قوت کے ساتھ آواز بلند ہورہی ہے،اس افراتفری اور بے چینی کی وجہ عام زندگی کسی نہ کسی درجے میں مفلوج ہوکررہ گئی ہے،احتجاجیوں کا جوش وجذبہ دیکھکر،جسم کے اندرایک حرکت سی پیدا ہوجاتی ہےاورپھر دل یہ سرگوشی کرنے لگتاہے کہ جس انقلاب کے یہ تحریک پورے ملک میں چلائی جارہی ہےاب وہ انقلاب بہت قریب ہے،اور کیوں نہ ہو کہ اس میں بچے، بوڑھے،مرد عورت،ہندومسلم،سکھ عیسائی،تعلیم یافتہ جاہل سب یکساں شریک ہیں اور آزادی کے بعد یہ پہلاموقع ہے جب بھارت کی عوام اتنی بڑی تعداد میں بھی اپنے گھروں کے بجائے سڑکوں پرہے،آخرکیاوجہ ہےکہ اتنی سخت اور شدید سردیوں میں بھی لوگ اپنے گھروں کے بجائے سڑکوں پر، چوک چوراہوں پرہیں؟،انکے ہاتھ میں ترنگا اور زبان پرآزادی، بھارت زندہ باد کے نعرے ہیں،اسکاجواب یہ ہے کہ ملک میں کچھ مہینوں سے حکمراں پارٹی کی”فرعونیت”عروج پر ہے۔
حکومت اور اقتدار کانشہ ان پرایسا سوار ہے کہ یہ لوگ اب کس کی سننانہیں چاہتےبلکہ اپنا سناناچاہتے ہیں،سماج کےدبے کچلے،غریب اور مزدور لوگوں کو غلام بناناچاہتے ہیں،بھارتی قوانین میں جسکی آزادی ملک کے تمام باشندوں کودی گئی ہےیہ حکومت اسے ختم کرکے اپناخودساختہ قانون لاناچاہتی ہے،اوراسطرح لوگوں کو بلیک میل کرکے اپنا الو سیدھا کرناچاہتی ہے،یہی کام مصر کافرعون بھی کرتاتھا،فرعون نے جبرواستبداد،انانیت،غرور اور تکبر نے اسے طرح اندھاکردیاتھا جسطرح بھارت کی موجودہ حکومت اندھی،گونگی اوربہری ہوچکی ہے،آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ فرعون مصر کون تھا اوراسکے کارنامے کیاتھے؟ پھراسکاانجام کیاہوا؟مصر کے بادشاہوں میں ایک فرعون بھی تھااور مصر میں قوم بنی اسرائیل کی ایک بڑی تعداد آباد تھی،جسکو دراصل حضرت یوسف علیہ السلام نے وہاں بسایا تھا،قوم بنی اسرائیل کافی عرصے بلکہ صدیوں سے قیام پذیر تھی،انکی تعداد لاکھوں میں تھی،مصر کے بادشاہوں نے انھیں غلام بناناشروع کردیا،فرعون بھی انھیں غلام بنالیا اورانتہائ عصبیت،جانبداری اورذلت آمیز حرکت بنی اسرائیل کے ساتھ کرنے لگا،زمانہ گذرتارہا۔
اس درمیان مختلف نبی اور رسول آتے رہے،یہاں تک کہ ایک عرصے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کازمانہ آیا،یہ بات رکھنے کی ہے مصر کے جتنے بادشاہ ہوتے تھے سبکا لقب فرعون ہے،موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جوفرعون حکومت واقتدار پر قابض تھاوہ قوم بنی اسرائیل پرطرح طرح کے مظالم ڈھاتا اورہرقسم کا ناروا سلوک ان سے کرتاتھا،ظلم وستم کا پہاڑ ان توڑا جاتا،انکی عورتوں کی عصمت کو تارتارکیاجاتا،ظلم و ناانصافی اوربربریت جب آخری اسٹیج پر پہونچ گیاتو پھر رحمت خداوندی جوش میں آئی اورقوم بنی اسرائیل کو غیرانسانی اذیتوں سے نجات دلانے کےلئے کچھ اس طرح انتظام کیا گیاکہ فرعون پراپنی سلطنت کے چلے جانے کاخوف طاری ہوگیا،اس نے زوال سلطنت سے ایک خواب دیکھا،وہ خواب کیاتھا؟ اس نے خواب میں دیکھاکہ بیت المقدس(مسجد اقصی)کی طرف سے ایک آگ آئی جس نے مصر کے باشندوں کو جلاکر خاک کردیا،اس نے اپنے خواب کی تعبیر کے لئے نجومیوں کو بلوایا،نجومیوں نے اس خواب کی یہ تعبیر دی کہ قوم بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہوگا جوتمہاری حکومت اور سلطنت کےلئے خطرہ بنے گا۔
تمہاری بادشاہت کوختم کردے گا،فرعون یہ سنکر بہت پریشان ہوا،گھبرایا،یہ بات فرعون اچھی طرح جانتاتھا کہ نجومیوں کی بات میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہوتی ہے،لہذا اسنے اس سے بچاؤ کی تدبیر سوچنے لگاکہ اگر میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہ لیا تو نہ میں بچوں گااور نہ ہی میری حکومت بچے گی،نہ ملک محفوظ رہے گااور نہ ہی وہ دین و مذہب جس پر وہ قائم تھا،فرعون کوئی معمولی بادشاہ نہیں تھا بلکہ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ اپنے زمانے کاانتہائ طاقت ور اور سوپر پاور حکمراں تھا،لیکن ظلم وبربریت اور سرکشی میں بھی وہ سوپر پاور ہوچکا تھا،اپنی مظلوم قوم سے اپنے لئے سجدہ کرواتا،اسکواپنی بڑائی اور کبریائی کااتنا ناز تھاکہ وہ اپنی رعایا اورملک کے باشندوں کا خودساختہ خدا بن بیٹھا تھا،پھروہ اپنی خدائی کادعویدار بھی تھا جسکو قرآن نے بھی بیان کیاہے،چنانچہ نجومیوں کی بات سنکر وہ ڈراور خوف میں مبتلا ہوگیا اور ایک تانا شاہی فرمان پورے ملک میں جاری کردیا کہ”بنی اسرائیل میں جو بھی بچہ پیدا ہو،فوراََ اسکو قتل کردیا جائے۔
اور اگر بچی پیدا ہوتو اسکو خدمت کےلئے چھوڑ دیا جائے”اس تاناشاہی فرمان کے مطابق بنی اسرئیل کے ہزاروں،لاکھوں معصوم بچے پیداہوتے ہی قتل کردیئے گئے،کچھ دنوں کے بعد پھر درباریوں کو خیال آیاکہ اگر بنی اسرائیل کے بچے یوں ہی قتل ہوتے رہے تو پھر ہماری خدمت کون کرے گا؟درباریوں نے فرعون سے یہ تذکرہ کیا، فرعون نےیہ سنکر دوسرا فرمان جاری کردیاکہ ایک سال قتل کیاجائے اورایک سال چھوڑ دیاجائے،خداکی قدرت کہ جوسال چھوڑ نے کاتھا اس سال حضرت ہارون علیہ السلام پیداہوئے اور جس سال قتل کرنے کا تھا اس سال حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے،انسانی اپنی منصوبہ بندی کرتاہے اورادھر اللہ تعالیٰ بھی تدبیر اختیار کرتے ہیں اور قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والے ہیں،اب حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوگئے اوراسی دن کا انتظار تھا،فرعون کی گھبراہٹ اور پریشانی میں روزبروز اضافہ ہوتارہا، پھر قدرت نے ایسا انتظام کیاکہ اسی فرعون کے محل میں شاہانہ انداز میں حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش و پرداخت کی گئی اور پھر وہیں سے فرعون کا زوال شروع ہوگیا،بلآخر اس ظالم وجابر حکمراں کا انجام کیا ہوا؟وہ جن دریاؤں اور نہروں کو اپنی ملکیت بتلاتا تھااللہ تعالیٰ نے اسی دریامیں اسے ڈبودیاگیا۔
اسکی پولس،اسکے فوجی،اسکے غلام،اسکی رعایا سمیت دنیا نے اسکی بے بسی کامنظر دیکھا لیکن کوئی بھی اسکی مددکرنے سے قاصر تھے،جس حکومت اور سلطنت کےلئے اس نے ظلم وبربریت کاننگاناچ کیاوہ آج اسکی کسی طرح کاکوئی تعاون نہ کرسکے،ساری مشنریاں فیل تھیں ،سارے ادارے بے بس تھے،ساری طاقتیں خاموش تماشائی تھی یہ تھاوقت کے سوپر پاور اورظالم وجابر کابھیانک انجام،اس ظالم فرعون کو اللہ تعالیٰ قیامت تک کےلئے نشان عبرت بنادیاآج بھی اسکا ڈھانچہ مصر کے میوزیم میں موجود ہے،وہاں جانے والے سیاح اسکامشاہدہ کرتے ہیں،جس وقت مصر میں فرعون کی بربریت جاری تھی اسوقت بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھاکہ ایک ایسا شخص جسکے ہاتھ میں اقتدار ہے،سلطنت کا مالک ہے،خدائی کادعویدارہے۔
آخرکیوں کر بنی اسرائیل اسکی بربریت سے نجات پاسکے گی؟ ظلم وستم کا یہ اندھیرا کیسے دور ہوگا؟ جبرواستبداد کا یہ سلسلہ کیسے ختم ہوگا؟مگر زمین وآسمان نے یہ بھیانک منظر بھی دیکھا،بحر قلزم نے اتنے بڑے ظالم و جابردشمن کو انتہائی ذلت و رسوائی کی موت مرنےاور غرق ہونے کاتماشا اپنی آنکھوں سے دیکھا،یہ تھافرعون مصر کا انجام جو تکمیل کوپہونچا اب دیکھنا یہ بھی ہے بھارت کاموجودہ فرعون جسکی فرعونیت ہند میں ابھی عروج پر ہے وہ کب اپنے انجام کو پہونچتاہے؟ملک بھر میں انقلابی تحریک جاری ہے،ہرآنے والا دن اس تحریک میں مزید شدت پیدا کررہاہے،ملک کے اکثربڑے شہروں میں”شاہین باغ” قائم ہے۔
جسکی قیادت ہندوستان کی بے باک اور نڈر خواتین کررہی ہیں بلکہ اس تحریک کی قیادت ہی اب”خواتین ہند”کررہی ہیں،انکے حوصلے اور جذبے کو سلام ہے،دہلی، یوپی اور بہار میں ان دنوں سردی عروج پر ہے لیکن اسکے باوجود خواتین کے حوصلے اور جذبے میں کوئی کمی نہیں،انکے چہروں سے سنہرے مستقبل اورامید کی ایک نہیں کرن نظر آتی ہے،جیسے جیسے رات اپنے شباب کو پہونچتی ہے ویسے ویسے شاہین باغ میں کمان سنبھالے اور محاذ پربیٹھی ہماری خواتین کی تعداد حیرت انگیز طورپر لاکھوں میں ہوتی ہےاورپھر پوری رات انقلابی نعروں سے گونجتی رہتی ہےاسلئے میرایقین کہتاہے کہ اب ہند کاموجودہ فرعون بھی بہت جلد اپنے انجام کو پہونچے گا،اب اقتدار پر بیٹھے اس بھیڑیا کے مزید ظلم وبربریت کو مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا،ہرعروجے رازوال است کامحاورہ اب بہت جلد انشاءاللہ اپنی حقیقت سے دنیاکو واقف کرائےگا،ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری،جھوٹے سچےوعدے،پولس کی ظلم وبربریت اور اسکی لوٹ کھسوٹ کابے شرم کرداراب اس فرعون کو بہت جلد اقتدار کی کرسی سے تحت الثریٰ میں پہونچاکر دم لے گابس انتظار کیجئے۔
تحریر: سرفراز احمد حیدرآباد
نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔