۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

حوزہ/ جامع علی مسجد حوزہ علمیہ جامعتہ المنتظر لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران پر مدتوں سے عالمی سطح پر اقتصادی پابندیاں ہیں لیکن امریکہ خود مانتا ہے کہ پورے خطے میں ایران ایک بڑی طاقت ہے۔ پابندیوں اور مہنگائی کے باوجود ایران کی طاقت بڑھ رہی ہے، چونکہ وہ سوائے خدا کے کسی کی پرواہ نہیں کرتے، کیونکہ انہیں اللہ پر مکمل اعتماد ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے قرآن مجید میں حکم رب کائنات ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ہمارے اعضا بھی ہماری موافقت یا مخالفت میں گواہی دے رہے ہوں گے۔ جب مخالفت کی گواہی سنیں گے تو انسان کہیں گے تم تو میرے اعضاءہو تووہ جواب دیں گے۔ نہیں، نہیں! اللہ نے ہمیں پیدا کیا تھا تو اس وقت تمہاری زبان چلتی تھی اور آج تمہاری زبان پر مہر لگا دی گئی ہے۔ اب اس وقت ہمارا جسم ، ٹانگیں ، جلد ،دل، آنکھیں اور ہمارے کان بھی بول رہے ہوں گے۔ ہمارا ہے ہی کیا ؟!کوئی چیز ایسی نہیں جو ہماری اپنی ہو؟ کوئی چیز ہماری ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ ایک اعتباری ملکیت ہے۔ آج ہمارے پاس ہے تو ممکن ہے کل کسی اور کے پاس ہو اور اس کے برعکس کل ایک چیز کسی اور کی ملکیت تھی اور آج آپ کی ہو جائے۔

جامع علی مسجد حوزہ علمیہ جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا رب کائنات رحمان بھی اور رحیم بھی۔ ہماری تمام زندگی کا دارومدار اللہ کی رحمت پر ہے۔ اگر ہوا بند ہو جائے تو ہم میں سے ایک بھی نہ بچے گا۔ اگر اللہ کی رحمت ہم سے سیکنڈ کے سوویں حصے کے لئے بھی چلی جائے تو ہم سب نیست و نابود ہو جائیں گے۔یہ سب کچھ تو اللہ کی رحمت کی وجہ سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والی قومیں کسی سے ڈرتی ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے آگے جھکتی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایران پر مدتوں سے عالمی سطح پر اقتصادی پابندیاں ہیں لیکن امریکہ خود مانتا ہے کہ پورے خطے میں ایران ایک بڑی طاقت ہے۔ پابندیوں اور مہنگائی کے باوجود ایران کی طاقت بڑھ رہی ہے ، چونکہ وہ سوائے خدا کے کسی کی پرواہ نہیں کرتے، کیونکہ انہیں اللہ پر مکمل اعتماد ہے۔

حافظ ریاض نجفی نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے ہاں اللہ کا وقار نہیں ہے ، ہمارے دلوں میں اللہ کی عظمت نہیں ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہماری تربیت اس طرح ہوئی ہے کہ ہر کام جلدی جلدی کریں۔ سوچتے کم ہیں لیکن کام جلدی کرتے ہیں۔ مثلا اگر قرآن مجید کی تلاوت کرنی ہوتو جلدی جلدی کریں گے ۔ جب بچے کو قرآن مجید شروع کرایا جاتا ہے تو والدین پوچھتے ہیں قاری صاحب ! اتنے دن ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک ایک پارہ مکمل نہیں ہوا؟!کوشش یہ ہوتی ہے کہ جلدی جلدی قرآن ختم ہو جائے لیکن یہ کوشش نہیں ہوتی کہ قرآن مجید کے لفظوں کا ترجمہ بھی آتا ہے یا نہیں؟!جو قرآن مجید کی ایک سطر پڑھ رہا ہے ، کیا اسے پتہ ہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے؟نماز پڑھتا ہے تو کیا اسے پتہ ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں؟

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .