۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مولانا منظور علی نقوی

حوزہ/ معصومین (ع) کی  روایات میں عقلمند کے لیے اوصاف و خصائص بیان کیے گئے ہیں اور بعض اعمال کو اس کے لائق قرار دیا گیا ہے۔

مولانا منظور علی نقوی امروہہ وی نے " عقلمندی اور دینداری " کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بہت افسوس کا مقام ہے جب لوگ عقلمندی کو دینداری سے جدا جانتے ہیں اور دنیاداری کے ساتھ اس کا تعلق سمجھتے ہیں۔ امام صادق علیه السلام فرماتے ہیں مَنْ كَانَ عَاقِلاً كَانَ لَهُ دِينٌ وَ مَنْ كَانَ لَهُ دِينٌ دَخَلَ اَلْجَنَّةَ ( ہر وہ کہ عقلمند ہے دیندار ہے اور جو دیندار ہے بھشت میں داخل ہونے والا ہے)۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا: معصومین (ع) کی روایات میں عقلمند کے لیے اوصاف و خصائص بیان کیے گئے ہیں اور بعض اعمال کو اس کے لائق قرار دیا گیا ہے،احادیث و روایات کی زبان میں عقلمند اور صاحب بصیرت وہ ہے جو اپنے زمانے کے حالات و واقعات کا مکمل علم رکھتا ہو اور ہمیشہ اسی سمت چلتا رہے۔

انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا: امام علی علیہ السلام ایک خوبصورت حدیث میں فرماتے ہیں: چھ چیزیں ہیں جن سے لوگوں کی عقل کی پیمائش کی جاتی ہے: غصے کے وقت صبر، خوف کے وقت صبر، خواہش کے وقت اعتدال، ہر حال میں خدا کا خوف رواداری۔ اور تھوڑا سا جھگڑا"
لیکن اس بارے میں بہت سی روایات ہیں کہ ایک عقلمند آدمی کس چیز کا مستحق ہے، مثال کے طور پر
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا اس کے لیے عقلمندی ہے کہ وہ اپنے وقت کو جان لے، اپنا کام کرے اور اپنی زبان کو سنبھالے رکھے۔"

انہوں نقل کرتے ہوئے بیان کیا کہ امام کاظم علیہ السلام بھی فرماتے ہیں: "عقلمند اس سے ایک لفظ بھی نہیں کہتا جو انکار کرنے سے ڈرتا ہے، اور جو انکار کرنے سے ڈرتا ہے اس سے کچھ نہیں چاہتا، اور وہ وعدے کو پورا نہیں کرتا۔ وہ پورا نہیں کرتا۔" وہ ہار نہیں مانتا اور اس کی امید نہیں رکھتا جس کے لیے اسے اس کی امید میں ملامت کی جاتی ہے، اور وہ نہیں کرتا جس کا اسے اس میں خوف ہوتا ہے۔

مزید اپنی گفتگو میں کہا: امام علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا: "عقلمند دنیا کی خامیوں پر خوش ہوتے ہیں، اگر اس میں حکمت بھی ہو، لیکن اگر ان کے پاس دنیا ہو اور تھوڑی سی حکمت سے فائدہ اٹھائیں، تو وہ مطمئن نہیں ہوتے، اس لیے ان کا کاروبار فائدہ مند ہو گیا"۔

اخر میں کہا: ان احادیث کی طرف نگاہ کرکے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دین نے کتنا انسان کی عقل کی رہنمائی کی ہے اور کسی بھی مقام پر عقل کو رہا نہیں کیا ہے آج جو یہ فکر ایجاد ہو گئ ہے کہ جو جتنا زیادہ دنیاداری رکھنے والا ہوگا وہ اتنا عقلمند ہوگا اس بات کا دین میں کوئی مقام نہیں ہے اس لئیے کے جو جتنا متقی اور خوف الھی رکھنے والا ہوگا عقلمند اسلام کی نگاہ میں حقیقتا وہی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .