۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
روضه بانوان در بیرجند

حوزہ/ دنیا آج بھی دیکھ رہی ہے کہ راہیانِ راہِ وفا اور عاشقانِ سید الشہداء آج بھی کربلائے عصرِ میں اپنے خون کا ہدیہ مصمم ارادوں اور استور قدموں کے ساتھ دے رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پاکستان کی معروف کالم نگار و تجزیہ نگار محترمہ سویرا بتول نے کہا کہ  ہر سال کی طرح امسال ماہِ ایامِ اعزاء میں پوری دنیا میں اَن گنت مجالسِ عزاء برپا ہوئیں اور روئے زمین کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جہاں مظلومِ کربلا کی یاد میں جلوسِ عزا نہ نکالے گئے ہوں۔اس یادآوری اور ذکرِ مصیبت کو بیان کرنے میں مذہب و ملت اور زبان و علاقے کی بھی کوئی قید نہیں تھی بلکہ دنیا کا ہر مظلوم خواہ اُس کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت اور زبان و علاقے سے کیوں نہ ہو وہ سید الشہداء حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ سلام کو ہی اپنا رہبر و رہنما اور سید و سردار جانتا ہے اور خود کو حسین علیہ سلام سے ہم رشتہ قرار دیکر اپنا سر فخر سے بلند محسوس کرتا ہے۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حسینیت کی فتح کا نقارہ ہے جو قیامت تک بجتا رہے گا۔تم ہمیں قتل کرسکتے ہو مگر حسینیت زندہ و پائندہ رہے گی۔جسموں کی موت واقع ہوسکتی ہے مگر حسینیت نہ کل ختم ہوسکی تھی نہ آج ختم ہو سکتی ہے۔ہر دور میں ہم ظلم کے خلاف رہے ہیں۔یہ حسینیوں کی تاریخ کا خلاصہ ہے۔ہر ایک دور میں ہم نے ستم اٹھائے ہیں مگر ذکرِ آل رسول پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا۔

ہر ایک دور میں ہم ظلم کے خلاف رہے 
یہی ہے جرم ہمارا یہی خطا اے دل

مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو آج نواسہ رسول حسین ابنِ علی کا جلوس روک کر، چھتوں سے پتھر اور اینٹیں پھینک کر ،شیعہ کافر کے نعرے لگا رہے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ماضی قریب میں بھی اِنکے اجداد نے  بانی پاکستان پر کفر کے فتوی لگائے تھے۔سارے وہی لوگ ہیں جو کل پاکستان بننے کی مخالفت کرتے تھے مگر جب بن گیا تو اب دشمنی یہ ہم سے نکال رہے ہیں۔مگر ہم حسینی شہادت پرور قوم ہیں کسی کو یہ حق نہیں دیں گے کہ وہ اس طرح ملکی امن و امان کو خراب کرے۔ جس ملک میں بغض اہلِ بیت پر بچوں کو پروان چڑھایا جائے، جہاں بغضِ علی پر مدارس میں تعلیم دی جائے، جہاں بغضِ علی کو بنیاد بنا کر مساجد سے اول فول بکا جائے وہاں حسین ابن ِ علی کے جلوس پر پتھراؤ، ڈنڈے ،کریکر حملے ، یزید زندہ باد کے نعرے  اور شناختی کارڈ دیکھ کر باقاعدہ سینے پر گولیاں مارنا بہت چھوٹی بات ہے۔

ہر شام یہاں شامِ ویراں 
آسیب زدہ رستے گلیاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں 
خوں خوار درندے ہیں ارزاں

سویرا بتول کا کہنا تھا کہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارا واحد اور دائمی جرم ہمارا حسینی ہونا ہے اور دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ ہم اپنی اسی شناخت و پہچان کے سلسلے میں پوری تاریخ میں انتہائی حساس رہے ہیں،آج بھی ہیں اور آئندہ بھی کبھی اس سے دستبردار ہونے والے نہیں ہیں۔وقت ہماری آزمائش کرتا رہا ہے اور تاریخ اس حقیقت کی سب سے بڑی گواہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی حسینیت کے معاملے میں سودے بازی نہیں کی ہے۔گزشتہ دو دہائیوں کا احوال کئی صدیوں کے احوال پر بھاری اور نتیجہ خیز ہے۔ان مذکورہ برسوں میں گلوب کی رواں دواں استعماری حرکت اور طاغوت و عالمی کفر کی معین پالیسیوں پر حسینیوں ہی نے کاری ضرب لگائی ہے۔اس راستے میں بھی حسینیوں کو اَن گنت قربانیوں سے گزرنا پڑا ہے۔لاکھوں شہداء کا گراں مایہ خون جس نے شجرِ اسلام کی آب یاری کی ہے وہ بھی حسینیوں ہی کا خون ہے۔لاکھوں بیوائیں جنہوں نے اپنے سہاگ اسلامِ عزیز اور مکتبِ آلِ محمد کی راہ میں نچھاور کئے ہیں ان خواتین کی شناخت بھی کنیزانِ زینب کی حیثیت سے ہے۔یہ ستم جو آج اعزاداری اور اعزاداران ِمظلومِ کربلا پر روا رکھے ہوئے ہیں یہ تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا آج بھی دیکھ رہی ہے کہ راہیانِ راہِ وفا اور عاشقانِ سید الشہداء آج بھی کربلائے عصرِ میں اپنے خون کا ہدیہ مصمم ارادوں اور استور قدموں کے ساتھ دے رہے ہیں۔

مولا سدا تیری اعزاداری رہے گی 
مولا تیرے غم سے وفاداری رہے گی 
ہم رہیں نہ رہیں یہ سدا زندہ رہے

تبصرہ ارسال

You are replying to: .