۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ عارف حسین واحدی

حوزہ / شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر جناب حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ عارف حسین واحدی نے حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے حوزہ نیوز ایجنسی کو خصوصی انٹرویو دیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر جناب حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ عارف حسین واحدی نے حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے حوزہ نیوز ایجنسی کو خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ جس کا حصہ دوم قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:

حوزہ نیوز: آپ کی نظر میں ایران و عراق زیارت کے لئے آنے والے زائرین کی مشکلات کو کیسے کم اور زیارت عتبات عالیات کو کیسے آسان بنایا جا سکتا ہے؟

علامہ عارف حسین واحدی: ایک عرصہ ہوا ہے زائرین کی مشکلات جوں جوں بڑھ رہی ہیں۔ خصوصا جب سے عراق میں صدام کا دور ختم ہوا اس کے بعد کافی تعداد میں پاکستان سے یا پوری دنیا سے زائرین جانا شروع ہوئے۔ لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ اربعین حسینی ع پر پہنچیں اور ایک عرصہ سے تشنگی پائی جاتی تھی۔ اس کے بعد زائرین کیلئے مشکلات بڑھیں۔ وہاں ایران عراق میں بھی مسائل ہوتے ہیں لیکن ہمیں جو چینلجز درپیش ہیں ان کے حوالے سے وہ پاکستان میں اور خصوصا جب سے سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوئے اور کوئٹہ سے تفتان جاتے ہوئے بسوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو زائرین کا بہت زیادہ نقصان ہوا ۔ اس کے بعد ہم نے یہ مسئلہ یہاں حکومتوں کے ساتھ اٹھایا کہ ہر دور کی حکومت کے سامنے زائرین کو سیکورٹی فراہم کی جائے۔ اس میں ہمارا نکتۂ نظر ہمیشہ یہ رہا کہ اصل میں جو سیکورٹی ہمیں زائرین کیلئے چاہئے وہ کوئٹہ سے تفتان اور تفتان سے کوئٹہ کے لئے ہے کیونکہ نقصان بھی اس راستے پر ہوا ہے اور خطرہ بھی اسی پرتھا۔

لیکن کچھ صورتحال ایسی بنی کہ حکومتی پالیسیاں یہ نظر آئیں کہ زائرین کو بھی اسی طرح پیکج دئیے جائیں جس طرح حج اور عمرہ کے زائرین کو دئیے جاتے ہیں اور اس میں ہمیں یہ معلوم ہے کہ ان کے مدنظر تھا کہ ظاہر ہے ٹیکس لگیں گے، وہاں مہنگے ہوٹلوں میں جائیں گے اور ٹرانسپورٹ کا انتظام وزارت کرے گی اور یہ سارا سلسلہ اس میںیہ لوگ زرمبادلہ کرسکتے ہیں لہذا یہ مسائل تھے۔ ہم نے اس پرسخت مزاحمت کی، بار بار ملاقاتیں کیں۔ میں نے خود ملاقاتیں کیں، کئی میٹنگز میں شریک ہوئے، وزیر مذہبی امور کے ساتھ ملاقاتیں، اس کے علاوہ جو مختلف مربوطہ وزارتیں اور محکمہ جات ہیں ان کے ساتھ میٹنگز کیں، ملاقاتیں کی کہ ایسا ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔

ہمارا موقف یہ تھا کہ زیارات عتباتِ عالیات عراق و ایران کا نظام حج کے سسٹم کے ساتھ فرق کرتا ہے۔ یہ حج کا مسئلہ ہوتا ہے جس میں حج صرف اس پرواجب ہو گا جو صاحب استطاعت ہوتا ہے اور وہاں چونکہ حج کا ایک سسٹم ہے جسے ہر سال حکومت اپنے انداز میں سہولیات فراہم کرتی ہے، سیکورٹی دیتی ہے، ٹرانسپورٹ بھی مہیا ہوتی ہے لیکن زائرین کے حوالے سے یہ مسئلہ نہیں ہے زائرین تو جس وقت چاہیں جاتے ہیں اور پھر اکثر زیارات کے لئے غریب زائرین جاتے ہیں۔ جو کوئی بیچارہ زمین کا ٹکڑہ بیچ کر،کوئی گائے بھینس بیچ کر یا دوسرا کوئی مال مویشی بیچ کر، کوئی فصل اچھی ہوئی تو وہ بیچ کر وغرہ۔ لہذا ان مومنین کی عرصے سے خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی طریقہ سے زیارت کیلئے جائیں لہذا ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے کہ ان کے لئے مشکلات بڑھیں۔

مومنین اپنی عبادت کے لئے ایک معمولی پیسہ کے ساتھ زیارت کرکے واپس آجاتے ہیں۔ لیکن اس طرح اگر لازمی کیا جائے کہ ہوٹلنگ ہوگی، ٹرانسپورٹ ہوگی تو ان مسائل کی وجہ سے زائرین کیلئے رکاوٹ بنے گی اور زائرین کی تعداد بھی کم ہوجائے گی اور اس طرح زبردستی روکنا ٹھیک نہیں ہے۔ پھر بھی چونکہ حکومت اس درپے تھی کہ زیارت کے لئے ایک پالیسی بنے اور ان کو ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ بعض زائرین وہاں جاتے ہیں اور پھر واپس نہیں آتے لہذا ان کیلئے ایک سسٹم بنانا ہے تو یہاں ایک زائرین پالیسی بنی ہے۔ اس میں کئی میٹنگز ہوئیں، اس میں ہم بھی شریک ہوئے ہم اپنے تحفظات بتاتے رہے، مسلسل اس پرہمارے تحفظات رہے ہیں۔ اب جو آخری شکل آئی ہے اس میں بھی ہماری طرف سے ایک لیٹر وزارت مذہبی امور اور وزیر مذہبی امور کو ارسال کیا گیا ہے اور اس میں ہم نے واضح کیا کہ ہم اس کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ یہ زیارات کو روکنا اور زائرین کی تعداد کو کم کرنے کیلئے ایک ہتھکنڈہ ہے جو ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ چند ملاقاتیں وزیر مذہبی امور سے میری ہوئیں تو وہ اپنی مشکلات بتاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں "نہیں جی، انشاء اللہ ٹیکس زیادہ نہیں لگائیں گے"۔

لیکن ہمارے ذہن میں ہے کہ یہ نہیں لگائیں گے تو اگلی حکومت لگائے گی جب ایک پالیسی بن جاتی ہے تو پھر اکثر ٹیکس بڑھتے رہتے ہیں۔ ہم چاہتے کہ وہی سسٹم جو پہلے تھا وہ چلتا رہے ہمیں فقط یہ سہولت دی جائے کہ کوئٹہ تفتان کے روٹ پرسیکورٹی فراہم کی جائے باقی ہم انتظام کرلیں گے۔

اس وجہ سے وہ پالیسی رک گئی ہماری مخالفت کی وجہ سے لیکن ابھی تک ان کے اندر یہ بات ہے کہ اس کو ہم نے اجراء کرنا ہے۔ ہم پھر یہی کہیں گے کہ جو بھی پالیسی ہے اس میں دو چیزیں مدنظر ہوں: ایک یہ کہ زائرین کی تعداد کم کرنے پرہم راضی نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ زائرین کیلئے مالی مشکلات بڑھانا یا ان پرمالی بوجھ ڈالنا یہ قابل قبول نہیں ہے۔ بہت سے غریب جو زیارات کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس مالی بوجھ کی وجہ سے زیارات سے محروم رہ جاتے ہیں تو یہ ہمارے لئے اصلا قابل برداشت نہیں ہے۔

ایک اور مسئلہ جو یہاں پیش آرہا ہے وہ یہ ہے کہ زائرین کو کراچی سے سمندر کے ذریعے زیارات پر بھیجا جائے ۔ ہم نے وہ بھی کہا کہ وہ بھی قابل قبول نہیں ہے چونکہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں دہشت گردی نہیں ہوگی تو وہاں بھی دہشت گردی ہوسکتی ہے لہذا وہاں بھی آپ کو سیکورٹی فراہم کرنی ہوگی۔ لیکن زائرین کو شاید وہ مہنگا بھی پڑے۔ البتہ اس پرکام ہورہا ہے الحمدللہ۔

ہم نے کافی کوشش کی ہے اور علماء کے ساتھ زائرین کے جو گروپ جاتے ہیں اور اسی طرح کاروان سالاران کے ساتھ بھی ہم رابطے میں ہیں۔ خدا کرے انشاء اللہ زائرین کی مشکلات کے حوالے سے بہتری آئے ۔

ایران اور عراق میں جو زائرین کو جو مشکل ہوتی ہے اس سلسلہ میں ہماری حرم مطہر امام رضا علیہ السلام کے متولی کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی اور کچھ امور انہوں نے بتائے تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس حوالے سے کافی پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ میرجاوہ میں بھی زائرین کیلئے جگہ بنائی گئی ہے، مشہد میں بھی بن گئی ہے۔ باقی جگہوں میں بھی اس طرح ہونا چاہئیے تاکہ زائرین کو سہولیات فراہم کی جائیں۔

خصوصا وہاں مشکل اس وقت ہوتی ہے جب کوئی زائر بیمار ہوجاتا ہے اور وہاں صحت اور ہسپتالوں کا جو سسٹم ہے ، اس حوالے سے یا خدانخواستہ کسی زائر کا انتقال ہو جاتا ہے تو وہاں کافی پریشانی ہوتی ہے۔بہرحال وہاں پر مختلف شہروں میں جو اپنی تنظیم کے عزیزان ہیں وہ اس سلسلہ میں کافی کوششیں کرتے ہیں، کاوشیں کرتے ہیں لیکن پھر بھی مشکلات ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں ایران عراق اور شام کی حکومتوں کو بھی اس پرتوجہ دینی چاہئے۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر کا حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے خصوصی انٹرویو

ایک اور مسئلہ جو پیش آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں یہاں حکومت نے کہا ہے کہ ایران نے تو یہ نہیں کیا لیکن عراق اور سوریہ کی حکومتیں خود چاہتی ہیں کہ سالانہ زائرین کی ایک معین تعداد آئے۔ اس سے زیادہ وہ قبول نہیں کریں گے۔ اس پربھی ہم کام کررہے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے میٹنگ ہوئی اور اس میں طے ہوا کہ زائرین کی مشکلات کے حل کیلئے ایک کمیٹی بنائیں ۔ اس کمیٹی میں میں ہوں باقی دوست بھی ہیں۔ یہ فیصلہ کیا ہے کہ عراق اور شام کے سفراء کے ساتھ ملاقاتیں کی جائیں گی اور ان سے بات کی جائے گی کہ زائرین کی تعداد کو کم کرنے پرہم راضی نہیں ہیں۔ زائرین جتنا جانا چاہیں پورے سال میں کسی بھی وقت جاسکتے ہیں۔ ایران نے ابھی تک الحمدللہ کوئی محدودیت نہیں رکھی ہے۔ ایران کے سفیر سے ہماری ملاقات بھی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس حوالے سے ہماری کوئی پالیسی نہیں ہے کہ زائرین کی تعداد کم کریں۔

بہرحال میں یہاں ایک نکتہ زائرین کے حوالے سے وضاحت کروں گا کہ جب ہم کسی اور ملک میں جاتے ہیں تو بعض شکایات آتی ہیں یا یوں کہوں کہ سفر کے خود مشکلات جو کاروان سالار زائرین کیلئے پیدا کرتے ہیں اس حوالے سے کوئی شکایات نہیں آنی چاہئیں چونکہ اس سے ہمارے اپنے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ اس پران کو توجہ دینی چاہئے۔ باقی وہ جو کاروان سالار ہوتا ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ جتنے لوگوں کو ساتھ لے کر جائے انہیں وہ واپس بھی لائے تاکہ یہاں جو بعض غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں وہ نہ ہوں۔ یہ جو مشکلات میں نے پاکستان میں بتائیں یہ زیادہ تر ان زائرین کو پیش آتی ہیں جو غریب زائرین ہیں اور جو بائی روڈ جاتے ہیں اور جو زائرین بائی ائیر جارہے ہیں ان کیلئے کوئی خاص مشکل نہیں ہے۔

ایک مسئلہ یہاں پیش آتا ہے کہ جس وقت اربعین حسینی کیلئے زائرین جاتے ہیں۔اس وقت چونکہ زائرین کا رش کافی زیادہ ہوتا ہے تو بسا اوقات بعض سفارت خانہ ویزہ میں دیر کرتے ہیں تو پھر وہی زائرین جو جو زمینی راستے سے آرہے ہوتے ہیں ان کیلئے پھر وہی مشکل پیش آتی ہے۔ پھر اربعین پربائی روڈ ایران سے گزر کر کربلا پہنچنا ان کیلئے مشکل ہوجاتا ہے۔ ہم نے بار بار متوجہ کیا، میں خود عراقی سفیر سے ملا، انہیں بتایا کہ اپنی حکومتوں کو بروقت ویزہ جاری کرنے کا آپ نے متنبہ کرنا ہے کہ یہاں یہ مشکل ہے اور بروقت ویزہ ملیں گے تو لوگ وہاں پہنچیں گے۔

خداکرے ان شاء اللہ زائرین کی مشکلات آسان ہوں اور اللہ تعالی ہمیں توفیق دے یہ جو اہل بیت ع اطہار کے عاشق ہیں ان کیلئے ہم سہولیات فراہم کر سکیں اور ان کی زیارات آسان ہوں اور انہیں اس عبادت میں کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے۔

حوزہ نیوز: پاکستان کے تعلیمی نظام میں کون سی تبدیلیاں ناگزیر ہیں جن کی بنا پر ہم نوجوان نسل کو حقیقی اسلام سے روشناس کرا سکتے ہیں؟

علامہ عارف حسین واحدی: پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نظریاتی بنیادوں پر آزاد ہوا اور وجود میں آیا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس میں مختلف طبقات، مختلف مذاہب، مختلف اقوام اور مختلف مسالک کے لوگ آباد ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس پاکستان کو انہی نظریاتی بنیادوں پر آگے لے کر چلیں جن کی بنیاد پر قائداعظم رح نے اور اس وقت کے ہمارے پیشواؤں نے یہ ملک بنایا تھا اور ہمیں انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا تھا تو اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام مسالک کے درمیان جو اسلام کے اصول و مشترکات ہیں، ان کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی کے بعد جو ہمارے ملک کی نظریاتی اساس تھی، اس کے آگے کام نہیں ہوا۔ اگرچہ میں یہ کہتا ہوں اس وقت کا جو آئین ہے وہ اسی بنیادپر بنایا گیا اور اس میں بالکل واضح ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قرآن و سنت کے خلاف قانون نہیں بنایا جائے گا۔

یہ درست ہے لیکن آگے جو نصاب کا مسئلہ ہے، نصاب میں ہماری اغیار کی جو سوچ تھی، فکر تھی، ان کا جو نصاب تھے مختلف ادوار میں ان سے استفادہ کیا جاتا رہا اور بعض ایسی نظریاتی چیزیں جو سیکولر ممالک کے نصاب میں رکھی جاتی ہیں یہاں بھی ایسی صورتحال رہی اور جو فرقہ واریت اور دہشت گردی رہی تو اس بنا پر بعض ایسے نام نہاد افراد پاکستان میں آئے اور موجود ہیں، جو کہتے ہیں کہ مذہبی چیزیں اور دینی چیزیں نصاب میں ہونی ہی نہیں چاہئیں اور ان کی تو سوچ یہ ہے کہ اس ملک کو سیکولرزم کی طرف لے جایا جائے تاکہ جو اگلی نسل ہے وہ اسلام سے بے بہرہ ہو۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے یعنی تمام مسالک کی ذمہ داری ہے، تمام طبقات کی ذمہ داری ہے، جو پاکستان کے مخلص اسکالرز ہیں اور ذمہ داران ہیں جن کو احساس ہے کہ اس پاکستان کے نظریات و بنیاد اسلام ہے، ان کو سرجوڑ کے بیٹھنا چاہئے اور اس ملک کا ایک نظریاتی نصاب بنانا چاہئے جو ہماری ملک و قوم کیلئے مفید ہو، آئندہ کی نسل اس نصاب سے پرائمری سکول سے ہائی سے کالج سے آگے یونیورسٹی سے تیار ہوکر جب نکلے تو وہ ایک نظریاتی مسلمان بھی ہو اور نظریاتی محبِ وطن بھی ہو۔ اس میں جہاں تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کا تعلق ہے ، یا ان کے بعد کے ادوار کا تو اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ مشترکات پر مبنی یہ نصاب ہو۔

ظاہر ہے ہم سب مسلمانوں کو اگر دیکھیں تو چونکہ پاکستان میں 97 فیصد سے بالاتر اکثریت مطلق مسلمانوں کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو مسلمانوں کے مشترکات ہیں اس کو اس میں شامل کرنا ہو گا اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالی کے وجود مقدس، اللہ تعالی کی توحید، انبیاء کی رسالت، انبیاء کی عصمت، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور ختم نبوت کا عقیدہ، ان کا رحمت للعالمین ہونا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جو جنگیں ہوئی ہیں یا اسلام کیلئے کام ہوا ہے، وہ جو ان کی 23 سالہ محنت ہے اس کو بھرپور انداز میں بیان ہونا چاہئے۔

اس کے بعد قرآن مجید کو بیان ہونا چاہئے تاکہ ایک مسلم جوان کی بنیاد اور ان کے نظریہ کی بنیاد اور ان کے عقیدے کی بنیاد ٹھوس اور قرآن کی بنیاد پر ہو۔ احادیث کا وہ حصہ نصاب میں لایا جائے جو تمام مسالک کے درمیان مشترک ہے ۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی زندگیوں کا تعارف، صحابہ کرام کا تعارف، لیکن وہ جو مشترکات ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جو جنگیں ہوئی ہیں، ان کو لایا جائے، وہ واقعات جو سنی شیعہ کے درمیان مشترک ہیں اور جو مختلف فیہ اور اختلافی مسائل ہیں ان سے گریز کیا جائے۔

اسی طرح قیامت کا عقیدہ ہے، اور باقی جو مشترک چیزیں ہیں ان کو نصاب میں بھرپور انداز میں شامل کیا جائے۔ اس دفعہ جو یکساں قومی نصاب بن کر آیا ہے اس نصاب میں ہم نے دیکھا ہے کہ اس میں کافی کمزوری موجود ہے۔ تعلیمی امور میں کچھ عناصر موجود ہیں جن کی مخصوص ذہنیت ہے اور یہ جو نصاب مرتب کیا گیا ہے وہ مسلکی ذہن رکھنے والے لوگوں نے بنایا ہے۔ اگر یہاں کسی ایک مسلک کو ترجیح دے کر کہ فلاں اکثریت میں ہیں، فلاں زیادہ ہیں وہ نصاب بنایا جائے گا تو میں سمجھتا ہے کہ ہم جس مسئلہ میں الجھ جائیں گےاور اس کے مقابلے میں جو اتحاد و وحدت کی کوششیں کی جا رہی ہیں وہ کافی متاثر ہوں گی۔

لہذا نصاب تعلیم مسلکی چیزوں کو شامل نہ کیا جائے۔ اب جو نصاب آرہا ہے وہ بدقسمتی سے مسلک کی بنیاد پر آیا ہے اور یہ پاکستان کی بنیادوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے، اس میں قطعا مسلکی نصاب نہیں چلے گا۔ تاریخ ہو، عقائد ہوں، احکام ہوں، اخلاقیات ہوں، مشاہیر ہوں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہو، اہل بیت علیہم السلام کی اور صحابہ کرام کی زندگی ہو، قرآں مجید کے بارے میں جو متفقہ چیز ہے اس کو لایا جائے اور مشاہیر میں ان کو شامل کیا جائے جو مشترک ہیں، جو سب کے درمیان ہیرو ہیں وہ کم نہیں ہیں، ان کو اگر شامل کریں تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ اور قوم کی جو نوجوان نسل ہے، آئندہ آنے والی نسل اس کی مضبوط بنیادوں پر تعلیم و تربیت ہوگی لیکن ابھی تک دیکھنے میں آرہا ہے کہ اس قومی یکساں نصاب میں کافی کمزوریاں ہیں۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر کا حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے خصوصی انٹرویو

ہمارا رابطے مسلسل حکومت کے ساتھ، وزارت تعلیم کے ساتھ، وزارت مذہبی امور کے ساتھ ہے لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس پر ابھی جو وعدے انہوں نے کئے ہیں امید ہے وہ اس کو نبھائیں گے اور اس نصاب کو تبدیل کریں گے اور قطعا ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے مسلک کو شامل کیا جائے،نہیں؛ ہم چاہتے ہیں کہ اس میں اسلام کو، امت مسلمہ کے مفادات کو وسیع تر تناظر میں اور قرآن اور احادیث کی روشنی میں جو چیزیں مسلمات میں سے ہیں اور جو مشترکات ہیں، ان کو شامل کیا جائے۔

اور اسی طرح جو مسلمہ مکاتب فکر ہیں ان کے جو مشترکہ عقائد ہیں اور احکام ہیں اور باقی سب چیزیں ہیں ان کو شامل کیا جائے تو یہ کامیابی ہوگی۔ اس سے قوم بنے گی، اس سے ملت بنے گی لیکن اگر نصاب کی تشکیل مسلکی بنیاد پر ہوگی تو اس طرح پھر ملت واحدہ نہیں بنتی۔ قومیں متحد نہیں بنتیں، بنیادیں مضبوط نہیں ہوتیں بلکہ اس سے فرقہ واریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

پہلے فرقہ وارانہ جنگ مساجد اور دوسرے مراکز میں اور سڑکوں پر ہوتی ہے لیکن اگر ملکی تعلیمی نظام میں یہ نصاب شامل کیا گیا اور اسے مسلکی بنایا گیا تو میں سمجھتا ہوں سکول ، کالجز یونیورسٹیز میں بھی وہی فرقہ واریت کی جنگ ہوگی اور بلکہ عروج پر ہوگی اور اس سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔

شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر کا حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے خصوصی انٹرویو

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .