۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
کودکان در محرم

حوزہ/ ہر سانحہ کے بعد ہمارا جوش و خروش مزید بڑھتا ہے ہم اپنے پیاروں کا غم بھول کر کربلا والوں کا غم برپا کرتے ہیں۔ہمارے بوڑھے اپنے جوانوں کی لاشوں کو چھوڑ کر حسین علیہ سلام کے اکبر کا ماتم کرتے ہیں۔ہم دعائے سیدہ ہیں ،ہم  بم دھماکوں سے ختم ہونے والی قوم نہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پاکستان کی معروف کالم نگار محترمہ سویرا بتول نے کہا کہ ماہ ایامِ اعزا میں  وطن ِ عزیز میں شہر شہر نگر نگر ذکرِ سید الشہداء بھرپور جوش و خروش سے برپا کیا گیا۔ کربلا والوں کی یاد میں اعزادارانِ حسین ابن علی حسینیت کے مبلغ بن کر سڑکوں پر آئے اور ہر انسان نے اپنے اپنے اندازمیں سید الشہداء کو خراجِ عقیدت پیش کیا اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ اُن پر ایف آئی آر کاٹی جائیں گیں، جلوس کو روکنےکی سازشیں کی جائیں گیں،جلوسِ اعزا پر پتھراؤ کیا جائے گا یا بہاولنگر میں دھماکہ کرکے اعزداری کو روکنے کی سازش کی جائے گی۔ مومن کے لیے اس سےبڑی کوئی بشارت نہیں ہے کہ وہ حسین علیہ سلام کی محبت میں ماراجائے۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے سفاک اور قاتل حکمران اُس دور میں ہمیں نہ جھکا سکے تو یہ آج کے مٹھی بھر یزید و شمر صفت لوگ ہم حسینیوں کو کیسے مٹا سکتے ہیں ؟ ذکرِحسین ہمیشہ رہے گا اور یہ وعدہ الہی ہے کہ حسین علیہ سلام ہم نے آپ کے ذکر کو قیامت تک کے لیے بلند کردیا اب جب تک ذکرِخدا ہے اُس وقت تک حسین علیہ سلام کا ذکر ہے۔

اے کرب و بلا خوش ہو نئی نسل نے اب کے
خود اپنے لہو سے تیری تاریخ لکھی ہے

انہوں نے کہا کہ ہم ہر سال حسین ابنِ علی کا ذکر برپا کرکے یہ پیغام دیتے ہیں کہ حسین علیہ سلام کسی ایک گروہ کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کی میراث ہیں۔جہاں مظلومیت ہے، وہاں وہاں حسینیت ہے۔جہاں جہاں مظلوم ظالموں سے بر سر پیکار ہیں وہاں وہاں حسینیت انہیں جوش و ولولہ دیتی ہے۔یہ جتنی بھی استعماری ایجنٹ ہیں جتنی بھی سامراجی قوتیں ہیں یہ اگر خوف ذدہ ہیں تو کربلا سے، انہیں خوف ہے تو فقط حسینیت سے، اس لیےہم ہر سال جلوس اعزا نکال کر، ذکرِ سبطِ پیغمبر برپا کر کے یہ پیغام دیتے ہیں کہ حسین علیہ سلام کسی ایک مکتب کے نہیں ہیں بلکہ حسین ابن علی کا پیغامِ حریت ہر دور کے ہر انسان کے لیے ہے۔جہاں جہاں مظلوم ظالموں سے برسرِ پیکار ہیں وہاں وہاں کربلا کا پیغام پہنچایا جائے چاہے اس کےلیے ہمیں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، چاہے سولی پہ لٹکائے جائیں یا جلوس پہ دھماکے کیے جائیں مگر ایک لمحے کے لیے بھی کربلا کو فراموش نہ ہونے دینا۔ کربلا کو عام کرنے کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ آج بھی کون غالب ہے؟حسینیت اور یزیدیت کے درمیان صدیوں سے جاری معرکہ کس حقیقیت کی گواہی دے رہا ہے؟ اگر کربلا کا معرکہ ایک روز میں ختم ہوگیا ہوتا تو آج حسینیت کے خلاف یہ آوازیں کیوں اٹھ رہی ہیں؟یہ کس کے ذکر کو روکنے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں؟ یہ خوف و ہراس کی فضا کیوں قائم کی جارہی ہے؟ حسینیت کی سرزمین پر یزید زندہ باد کے نعرے، جلوسِ اعزا پہ ایف آئی آر کاٹنا اوربہاولنگر میں دھماکے جیسے کمزر حربے استعمال کرنا ظاہر کرتا ہے کہ کربلا کے بہتر کا معرکہ آج تک جاری ہے اور کربلا کے بہتر آج تک غالب ہیں ۔یزیدِ ِوقت آج بھی ذکرِ سید الشہداء علیہ سلام سے خوف زدہ ہے۔
 
اے سرزمینِ کربلا یاد رکھنا!!!
تم نے اپنا خون دیا تھا
جب کربلائے عصر کے ہنگام میں 
لہو دینےکا وقت آیا تو ہم بھی پیچھے نہیں رہے 
وہ مکتب جو کربلا میں پوری آب و تاب سے چمکا 
اور جس کے ماننے والے آج بھی حسین کی انکارِ بیعت پر قائم ہیں 
اس خون کی ہولی میں ہم بھی پیچھے نہیں رہے 
اے سرزمینِ کربلا یاد رکھنا !!!

مزید کہا کہ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں اور  اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ دہشت گردی کی اِن کمزور کاروائیوں سے  حسین ابن علی کی مجلسوں اور جلوسوں پر اثر پڑے گا  تو یاد رکھیے کہ اعزدارانِ مظلومِ کربلا پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر مجالسِ اعزا کو رونق بخشیں گے۔ 

انہوں نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بہاولنگر جیسے سانحات عام دہشتگردی نہیں بلکہ ملک بھر میں بالخصوص پنجاب میں سرکاری اہلکاروں کیطرف سے عزاداری کے خلاف کھلی زیادتیوں اور قدغنوں کا تسلسل ہے۔باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تکفیریوں کو باقاعدہ طور پر استعمال کیا گیا تاکہ عزاداروں میں خوف وہراس پیدا کرکے عزاداری کو مزید محدود کیا جائے۔کبھی جلوس اعزا پہ پتھراؤ، کبھی یزید زندہ باد کے نعرے اور کبھی مرکزی جلوس پر بلاسٹ اور کبھی مومنین پر بلاجواز ایف آئی آر درج کرنا مراسمِ اعزاداری کو یرغمال بنانے کے مترادف ہے۔دنیا یاد رکھے کہ لاشیں دینے سے قومیں مرا نہیں کرتیں بلکہ شہید دینے سے قومیں زندہ ہوا کرتی ہیں۔

مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر سانحہ کے بعد ہمارا جوش و خروش مزید بڑھتا ہے ہم اپنے پیاروں کا غم بھول کر کربلا والوں کا غم برپا کرتے ہیں۔ہمارے بوڑھے اپنے جوانوں کی لاشوں کو چھوڑ کر حسین علیہ سلام کے اکبر کا ماتم کرتے ہیں۔ہم دعائے سیدہ ہیں ،ہم  بم دھماکوں سے ختم ہونے والی قوم نہیں۔ہمارے بہتر آج بھی غالب ہیں اور یزیدِ وقت آج بھی کربلا کے بہتر سے خوف زدہ ہے۔

آخر میں کہا کہ بہاولنگر جیسے سانحات پر حکمرانِ وقت ،میڈیا اور اداروں کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے عرصہ دراز سے ایک مکتب کی نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ محظ اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم سازش ہے اور اداروں کی خاموشی کوفہ جیسی خاموش امت کی یاد دلاتی ہے۔

کسی کے جَور و ستم یاد بھی نہیں کرتا 
عجیب شہر ہے فریاد بھی نہیں کرتا 
کبھی کبھی یہ گراں گوش چیخ پڑتا تھا
یہ کام اب مرا ہم زاد بھی نہیں کرتا
وہی صلیب و سلاسل،سکوت و سنگ زنی 
نئے ستم کوئی ایجادبھی نہیں کرتا

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .