حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار نے آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر جناب عارف حسین الجانی سے اس تنظیم کی سرگرمیوں اور حالات حاضرہ کے موضوع پر ایک انٹرویو لیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
براہِ کرم! سب سے پہلے آپ اپنے بائیوگرافی اور تعلیمی و تنظیمی سفر کے حوالے سے ہمیں بتائیں
برادر عارف حسین: میں اپنے طور پر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ یہ جو آپ ایشین بلکہ انٹرنیشنل کمیونٹی کو حوزہ نیوز کے ذریعہ اٹیچ کر رہے ہیں اور ہم سب مل کر نہضت حضرت امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے لئے جو کاوشیں کر رہے ہیں، خداوند متعال اسے قبول فرمائے۔
میرا نام عارف حسین ہے۔ میرا تعلق پاکستان کے گلگت بلتستان کے ضلع نگر سے ہے۔ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم نگر سے ہی حاصل کی اور پھر میں گلگت سٹی شفٹ ہوا اور وہاں سے میڑک اور انٹر کی تعلیم حاصل کی اور پھر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے بی-ایس کیا اور اب قائد اعظم انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم-فل کر رہا ہوں۔
آئی ایس او سے میرا تعلق 2007ء سے شروع ہوا۔ گلگت ڈویژن میں میں نے پانچ سال کام کیا اور 2016-17ء میں گلگت ڈویژن کے صدر کی ذمہ داری میرے پاس تھی اور 2018 –19ء میں آئی ایس او مے مرکزی جنرل اسکیرٹری کی ذمہ دار تھی اور پھر 2019-20ء اور پھر اب دوسری مرتبہ آئی ایس او کے مرکزی صدر کے عہدہ پر اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں۔
آئی ایس او کب وجود میں آئی اور اس کے بانی کون تھے؟ اس بارے میں ہمارے قارئین کۃ بتائیں
برادر عارف حسین: 1972ء سے پہلے پورے پاکستان کے اندر شیعہ جوانوں کا کوئی ملک گیر پلیٹ فارم نہیں تھا جہاں ان کو جمع کیا جائے اور ملت کے جوانوں کو ایک دوسرے سے مربوط کیا جا سکے لہذا اس زمانہ میں ہمارے بزرگان جیسا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، آغا علی موسوی اور انجینئر علی رضا سمیت بعض بزرگوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ ہم ایک شیعہ طلبہ جماعت بنائیں جو پاکستان میں بسنے والے تمام شیعہ جوانوں کو یکجا کریں اور انہیں دینی اور اجتماعی ہدف کے لئے ایک دوسرے کے قریب لائیں۔لہذا اسی ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے 22 مئی 1972ء کو آئی ایس او وجود میں آئی۔ 1972ء سے آج تک الحمد للہ پاکستان کے گوش و کنار میں تعلیمی ادارے ہوں یا لوکلٹیز ہوں، گلگت بلتستان سے لے کر کراچی تک ملک گیر جماعت ہونے کی ساتھ ساتھ شیعہ جوانوں کا تعلیمی و تربیتی لحاظ سے ساتھ دے رہی ہے۔
آئی ایس او میں شامل ہونے کا کیا طریقۂ کار ہے اور ایک شیعہ جوان اس میں کیا فعالیت انجام دے سکتا ہے؟
برادر عارف حسین: جیسا کہ آپ جانتے ہین کہ آئی ایس او ایک اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن ہے اور اس کے اپنے لیولز ہیں جیسا کہ پرائمری سے میٹرک کے درمیان بچے کو ہم "محب آئی ایس او" کا نام دیتے ہیں اور اس کے بعد سے لے کر یونیورسٹیز کے کسی بھی لیول تک وہی محب آئی ایس او کا "ممبر" کہلاتا ہے۔ وہ اس وقت یونٹ میں یا ڈویژن میں یا پھر مرکز میں ہمارے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے۔
آئی ایس او کا بنیادی ہدف قرآن و تعلیمات اہلبیت علیہم السلام کی روشنی میں جوانوں کی تعلیم و تربیت ہے۔اسی ہدف کو لے کر شیعہ جوان ہمارے ساتھ اٹیچ ہیں تاکہ دنیا بھر میں بالخصوص پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک جہاں پر استعماری طاقتیں ہمارے دینی کلچر کو خراب کرنے اور نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو الحمد للہ آئی ایس او پاکستان ایسے لوگوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
انقلاب کو فکری و شعوری طور پر نوجوانوں کے اذہان تک منتقل کرنا آئی ایس او کا ایک اہم مقصد
آئی ایس او کا انقلاب اسلامی کے تعلق سے اور اسکے رابطے کے حوالے سے روشنی ڈالیں
برادر عارف حسین: انقلاب اسلامی سے پہلے کی تنظیم آئی ایس او بنی تو جب حضرت امام خمینی (رہ) یہاں انقلاب اسلامی کی کاوشیں کر رہے تھے تو آئی ایس او پاکستان میں امام راحل (رہ) کے ہر اول دستہ کے طور پر ملت پاکستان تک پہنچاتی تھی حالانکہ اس وقت پاکستان میں ایک ڈکٹیٹر کی حکومت تھی لیکن اس کے باوجود اس زمانہ میں قائد شہید کی قیادت میں امام خمینی (رہ) کا پیغام گھر گھر تک پہنچانا اور انقلاب کو فکری و شعوری طور پر نوجوانوں کے اذہان تک منتقل کرنے میں آئی ایس او کا ایک اہم کردار تھا۔
آئی ایس او کی ولایت فقیہ کے تعلق سے کیا سوچ ہے؟
برادر عارف حسین: پاکستان میں آئی ایس او نے علماء کے ساتھ مل کر بالخصوص ولایت فقیہ کے حوالے سے مومنین اور بالخصوص جوانوں کے اندر شعور پیدا کرنا تو آج پاکستان میں کوئی عالمی استعمار کے خلاف بات کرتے ہیں اور ولی فقیہ کے نظریہ کی ترویج کرتے ہیں تو الحمد للہ اس کا کریڈٹ بھی آئی ایس او کو جاتا ہے۔
عالمی مسائل اور فکری و عقیدتی مسائل میں آئی ایس او کی نظر ہمیشہ رہبر معظم کی طرف ہوتی ہے
کیا آج کے اس سخت دور میں ہم اپنے عقائد اور نظریات سے دستبردار ہو جائیں تو دشمنی کم ہو جائے گی؟
برادر عارف حسین: عالمی مسائل اور فکری و عقیدتی مسائل میں بھی آئی ایس او کی نظر ہمیشہ رہبر معظم کی طرف ہوتی ہے کہ رہبر معظم کی اس مسئلہ میں نظر کیا ہے اور ہم ہمیشہ ان کی رائے کی تائید کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فقط دشمنی کو کم کرنے کے لئے اپنے اعتقاد اور عقائد سے ہی پیچھے ہٹ جائیں بلکہ اتحاد بین المسلمین اور وحدت اسلامی کا خیال رکھتے ہوئے اپنے عقیدے کے استحکام کے ساتھ دوسروں کے مقدسات کا بھی خیال رکھا جائے۔
افغانستان کی تازہ ترین صورتحال اور مسائل کے تعلق سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
برادر عارف حسین: اگر آپ پوری دنیا میں دیکھیں تو دنیا میں ہونے والی قتل و غارت میں باقاعدہ پلاننگ شامل رہی ہے۔ ہر جگہ امریکہ و اسرائیل نے اپنی خباثت کا اظہار کرتے ہوئے بعض دوسرے اسلام دشمن ممالک کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی مختلف بہانوں سے قتل و غارت کرتے آ رہے ہیں۔ عراق ہو یا چاہے شام یا حتی پاکستان میں بھی اینٹی ٹیرر کے نام پر 70 ہزار لوگوں کو مروایا اور اب امریکہ کا افغانستان کو طالبان کے ہینڈ اوور کرنا بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اب طالبان میں بھی ظاہری تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن ان کا شرمناک ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ انہیں گلے کاٹنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا اور نہ ہی ان کے پاس اتنا انٹلیکٹ مائینڈ ہے کہ جس کے باعث یہ لوگ اس حکومت کو چلا سکیں تو اب یہ جو سب کچھ افغانستان میں ہوا ہے اس میں بھی بنیادی طور پر امریکہ کی اپنی باقاعدہ پلاننگ شامل ہے۔
امریکہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ یہ ایشیا مستحکم ہو!امریکہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ یہ بیلٹ مستحکم ہو، مضبوط ہو، سٹیبلائز ہو اور بالخصوص اب جبکہ دنیا کی پاور ایشیا کی طرف شفٹ ہو رہی ہے تو امریکہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ کوئی بھی پاور اسے پیچھے دھکیل دے۔ امریکہ نے یہ جو ڈیموکریسی کی پروموشن کے نام پر اس دنیا میں جو ایک نقشہ کھینچا ہے اس کو ان کی نظر میں خطرات لاحق ہیں۔ بالخصوص جو یہاں سے سی پیک گزر رہا ہے گلگت بلتستان اس کا گیٹ وے ہے جس کے ذریعہ یہ مڈل ایسٹ اور انٹرنیشنل مارکیت کو ٹچ کرتا ہے تو اب یہ جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے اس کے پیچھے بھی امریکہ کا ہاتھ ہے۔ چونکہ وہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن کی فضا قائم ہو اور وہ اپنے مذموم اہداف تک نہ پہنچ سکے۔
لہذا حالیہ جمعہ کی نماز میں جو دہشت گردی کا حملہ ہوا ہے یہ واقعا بہت شدید ہے۔ پہلے بھی ہمارے مکتب پر حملے ہوتے رہے اور اب طالبان کے دور اقتدار میں بھی بے گناہ شیعہ افراد مارے جا رہے ہیں تو اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ دشمن کا جو اصل ہدف ہے وہ ہمارا مکتب ہے کیونکہ ہمارے مکتب کی بنیادی تعلیمات میں ہے کہ کسی بھی ظالم کے خلاف نہیں جھکتے ہیں اور ہم کبھی بھی حق بات سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں اور کسی بھی اصولی چیز پر سمجھوتا نہیں کرتے ہیں۔ اور آج بھی ہمارا نظریہ یہی ہے کہ اگر آج افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے اور وہاں کے لاگ اس سے خوش ہوتے ہیں تو ہماری ساری ہمدردیاں افغانستان کی عوام کے ساتھ ہیں اگر وہ لوگ طالبان کی حکومت کو قبول کر کے وہاں امن کو قبول کرتے ہیں تو ہم بعنوان ایک ہمسایہ ملک اس سے بہت خوش ہوں گے۔
اس سال آئی ایس او کی گولڈن جوبلی ہے، اس پچاسویں کنونشن کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے
برادر عارف حسین: جی بالکل، یہ جو آئی ایس او پاکستان کے پچاس سال تھے یہ جدوجہد اور جہاد مسلسل کا سفر تھا۔ اس میں بہت زیادہ اپ اینڈ ڈاؤنز بھی آئے۔ جہاں آئی ایس او کے جوانوں نے پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کے استحکام کے لئے، اپنی ملت اور نظام ولایت کی ترویج کے لئے جو قربانیاں دی ہیں اور کامیابیاں سمیٹی ہیں تو میں عرض کروں کہ آئی ایس او کی سب سے بڑی طاقت ہماری غربت اور ہماری خاک نشینی ہے اور ہمارا مقصد دنیا میں تمام مظلوموں کی حمایت اور علماء کے زیر سایہ اپنی تنظیمی اور دینی فعالیت کو انجام دینا ہے۔
انشاءاللہ اس پچاسویں کنونشن کے موقع پر ہم اپنے بزرگوں کو خراجِ تحسین پیش کریں گے اور ان سے تجدید عہد کریں گے کہ آنے والے پچاس سالوں میں بھی ہم اسی کمٹمنٹ کے ساتھ اپنے بزرگوں کی ان پاکیزہ اقدار و روایات کو لے کر اگلی نسل تک منتقل کریں گے۔ پچاسویں کنونشن میں ہمارے محب سے لے کر تمام کارکنان کافی ایکسائیٹڈ ہیں اور ہم اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام مسالک سے بھی رابطے میں ہیں۔ ہم اپنے گولڈن جوبلی پروگرام کو نہایت بہترین اور احسن انداز میں منائیں گے انشاءاللہ اور رہبر معظم انقلاب کی سرپرستی میں ہم اور ہماری تحریک نے آگے بڑھنا ہے تاکہ ہم مل کر امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کی راہ ہموار کر سکیں۔
ہم حوزہ نیوز ایجنسی کی جانب سے آپ کے شکر گزار ہیں کہ اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا اسی کے ساتھ آپ سے اجازت چاہتے ہیں والسلام علیکم۔