حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انٹرنیشنل میکروفلم نور دہلی میں منعقد مولانا سید رضی حیدرزیدی پھندیڑوی کے والدکی مجلس سوّم سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید غافر رضوی صاحب قبلہ فلکؔ چھولسی نے بیان کیا: ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں، انکار کرنے والوں نےخدا کا انکار کردیا، رسول کا انکار کردیا، ائمہ کا انکار کردیا لیکن اس تلخ حقیقت کے سامنے لامذہب انسان بھی سرتسلیم خم کرتا نظر آیا۔
مولانا موصوف نے مزید بیان کیا: ستونوں کے بل پر رکے ہوئے مضبوط قلعوں میں مقفل ہونے کے باجود موت کے چنگل سے نجات ممکن نہیں ہے، موت کا وقت، موت کی جگہ غرض موت سے متعلق ہرچیز اختیارِ انسان سے خارج ہے اور اس قوت کو خدا نے اپنے دستِ قدرت میں رکھا ہے۔
مولانا غافر رضوی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: سلیمان جیسا پیغمبر خدا جس کی پوری دنیا پر حکومت تھی، جب موت کا وقت آیا تو بیٹھنے کی اجازت بھی نہ مل سکی بلکہ عصا کا سہارا لئے ہوئے کھڑے تھے اسی حالت میں روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی؛ جب اتنا بارسوخ انسان موت کے آگے بے بس ہے تو پھر ہم جیسے ادنیٰ انسانوں کی کیا اوقات ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں موت کو یاد رکھنا چاہئے کیونکہ موت کو یاد رکھنا ایمان میں اضافہ کا سبب اور ایمان کے پختہ ہونے کی دلیل ہے۔ اگر ہمارے دل میں ذرہ برابر بھی موت کا خوف موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دامن کردار داغدار ہے کیونکہ صاحبان ایمان افرادموت سے نہیں ڈرتے، موت کا خوف ان کے دلوں میں ہوتا ہےجن لوگوں کے دلوں میں معصیت کی بستی آباد ہوتی ہے۔ جب صاحبان ایمان شخصیتوں کے سامنے موت کا نام آتا ہے تو وہ یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ اگرہم حق پر ہیں تو ہمیں کیا پرواہ ہے چاہے موت ہم پر آپڑے یا ہم موت پر جا پڑیں اور اس کی بہترین مثال حسین ؑکا کڑیل جوان علی اکبرؑ ہے۔
آخر میں کہا کہ اگر ہم ان عظیم شخصیتوں کے پیروکار ہیں تو ہمیں بھی موت کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے رہنا چاہئے تاکہ راہ حق پر گامزن ہونے کا ثبوت فراہم ہوسکے۔