حوزہ نیوز ایجنسی کے بین الاقوامی نمائندہ خصوصی کے مطابق ، سید حسن نصراللہ نے اپنی ایک تقریر میں حزب اللہ کے خلاف جرمنی کی پابندیوں پر ردعمل کا اظہار کیا۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ وائٹ ہاؤس اور صیہونی حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے جرمنی نے حزب اللہ پر پابندی عائد کی ہے ۔ جبکہ جرمنی نے دہشت گردی کی کارروائیوں اور غیر شفاف سرگرمیوں کی کوئی دلیل نہیں بتائی، جرمنی میں حزب اللہ کی سرگرمی کہاں ہے؟
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ کئی سالوں سے ہمارا بیرون ملک مقیم لوگوں کے ساتھ کوئی تنظیمی رابطہ نہیں ہے. جرمنی میں مقیم لبنانیوں کے خلاف یہ الزامات بے بنیاد ہیں ، اور ہم دوبارہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
حسن نصراللہ جرمنی میں مقیم لبنانی قانون کی پابندی کرتے ہیں ، اور یہ جرمنی میں مقیم لبنانیوں کے خلاف سازش،اور اسرائیل کو مطمئن کرنے کے لئے جارحیت کا عمل ہے۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: یہ حزب اللہ کی نہیں ، بلکہ لبنانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرمنی میں مقیم لبنانیوں کا دفاع اور مدد کرے۔
حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل نے کہا: کہ اس سے مستقبل میں ہماری مرضی اور فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہم قابض صہیونی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے کھڑے ہوں گے۔ وہ ہمیں مارنا چاہتے ہیں اور وہ برسوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے ہمارا ایمان بڑھتا گیا ۔
لبنان میں کورونا کی وباء کا ذکر کرتے ہوئے ، انہوں نے کہاکہ تمام لبنانیوں، حکومتی حکام ، تنظیموں ،اور خود عوام کی باہمی ہمدردی کے ساتھ ، صورتحال بہتر ہے اور ہم کورونا پر قابو پانے میں کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔
اگر لبنانی حکومت میں کورونا سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے تو ہم اس کی مدد کریں گے
حسن نصراللہ نےکرونا بحران کا ذکر کرتے ہوئے ، لبنانی حکومت کو بتایا کہ کرونا کے میدان میں ، لوگ آئے اور رضاکارانہ طور پر مدد کی ، اگر آپ کے پاس افراد کی کمی ہے تو ہم آپ کی مدد کریں گے۔ آپ کو کتنے افراد کی ضرورت ہے؟ایک ہزار ؟ دس ہزار یا بیس ہزار ؟؟
لبنان کے عالمی بینک سے قرضہ لینے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مدد سے اتفاق کرتا ہوں، لیکن انکے مقابلے میں گھٹنے ٹیکنے کی مخالفت کرتا ہوں۔
سید حسن نصراللہ نے لبنانی بینکاری نظام کی طرف سے حزب اللہ کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ پچھلے کچھ ہفتوں میں ، بے بنیاد الزامات کے ذریعے حزب اللہ پر الزام لگایا جارہا ہے.
لہذا ، میں اس کا جواب دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ مضامین اور بیانات میں لکھا گیا تھا کہ حزب اللہ بینکنگ کے الزام کو ختم کرنا چاہتی ہے یا بینکاری نظام سے انتقام لینا چاہتی ہے ، یہ سب مفتی صاحب کے الفاظ ہیں جو اپنی ذمہ داری سے فرار ہونا چاہتے ہیں۔
جب سے حزب اللہ کی بنیاد رکھی گئی اس وقت سے اب تک ہم نے بالکل بھی بینکنگ نظام میں مداخلت نہیں کی ہے
انہوں نے گفتگو کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں واضح اور شفافیت اور ایمانداری کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہم تباہی یا تسلط نہیں چاہتے ، اور نہ ہی بینکنگ نظام سے کچھ چاہتے ہیں۔ جب 1982 میں حزب اللہ کی بنیاد رکھی گئی اس وقت سے اب تک ہم نے بینکنگ نظام میں بالکل بھی مداخلت نہیں کی ہے ۔
نصر اللہ نے کہا کہ جب امریکی پابندیاں آئیں تو ،لبنانی بینکوں کے عہدیداروں نے کہا کہ حزب اللہ کے ماتحت افراد کے اکاؤنٹ بند کردیئے جائیں ، تو ہم نے معاملے کو درک کرتے ہوئے ہاں میں ہاں ملائی ۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ لبنانی بینکاری حکام دشمن سے زیادہ دشمنی کرنے لگے ہیں ، ہمارے مقابلے میں امریکیوں سے زیادہ امریکی مت بنو۔ انہوں نے کہا تھا کہ 10 اکاؤنٹس کو بند کردیں ، لیکن آپ نے 200 اکاؤنٹس بند کردیئے ، یہ جارحیت اور ظلم ہے۔ لبنانی بینکاری کے عہدے دار نہ تو خدا کو مانتے ہیں اور نہ ہی آخرت کو مانتے ہیں ، یہ صرف اور صرف مادیات کو دیکھتے ہیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ ایک مسئلہ ہمیں لبنانی بینکاری نظام کے ساتھ تھا وہ یہ ہے کہ بینکوں میں لوگوں کی سرمایہ کاری کے ساتھ کی جانے والی ناانصافی ،لوگ اپنی رقوم بنک سے نکالنا چاہتے ہیں لیکن بنک نکالنے کی اجازت نہیں دیتا ، اور بینکاری نظام نے لوگوں کو ذلیل و خوار کر رکھا ہے ۔تقریبا ایک سے دو ملین افراد بینک سے اپنی رقوم نکالنا چاہتے ہیں ، لیکن ایسا نہیں ہو رہا لہذا ہم عوام کا دفاع کر رہے ہیں۔ بینکنگ سسٹم نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ، لیکن ملک کے لئے کچھ بھی نہیں کیا.
حزب اللہ میں غیر ملکی زرمبادلے کی کوئی سرگرمی نہیں ہے
انہوں نے کرنسی کے معاملات پر حزب اللہ کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں پہلی اور آخری بار یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حزب اللہ غیر ملکی زرمبادلے کی سرگرمی میں ملوث نہیں ہے۔ ہمارے پاس بڑے ادارے موجود ہیں ، لیکن وہ بلیک مارکیٹ میں کرنسی فروخت کرنے کے لئے نہیں ہیں ۔ہم خود صارفین ہیں۔ حزب اللہ کے کچھ حامی کرنسی خریدنا اور بیچنا چاہتے ہونگے ، لیکن انکا لینا دینا حزب اللہ سے نہیں ہے ،یہ انہی پر منحصر ہے۔ اگر ایک انجینئر یا ڈاکٹر ، اپنی جائیداد کا معاملہ کرتا ہے تو اس کا حزب اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کہ میں پورے کرنسی ایکسچینج سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے طے شدہ حدود اور قوانین پر عمل پیرا ہوں ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے ان مضحکہ خیز الزامات کی وجہ سے اپنے اور آپ کے وقت کو لے لیا۔
میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نہ ہی سوریہ نہ ہی اسلامی جمہوریہ ایران ڈالر ٹرانسفر کر رہے ہیں۔
انہوں نے لبنان کی موجودہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ملکی ترقی و خوشحالی اور امور کی درست انجام دہی سو دنوں میں ممکن نہیں ہے۔
وقت تعاون کرنے کا ہے ، اگر آپ تعاون کرنا نہیں چاہتے تو ایک طرف ہٹیں ، ہمیں تعاون کرنے کا موقع دیں ، اور غیر جانبدار رہیں۔
ہمارے اور امل تنظیم یا تنظیم نبیہ بری میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا.
حسن نصراللہ نے حزب اللہ اور امل تحریک کے مابین اختلافات کے بارے میں افواہوں کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا: ہمارے اور امل یا نبیہ بری میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہمارے اتحادی ہمارے لئے ریڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کی یہی کوشش رہتی ہے کہ حزب اللہ اور امل کے مابین پھوٹ کیسے پیدا ہوگی .آپ اپنے کو نہیں تھکائیں ، آپ مایوس ہوجائیں گے۔
ہمارے اور امل کے درمیان کوئی اختلاف وجود میں نہیں آسکتا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ یقینا ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے درمیان نظریاتی اختلاف نہیں ہے. عوام اور پارٹی کے کارکنوں کو نظریاتی اختلافات کی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ہم ہمیشہ تنظیم امل کے ساتھ معاہدے پر زور دیتے ہیں۔
آخر میں حسن نصراللہ نے کہا کہ ملک کو امن و امان اور تعاون درپیش ہے اور حکومت کو موقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کتنی مدد کرسکتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اندرونی معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے باہمی اختلافات کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے.