حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ المہدی کراچی پاکستان کے پرنسپل بزرگ عالم دین حجت الاسلام والمسلمین شیخ غلام محمد سلیم نے حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا اور اس موقع پر، انہوں نے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی علمی زندگی، دین، انقلابِ اسلامی اور دینی طلاب کی خدمات پر تفصیل سے گفتگو کی۔
حوزہ: سب سے پہلے جناب عالی کی خدمت میں حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر آمد پر خوش آمدید عرض کرتے ہیں۔
حجت الاسلام والمسلمین شیخ غلام محمد سلیم:
بہت شکریہ! میں بھی حوزہ نیوز ایجنسی کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے مجھ ناچیز کو یہاں مدعو کیا اور مجھے اس عظیم پلیٹ فارم کے توسط سے اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے کا موقع فراہم کیا۔
مکمل تصاویر دیکھیں:
حوزہ علمیہ المہدی کراچی کے سربراہ کا حوزہ نیوز ایجنسی کا دورہ
حوزہ: براہِ کرم سب سے پہلے، آپ ہمارے قارئین کو اپنی زندگی اور ابتدائی تعلیم اور مصروفیات کے بارے میں مختصراً بیان کریں۔
حجت الاسلام والمسلمین شیخ غلام محمد سلیم:
بنیادی طور پر میں بلتستان کے ایک دور افتادہ علاقے کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوا، جہاں آج بھی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن میرا گھرانہ ایک دینی گھرانہ تھا، جس کی وجہ سے مجھے شروع سے ہی دینی علوم حاصل کرنے کا شوق تھا اور میرے والدین کی خواہش بھی یہ تھی کہ میں دینی طالب علم بنوں، بہرحال میں نے قرآن کی تعلیم اپنے والد گرامی سے ہی حاصل کی وہ بھی ایک عالم دین تھے اور میرا حوزہ علمیہ نجف اشرف میں داخلہ کروانے کے اسباب فراہم کر رہے تھے، لیکن اچانک ان کی طبیعت خراب ہوئی اور میں نو سال کی عمر میں والد کی عظیم شفقت سے محروم ہوا، اس کے بعد میری پھوپھیوں نے میرے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے میں میری مدد کی؛ 1975 میں محمدیہ ٹرسٹ کے بانی شیخ محمد حسن رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ہمارے گاؤں میں ایک دینیات سنٹر قائم کیا، جہاں میں نے بھی داخلہ لیا، الحمدللہ ذہین ہونے کے ناطے اگلے سال ہی محمدیہ ٹرسٹ والے آئے اور گاؤں کے سرکردگان سے تقاضہ کیا کہ ہمیں ایک ذہین اور ہوشیار طالبِ علم دیں تو گاؤں کے سرکردگان نے میرا ہی نام دیا یوں میں نے 1975 میں جامعہ محمدیہ مہدی آباد میں داخلہ لیا اور وہاں دینی علوم کے حصول میں مصروف عمل رہا اور وہاں دو سال علوم محمد و آل محمد علیہم السّلام حاصل کرنے کے بعد، 1977 میں جامعہ اہل البیت (ع) اسلام آباد میں داخلہ لیا؛ جہاں مجھے چار سال تک علامہ شیخ محسن علی نجفی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور علامہ سید افتخار نقوی دامت برکاتہ سے کسب فیض کا موقع ملا۔
حوزہ: حوزہ علمیہ قم کب تشریف لے گئے؛ کن عظیم اساتذہ سے کسب فیض کیا اور انقلابِ اسلامی سے کب آشنا ہوئے؟
حجت الاسلام والمسلمین شیخ غلام محمد سلیم:
مجھے تقریباً سن 1980 کے آخر میں حوزہ علمیہ قم میں حصول علم کی سعادت نصیب ہوئی اور ایک مدت تک مختلف اساتذہ سے کسب فیض کرتا رہا؛ حوزہ کے ابتدائی متون کی کتابیں استاد اعتمادی، استاد بنی فضل، استاد ستودہ، استاد موسوی تہرانی، استاد اشتہادری جیسے عظیم اساتذہ سے پڑھیں۔
استادِ گرامی حجت الاسلام والمسلمین بنی فضل کئی اہم خصوصیات کے حامل تھے، آپ اسلام، امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور انقلابِ اسلامی کے عاشق تھے؛ ان سے میں نے بصیرت یعنی موقع سے استفادہ کرنا سیکھا۔
مدرسہ علمیہ فیضیہ کے ہاسٹل میں مقیم تھے اور میری طالبعلمی کی روش یہ تھی کہ میں نمازِ مغربین کے بعد سے رات گیارہ بجے تک لائبریری میں رہتا تھا اور دروس کی کتابوں سمیت انقلاب اور انقلابی شخصیات کی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا، البتہ یہاں آپ نے پوچھا تھا کہ میں انقلاب سے کب آشنا ہوا؛ الحمدللہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ایران آنے سے پہلے اور انقلاب کی تحریک جب شروع ہوئی تھی اس وقت سے ہی اسلام آباد میں اپنے اساتذہ کے ساتھ امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بیانات سنا کرتا تھا اور اسی دوران ہی میں نے عالمی سطح کی علمی شخصیات جیسے مصر کے حسن البناء، انوار سادات، الفتح پارٹی کی سرگرمیاں اور امام موسیٰ الصدر رحمۃ اللّٰہ علیہ، آیت اللہ العظمٰی مفکر اسلام شہید صدر رحمۃ اللّٰہ علیہ، شہید مطہری وغیرہ کو پڑھ لیا تھا۔
میرا انقلابِ اسلامی اور امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی علمی، سیاسی اور سماجی شخصیت سے عشق و محبت کا یہ عالم ہے کہ میں شروع سے آج تک امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تقلید پر ہی باقی ہوں اور یہ میں اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔
عراق_ایران کی جنگ جو کہ دفاع مقدس کے نام سے مشہور ہے؛ اس جنگ کے دوران میں دو مرتبہ محاذ پر گیا اور تقریباً ڈیڑھ سے دو مہینے تک لشکرِ ثار اللہ 41 جس کے سربراہ شہید قدس، شہید مقاومت، شہید مدافع حرم شہید جنرل قاسم سلیمانی تھے؛ ان کے ساتھ مختلف رضا کارانہ کاموں میں مصروف عمل رہا۔
حوزہ: حوزہ علمیہ کا اہم کورس ”درس خارج“ کے لیے جناب عالی کن اساتذہ کی خدمت میں جایا کرتے تھے؟
حجت الاسلام والمسلمین شیخ غلام محمد سلیم:
حوزہ کے اعلٰی سطحی دروس اصول و فقہ کے لیے میں، آیت اللہ العظمٰی شیخ فاضل لنکرانی (رح)، آیت اللہ العظمٰی جعفر سبحانی دامت برکاتہ اور آیت اللہ العظمٰی وحید خراسانی دامت برکاتہ کی خدمت عالیہ میں مشرف ہوا اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں نے حوزہ کے تمام دروس کے ساتھ ساتھ، آیت اللہ شیخ محمد تقی مصباح یزدی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تخصصی ادارہ مؤسسہ راہ حق میں کے کورسز بھی مکمل کیے۔
میں نے اخلاق کے عظیم اساتذہ جیسے آیت اللہ مشکینی، آیت اللہ ضیاء بہاؤ الدین، آیت اللہ عارف باللہ رضا بہاؤ الدینی اور آیت اللہ العظمٰی مظاہری سے نیز مسلسل کسب فیض کیا۔
حوزہ: مدارس میں نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کریم، نہج البلاغہ اور خطابت وغیرہ کی باقاعدہ تعلیم کی ضرورت کے بارے میں بیان فرمائیں۔
حجت الاسلام والمسلمین شیخ غلام محمد سلیم:
الحمدللہ؛ حوزہ علمیہ المہدی کے فارغ التحصیل طلاب پاکستان کے مختلف علاقوں میں دین اسلام کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور ہمارے دسیوں شاگرد اس وقت حوزہ علمیہ نجف اشرف اور حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں زیر تعلیم ہیں۔
حوزہ: طلاب کرام کے بہتر مستقبل کے لئے اساتذہ کو کن خصوصیات کے حامل ہونا چاہیے اور اس حوالے سے آپ دینی طلاب کو کیا نصحیت کریں گے؟
سربراہ حوزہ علمیہ المہدی کراچی پاکستان:
سب سے پہلے تو خود اساتذہ تربیت یافتہ ہوں، کیونکہ ایک تربیت یافتہ ہی کسی کی تربیت کر سکتا ہے؛ مدارس کے سربراہان بہت ہی باریک بینی سے اساتذہ انتخاب کریں، اساتذہ دور حاضر کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، تربیت کی مختلف روش سے آشنا ہوں۔
طلاب کرام سے یہی عرض کروں گا کہ وہ صرف اور صرف اپنی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں؛ دین اسلام کی تبلیغ کی ذمہ داری طلاب پر عائد ہو گی، لہٰذا وہ اس کے لیے خود کو علمی، اخلاقی، فکری، قلمی اور فن بیان سے آراستہ کریں اور طلاب کے لیے سب سے اہم نصیحت یہ ہے کہ طلاب کبھی بھی اپنی معیشت کی فکر نہ کریں، بلکہ اسے اللہ تعالٰی کی ذاتِ اقدس پر چھوڑ دیں، رزق و روزی پہنچانا خدا کا کام ہے، البتہ محنت سے انکار نہیں ہے، محنت اور کوشش کریں، لیکن خدا پہنچا دیتا ہے، طلاب احساس کمتری کا شکار نہ ہوں، طلاب خود کو دور حاضر کے مطابق تیار کریں اور ہر چیز جیسے سوشل میڈیا وغیرہ کو بروئے کار لائیں اور اس میں پیدا کیے جانے والے شکوک وشبہات کو دور کریں، تاکہ ہم دشمن سے پیچھے نہ رہیں۔
خداوند سب کا حامی و ناصر ہو۔
آپ کا تبصرہ