اتوار 12 جنوری 2025 - 18:36
اسرائیل ناجائز وجود ہے جس کے خلاف خروج واجب ہے / ایران نے شام کو نہیں چھوڑا بلکہ بشار نے ایران کو چھوڑ کر اپنا اور اپنے ملک کا بیڑہ غرق کیا

حوزہ / ہندوستان کے لبنان میں مقیم اور سیریا سے فارغ التحصیل معروف عالم دین اور اہل البیت (ع) ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر بنگلور، انڈیا کے چیئرمین حجت الاسلام والمسلمین علی باقر عابدی نے ایران کے دورہ کے موقع پر اسلامی دنیا بالخصوص شام کے حالات کے حوالے سے حوزہ نیوز ایجنسی کو خصوصی انٹرویو دیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے لبنان میں مقیم اور سیریا سے فارغ التحصیل معروف عالم دین اور اہل البیت (ع) ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر بنگلور، انڈیا کے چیئرمین حجت الاسلام والمسلمین علی باقر عابدی نے ایران کے دورہ کے موقع پر اسلامی دنیا بالخصوص شام کے حالات کے حوالے سے حوزہ نیوز ایجنسی کو خصوصی انٹرویو دیا ہے۔

اسرائیل ناجائز وجود ہے جس کے خلاف خروج واجب ہے / ایران نے شام کو نہیں چھوڑا بلکہ بشار نے ایران کو چھوڑ کر اپنا اور اپنے ملک کا بیڑہ غرق کیا

حجت الاسلام والمسلمین علی باقر عابدی کی حوزہ نیوز کے نمائندہ سے گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے:

حوزہ: آپ کو حوزہ نیوز میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ براہِ کرم سب سے پہلے ہمارے قارئین کو اپنی بائیوگرافی اور ابتدائی تعلیمی و مصروفیات کے بارے میں مختصراً بیان کریں۔

حجت الاسلام والمسلمین علی باقر عابدی:

بسم اللہ الرحمن الرحیم، علی باقر عابدی ابن سید تصور حسین عابدی ولادت علی پور کرناٹکا ، بنگلور جنوبی ہندوستان۔ اپنے وطن میں ہی ہماری ابتدائی تعلیم پرائمری، اردو اسکول میں ہوئی پھر اس کے بعد علی پور میں ہی جو حوزہ علمیہ اس وقت تھا "المرکز المہدی الاسلامی" یعنی المہدی اسلامک سینٹر۔ جس کی بنیاد وکیل آیت اللہ خوئی حجت الاسلام و المسلمین آقای محمد موسوی صاحب نے رکھی تھی وہاں سے ہماری حوزوی تعلیم شروع ہوئی۔ ہمارے اساتذہ میں آیت اللہ مرحوم حجت الاسلام و المسلمین شیخ محمد حسین ناصری صاحب کرگلی، مولانا شیخ غلام اصغر کرگلی صاحب، پھر اس کے بعد مولانا کلب عباس صاحب مرحوم، حجت الاسلام والمسلمین مولانا وزیر حسن صاحب جو اس وقت وہاں پرنسپل تھے اور اس کے علاوہ بھی جتنے بھی ہمیں اساتذہ ملے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ انتہائی شفیق اور بہترین مربّی بھی تھے۔ الحمدللہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور پھر ہم وہاں سے 1988ء کے اینڈ میں یا 1989ء میں ہم سیریا (شام) پہنچے اور وہاں حوزہ امام خمینی (رہ) میں تعلیمی سلسلہ شروع ہوا اور سیریا جانے کے ایک سال کے بعد ہی 1990ء کے ماہ رمضان میں ہمیں عربوں میں تبلیغ کے لیے ہمیں بھیج دیا گیا اور اسی طرح تبلیغِ دین اور خدمتِ دین کا یہ سلسلہ مختلف عرصہ اور مختلف مقامات پر جاری ہے۔

حوزہ: رہبر انقلاب نے اپنے حالیہ بیانات میں فرمایا ہے کہ شام کا غاصب علاقہ شام کے غیور جوانوں کے ذریعہ آزاد ہوگا۔ آپ کے خیال میں یہ کس طرح ممکن ہوگا؟

حجت الاسلام والمسلمین علی باقر عابدی: دیکھیں، سیریا میں میری 30 سال سے زیادہ کی زندگی رہی ہے۔ سیریا میں جتنی بھی اقوام و مذاہب ہیں سب ان لوگوں سے میں تعلقات رہے ہیں الحمدللہ، ملتے رہیں دیکھتے رہیں۔ جس طرح سے آغا معظم نے فرمایا ہے نا، بالکل ایسی ہی بات ہے کہ آقای رہبر نے جو فرمایا کہ وہاں کی خود غیور عوام، وہاں کے نوجوان گروپ اٹھیں گے۔ بالکل ایسے ہی ہوگا۔ کیوں؟ میں آپ کو تھوڑا سا ڈیٹیل میں چل کے بتاؤں۔

"اسرائیل ناجائز وجود ہے جس کے خلاف خروج واجب ہے"۔ یہ بچوں کو سیریا کے اسکولوں میں سلیبس میں پڑھایا جاتا ہے۔

سیریا میں تین نسلیں ایک سلیبس پہ چلی ہیں اور ان کے سلیبس میں کیا ہے کہ "اسرائیل ناجائز وجود ہے جس کے خلاف خروج واجب ہے"۔ یہ بچوں کو سیریا کے اسکولوں میں سلیبس میں پڑھایا جاتا ہے۔ جب تین نسلیں اس پہ چلی ہوں تو اب یہ انسان کے خون میں آ چکا ہے۔ اب وقتی طور پہ یہ دہشت گردوں کے ڈر سے، قتل کے ڈر سے اور اس کے اوپر جو مسلسل مصیبتیں آئیں یعنی 2011 سے لے کے بلکہ اس سے پہلے سے بھی اب تک تو اس کی وجہ سے وہ خاموش ہیں لیکن بہت جلد یہ عوام اٹھ جائے گی۔

اسرائیل ناجائز وجود ہے جس کے خلاف خروج واجب ہے / ایران نے شام کو نہیں چھوڑا بلکہ بشار نے ایران کو چھوڑ کر اپنا اور اپنے ملک کا بیڑہ غرق کیا

حوزہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے شام کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور اسرائیل کے لیے میدان خالی کر دیا ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

حجت الاسلام والمسلمین علی باقر عابدی: یہ سوال ہی اپنی جگہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے ٹھیک نہیں ہے چونکہ ایران نے شام کو نہیں چھوڑا بلکہ بشار نے چھوڑا ہے ایران کو۔ زمین آسمان کا فرق ہے دونوں میں۔ جو کچھ بھی ہوا بشار الاسد پریزیڈنٹ نے عرب لیگ سے ملاقات کے بعد بیڑا غرق کیا اپنا بھی، اپنے ملک کا بھی، ملک کی عوام کا بھی اور اپنے باپ کی کی ہوئی محنت پہ پانی پھیرا۔ یعنی سب کچھ اس کی طرف سے ہوا۔ دیکھیں اسرائیل اور امریکہ نے دیکھ لیا کہ ہم سیریا سے دشمنی کر کے کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ تو اب ہمیں چاہیے کہ اس کو قریب کرو۔ قریب کرنے کا ٹاسک سعودیہ اور امارات کو دیا۔ یو اے ای کو اور سعودیہ سے کہا کہ آپ لوگ اس کو قریب کرو۔ اس کو جو کہنا ہے کہو۔ ہم تمہارا جتنا جتنا خرچ ہے پورا ہم اٹھانے کو تیار ہیں۔ جو کچھ کہنا ہے کہہ دیں۔ کہنے میں کیا جاتا ہے! پھر ہم اپنا کام کرتے ہیں۔ یہ چیز اس کو دکھائی گئی۔ اب یہاں سے اندر سے بشار الاسد کا معاملہ یہ تھا کہ جو سینکشنز اس کے اوپر لگے تھے، اس کی وجہ وہ بہت پریشان تھا کہ اب کوئی بھی ایک راستہ ملے۔ جبکہ اس حوالے سے جمہوری اسلامی ایران نے اربوں ڈالرز خرچ کیے تھے، کافی ساتھ دیا، سیریا کے لیے اپنے لیے نہیں کیا ہے۔ ایران کا کیا کوئی فائدہ تھا وہاں سے؟ کچھ وہاں سے لینا تھا کہ مثلا پٹرول، ڈیزل کچھ لینا تھا کچھ نہیں، صرف ایک مقصد تھا "آزادیٔ فلسطین"۔ بس فلسطین کی آزادی اور انسانیت کے لیے چونکہ یہاں سے راستہ فلسطین جاتا ہے۔ بس اس وجہ سے جمہوری اسلامی ایران نے دیا ہے ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ایران نے نہیں چھوڑا ہے بلکہ بشار نے عرب ممالک کی طرف سے فریب میں آ کر ایران بلکہ اپنے ملک کو تنہا چھوڑا ہے

اب یہاں پہ میں عرض کروں کہ" ایران نے نہیں چھوڑا ہے بلکہ بشار نے عرب ممالک کی طرف سے فریب میں آ کر ایران بلکہ اپنے ملک کو تنہا چھوڑا ہے"چونکہ اس کی وہاں عرب لیگ سے آنے کے بعد جورہبر معظم سے آخری ملاقات ہوئی تھی اس میں بھی رہبر معظم نے عوام کا خیال رکھنے کا کہا، اتنی تاکید کی گئی کہ نہ پوچھیں۔ بلکہ یہ کب سے 2020ء سے تاکید ہو رہی تھی اسلامی جمہوریہ کی طرف سے کہ تم اپنے عوام کا خیال رکھو، عوام میں یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا کرپشن۔۔ اس کو اگر نہیں روکو گے تو تمہارا بیڑا غرق ہو جائے گا، ملک بھی اپنی جگہ پہ نہیں رہے گا۔ بڑی تاکید کی اور اسی وجہ سے ایران نے اپنی بہت ساری کمپنیوں کی سیریا میں برانچز بنائیں۔ ایرانی گاڑیوں کی کمپنی "سائپا"، انہوں نے اس کی باقاعدہ طور پہ شام میں برانچ رکھی، وہیں تیار ہوتی ہیں اور مزید یہ کہ اس گاڑی کا نام رکھا ہے "شام"۔ تاکہ تمہارا ملک ترقی کرے، پبلک کو خوش کرو۔ کوئی بھی ملک بغیر پبلک کی خوش کیے ہوئے نہیں چل سکتا۔

اسرائیل ناجائز وجود ہے جس کے خلاف خروج واجب ہے / ایران نے شام کو نہیں چھوڑا بلکہ بشار نے ایران کو چھوڑ کر اپنا اور اپنے ملک کا بیڑہ غرق کیا

حوزہ: سید حسن نصر اللہ اور سید صفی الدین کی شہادت کے بعد، دشمن کا ماننا ہے کہ حزب اللہ خصوصاً مقاومت شاید کمزور ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟

حجت الاسلام والمسلمین علی باقر عابدی: دیکھیں، حزب اللہ کے سب سے پہلے جنرل سیکرٹری شہید ہوئے سید عباس الموسوی۔ ان کا ایک بہت بہترین جملہ ہے، کہتے ہیں "أقتلونا فإن شعبنا سيعي أكثر فأكثر أما علمتم" یعنی تم جتنا ہمیں قتل کرو اتنا زیادہ ہماری عوام جاگے گی۔ ہمارے قتل ہونے سے ہماری عوام سوتی نہیں ہے، بیداری لاتی ہے اور ہمارا خون جو بہتا ہے وہ رائیگاں نہیں ہوتا ہے۔ ہمارا خون ایسے نہیں جاتا ہے۔ ہم قتل ہونے کے بعد اور زندہ ہو جاتے ہیں۔

مکمل تصاویر دیکھیں:

حجت الاسلام والمسلمین علی باقر عابدی، چیئرمین اہل البیت (ع) ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر، بنگلور، انڈیا کا حوزہ نیوز ایجنسی کے دفتر کا دورہ

ابھی جو دشمن میڈیا کہہ رہا ہے وہ کچھ ہاتھی کے دانتوں والا سلسلہ ہے جو "دکھانے کے اور، کھانے کے اور ہوتے ہیں" اسرائیل کو اندر سے خود پتا ہے کہ آج بھی مقاومتِ اسلامی، حزب اللہ کتنے مضبوط ہیں۔ ابھی کل ہی ان کے سب سے بڑے اور مشہور نیوز پیپر میں لکھا آیا ہے کہ بھئی اس پوری جنگ میں حزب اللہ نے تقریبا 18 سے 22 ہزار میزائل مارے ہوں گے جبکہ ان کے پاس ڈیڑھ لاکھ میزائل تھے۔" تو اسی وجہ سے اسرائیل یہ جنگ اتنے دن لڑنے کے باوجود بھی ایک چھوٹا سا گاؤں تک نہیں لے سکا۔ آپ کو یہ تھوڑا سا یہ بتا دوں کہ تین ہزار نوجوانوں کے مقابلہ میں ایل لاکھ دس ہزار فوج تھی اسرائیل کی۔ تو اب آپ خود اندازہ کر لیجیے گا کہ یہ سب ایمان کی طاقت اور اس کے ساتھ ساتھ قیادت کے ساتھ ان کا مضبوطی کے ساتھ ربط ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ "إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرۡكُمۡ وَيُثَبِّتۡ أَقۡدَامَكُمۡ

حوزہ: شام کی موجودہ صورتحال کو میڈیا سنی اور شیعہ جنگ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

حجت الاسلام والمسلمین علی باقر عابدی: سنی شیعہ کے حوالے سے ہم عرض کریں کہ "طوفان الاقصیٰ" نے جو کام کیا اگر پوری دنیائے شیعیت مل کر اپنی پوری دولت بھی خرچ کر دیتی تو بھی شاید وہ کام نہ ہو سکتا جو طوفان الاقصیٰ نے کیا ہے۔ طوفان الاقصیٰ نے پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کیا اور لوگوں کو بتایا "آپ نے سنا ہوگا کہ 7 اکتوبر کو یہ آپریشن ہوااور اکتوبر کے آخر میں حماس کے القسام بریگیڈ کے ابو عبیدہ نے تقریر کی جسے الجزیرہ نے بھی دکھایا کہ یہ جنگ وہ ہے ہماری کہ اب کئی ساری حکومتوں کے، حکمرانوں کے، بادشاہوں کے، شخصیات کے چہروں سے نقاب الٹیں گے۔ یہ تھا تقریر میں۔ وہی ہوا۔ آج دیکھ لیا آپ نے کہ غزہ کی جنگ کو تقریبا ڈیڑھ سال ہونے کو آ رہا ہے تو اگر کوئی فلسطین و غزہ کے لیے کھڑا ہے تو "محور المقاومۃ" کے علاوہ کون ہے؟ آپ اندازہ کرتے چلے جائیے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائین کہ اسرائیلی ملٹری کا سپوکس مین "افیخائی ادروئی" جو کہ بہت بہترین عربی بولتا ہے۔ عربی میں ہر دن یہی کہتا رہتا تھا کہ ان کو کہ "اے سنی بھائیو! تم لوگوں کو ان رافضیوں سے کیا مطلب! ان شیعہ، ان کافر، مشرکوں سے تمہارا کیا مطلب ہے!؟ کون کہہ رہا ہے؟ یہودی ۔ کہ تم لوگ ہوشیار رہو ان سے۔ اب پھر گنوانا شروع کرتا ہے وہ۔ کہتا ہے کہ "دیکھو غزہ کے ساتھ کون کھڑا ہے؟ حزب اللہ! کون، شیعہ۔ سوریا میں علوی شیعہ۔ عراق میں کون؟ حشد الشعبی، شیعہ۔ یمن میں کون؟ زیدی، شیعہ۔ ان سب کے اوپر، ایران۔ تو اے سنی بھائیو! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ غزہ کی مدد کے لیے صرف یہ لوگ کھڑے ہیں، تم لوگوں سے کوئی مطلب نہیں، تم لوگ نہ کھڑے رہو۔" اب اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودی کب سے کام کر رہے ہیں ان کو الگ کرنے کے لیے۔ لیکن اس جنگ نے، طوفان الاقصیٰ نے سب کو آئینہ دکھا دیا۔ یہاں اسرائیل نے سوریا میں جو کچھ کروا یا وہ ان شاء اللہ بہت زیادہ چلنے والا نہیں ہے۔ بہت جلد دوبارہ اہلِ حق کی حکومت وہاں پر ہوگی اور میں کہوں کہ سب سے پہلے کرسچین کھڑے ہوں گے، پھر اس کے بعد دروز کھڑے ہوں گے، پھر اس کے بعد سنی کھڑے ہوں گے اور پھر اس کے بعد شیعہ کھڑے ہوں گے۔ ذہن میں رہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف شیعہ کھڑے ہوں گے۔ یعنی حق کی آواز چاہے دیر سے اٹھے گی لیکن اٹھے گی اور کامیاب ہو گی۔ ان شاء اللہ

اسرائیل ناجائز وجود ہے جس کے خلاف خروج واجب ہے / ایران نے شام کو نہیں چھوڑا بلکہ بشار نے ایران کو چھوڑ کر اپنا اور اپنے ملک کا بیڑہ غرق کیا

حوزہ: شام کے تازہ حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگ اسے امام زمانہ (عج) کے ظہور کی نشانیوں سے نسبت دے رہے ہیں۔ اس بارے میں آپ کیا فرمائیں گے؟ کیا ان حالات کو سفیانی، خراسانی یا یمنی کے خروج سے تعبیر کرنا درست ہوگا؟

حجت الاسلام والمسلمین علی باقر عابدی: دیکھیں، ہمارے ہاں برصغیر پاک و ہند میں ہم لوگ جن نشانیوں اور علامات کو سمجھتے ہیں یا سوچتے بوجھتے ہیں تو پھر اسی کی علامت کی حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہم لوگوں کو یہ کام کرنا نہیں ہے۔ کہ بس امام آئیں گے تو ان کی ذمہ داری ہے، ہماری کیا ہے۔ ہمیں اپنے بر صغیر سے اس فکر کو ہٹانا ہے۔ یہ جتنی بھی علامتیں ہیں اس میں علامتیں بیان کی گئی ہیں لیکن وقت بیان نہیں ہوا ہے۔ جیسے علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ بصرہ خراب ہوگا۔ تو اب تک تقریبا 40 مرتبہ بصرہ خراب ہو چکا ہے۔ ہاں علامتوں میں جو بیان کی گئی ہے ان میں سے بہت ساری علامتیں نظر آ رہی ہیں مثلا حکومت سوریا کا ختم ہونا، اس کے بعد جو کیا ہے ظالم حکومت کا آنا۔ پھر جو خون کی ندیوں کا بہنا وغیرہ۔ تو یہ بھی عنقریب شروع ہو جائے گا اور اس سے پہلے بھی بہایا ہے اس جولانی نے چونکہ یہ ایسا خبیث انسان ہے کہ جو خود گلے کاٹتا رہا ہے مسلسل۔ عراق میں پتہ نہیں کتنے سینکڑوں لوگوں کے گلے کاٹے ہیں اس خبیث نے۔

ہمیں خود کو آمادہ کرنا ہو گا، امام کی فوج ہوگی، جنگ ہوگی، امام لڑیں گے۔

تو یہ لوگ جو ویسٹرن کنٹریز، مغربی ممالک جب جس کو چاہتے دیکھتے ہیں کہ اپنے کام کا ہے اس کو اپنا لیتے ہیں۔ تو یہ جو علامتیں ہیں تو ہم ان علامتوں کا انکار نہیں کرتے ہیں کہ بھائی یہ نہیں ہیں لیکن ان علامتوں میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ چونکہ امام آ کے ایسے اشارہ تھوڑے ہی کریں گے کہ اشارہ کیا اور مر گئے۔ ہمیں خود کو آمادہ کرنا ہو گا، امام کی فوج ہوگی، جنگ ہوگی، امام لڑیں گے۔ یہ بات نہیں ہے کہ جو ہے کہ امام معجزے سے پوری دنیا پہ عدالت قائم کر دیں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو امام کے جد امجد ان سے افضل ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی جنگ میں نہ جاتے۔ کہتےاللہ، بس اوپر سے عذاب نازل ہو گیا، ختم۔ ہاں جب ضرورت تھی معجزہ ہوا ہے لیکن اس کا مطلب ہر مرتبہ معجزہ سے کام ہو جائے تو پھر انسان کا "ابتلا" کا مطلب کیا ہے "امتحان" کا مطلب کیا ہے؟ یہ تو ہمیں دیکھنا ہے نا کہ ہم کس پانی میں ہیں؟ یہ چیز بہت ضروری ہے۔ یعنی ہم اپنی آمادگی کریں، ایسا نہیں کہ اس بیچ میں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

اسرائیل ناجائز وجود ہے جس کے خلاف خروج واجب ہے / ایران نے شام کو نہیں چھوڑا بلکہ بشار نے ایران کو چھوڑ کر اپنا اور اپنے ملک کا بیڑہ غرق کیا

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha