حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر جناب حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ عارف حسین واحدی نے حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے حوزہ نیوز ایجنسی کو خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ جس کا حصہ اول قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
حوزہ نیوز: آپ کے نظر میں عالم اسلام کی موجودہ ابتر صورتحال اور مسلمانوں کے باہمی تضاد و انتشار کے اسباب کیا ہیں ؟
علامہ عارف حسین واحدی: اس سوال کا جواب میں دو حصوں میں عرض کروں گا۔
پہلا حصہ: عالم اسلام کا جو سسٹم ہے وہ نظام عدل ہے، نظام انصاف ہے۔ اور ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیاتِ انسانی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کی شکل میں انسانی فلاح اور انسانیت کی بلندی اور کمال کیلئے جو منشور حیات انسانی ہمیں دیا ہے وہ مکمل ضابطہ ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ پرلے بھی مسلمانوں کے حالات دگرگون رہے لیکن یہ جو دور ہے یہ جو برہۂ زمانی ہے اس میں مسلمانوں کی صورتحال زیادہ ابتر اس لئے ہے کہ اسلام کی جو حقیقی روح ہے اس کو یا ہم نے سمجھا ہی نہیں ہے یا سمجھا ہے تو پھر دنیا کی رعنائیوں میں اس طرح گم ہوگئے ہیں کہ اس پر عمل نہیں کیا ہے۔ ہم نے اگر اپنے آپ کو سو فیصد سچا اور کھرا مسلمان بنایا ہوتا اور اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کیا ہوتا تو آج عالم اسلام کی یہ حالت نہ ہوتی۔
سب سے پہلے تو اس سسٹم کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو اللہ کی ذات نے ہمیں عطا کیا ہے اور جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں نافذ کیا اور ایک حقیقی ریاست مدینہ کو تشکیل دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہی ایسے مسائل شروع ہوگئے جو مسلمان آہستہ آہستہ اس حقیقی راستے سے دور ہوتے گئے اور آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس سسٹم سے بہت دور ہوچکے ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں دیکھتے ہیں کہ نظام مصطفی اور ریاست مدینہ کا نعرہ تو لگایا جاتا ہے لیکن خود نظام مصطفی کا نعرہ لگانے والے، یہ ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگانے والے خود اسلام کی حقیقی روح سے آشنا نہیں ہیں۔
دوسرا حصہ: اس وقت جو عالم اسلام کی بدترین صورتحال ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ عالمی سامراجی قوتوں اور ان کے سازشوں کی وجہ سےہے۔ وہ تو ظاہر ہے دشمنانِ اسلام ہیں انہوں نے تو ہر وقت یہ سازشیں کرنی ہیں لیکن ان سازشوں کے مقابلے میں ہمیں مل بیٹھنے کی ضرورت تھی تاکہ ہم ان کی سازشوں کو سمجھیں اور ان کی گہرائی تک جائیں اور ان سازشوں کا مقابلہ کریں۔ لیکن بہت ہی افسوس کے ساتھ میں یہ کہوں گا جیسے اس یزید کی فاسق اور فاجر حکومت کے مقابلے میں امام حسین علیہ السلام مدینہ سے نکلے تھے اور پکارتے رہے کہ "کوئی ہے جو میرے ساتھ آئے، کوئی ہے جو اس بگاڑ کو صحیح کرنے میں ہمارا ساتھ دے؟"۔ لیکن کوئی بھی نہ آیا۔ کیا مدینہ میں مسلمان نہیں تھے؟ مدینۃ الرسول، جہاں رسول کے شاگرد اور رسول کے پیروکار بھرپور انداز میں موجود تھے۔ کربلا تک امام حسین چلے گئے اور امام حسین علیہ السلام نے صرف اپنے 72 ساتھیوں کے ساتھ ہی دنیا کی کایہ پلٹ دی اور جبر کے مقابلے میں انحراف پیدا کرنے والوں کے مقابلے میں استقامت دکھائی۔ آپ علیہ السلام ظلم کے مقابلے میں ڈٹ گئے، سینہ تان کے کھڑے ہوگئے، اولاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانیاں دیں لہذا آج چودہ سو سال تک وہ دنیا کیلئے رول ماڈل ہیں۔
بدقسمتی سے اس چیز کو بھی مسلمانوں نے نہیں سمجھا اور اس کی پیروی نہیں کی۔ خاندان رسول نے تو بہت بڑی قربانی دی۔ اس کے بعد کچھ لوگ مختلف صدیوں میں آتے رہے جو نظریاتی حوالے سے اس فکر کے حامل تھے۔ گذشتہ صدی میں، حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جس انداز میں عالم اسلام کو پکارا اور میں سب سے بڑی چیز امام رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کہتا ہوں کہ "امام نے ہمیں دشمن شناسی عطا کی ہے"۔ انہوں نے ہمیں سمجھایا کہ یہ تمہارے دشمن ہیں، یہ سامراجی دشمن ہیں۔ ان سے ہوشیار رہو، ان کی سازشوں سے ہوشیار رہو۔ لیکن افسوس ہے کہ ان کی اس آواز کو بھی شیطانی طاقتوں نے اپنی بھرپور قوت کے ساتھ اور سرمایہ خرچ کرکے روکنے کی کوشش کی لیکن الحمدللہ ان کی آواز پوری دنیا میں پھیلی اور آج دنیا میں کروڑوں انسان خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان، اب پوری دنیا میں مختف خطوں میں مختلف علاقے جو ہیں ان میں یہ فکر موجود ہے۔
جو سامراجی سازشیں تھیں ان میں بڑی سازش یہ ہے کہ عالم اسلام کو آپس میں لڑاؤ۔ سب سازشیں ہوئیں کبھی علاقائی اور منطقہ کے نام پر لڑایا گیا تو کبھی لسانی بنیادوں پر لڑایا گیا، کبھی ملکوں کے نام پر لڑایا گیا تو کبھی فرقوں کے نام پر لڑایا گیا۔ یہ جو فرقہ واریت آئی ہے، یہ جو اختلافات ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا دشمن تو اس بات تک پرنچ چکا ہے کہ اگر عالم اسلام کو کمزور کرنا ہے، مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرنا ہے، امت کی کمر توڑنا ہے تو اس کیلئے سب سے بڑا حربہ فرقہ واریت پھیلانا ہے، سب سے بڑا ہتھیار بین المسالک ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا ہے اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہوئے اور انہوں نے اب تک ظاہر ہے ایسے گروہ پالے یا پھر مختلف ممالک کو اس پر لگایا کہ وہ اس طرف آئیں اور فرقہ واریت پھیلائیں اور عالم اسلام کی کمر توڑ دیں۔ بدقسمتی سے وہ بہت حد تک اس مذموم کوشش میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔
تیسری چیز عالمی سامراجی طاقتوں کی غلامی کرنا ہے۔ پرلے جو دو نکتے تھے وہ عموم مسلمانوں کے حوالے سے اور علماء کے حوالے سے ہیں یا عوام کے حوالے سے یعنی امت کے جو تمام افراد ہیں ان کے حوالے سے تھے۔ لیکن یہ جو تیسرا نکتہ ہے یہ اسلامی ممالک کے حوالے سے ہے۔ شخصیات اور گروہ بھی اس میں ہوں گے لیکن جو اسلامی ممالک سامراجی قوتوں کی سازشوں کا شکار ہوئے اور ان کی غلامی اختیار کی۔
اس میں سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے خیانت کی۔ البتہ میں اس میں کسی ملک کا نام نہیں لینا چاہتا لیکن عالمی شیطانی اور کفریہ طاقتوں کی غلامی نے عالم اسلام کو بہت بڑا نقصان پرنچایا ہے اور مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرانے میں ان کا اہم کردار ہے۔ ایسے حکمران آئے جو صرف اپنی عیاشیوں کی وجہ سے ان کی غلامی کرتے رہے۔ انہوں نے ان سے ڈکٹیشن لی اور ان کا حکم مانا اور عالم اسلامی میں جو ایک محبت تھی، ایک آپس میں ہم آہنگی تھی اس کو بھی نقصان پرنچایا لہذا غرض یہ کہ سامراجی طاقتوں نے عالم اسلام کو نقصان پرنچانے کی لگاتار کوششیں کی۔ بڑے بڑے ادارے بنائے گئے، عالمی سطح پر عالم اسلام کی فلاح و بہبود کیلئے بڑے بڑے پلیٹ فارم بنائے گئے لیکن وہ بھی بدقسمتی سے اسی غلامی کی بھینٹ چڑھ گئے، عالم اسلام بہت زیادہ خوار ہوا۔
ایک اور نکتہ جو میں عرض کروں گا وہ یہ ہے کہ شاید چوتھا نکتہ ہے؛ کہ اسلامی ممالک تعلیم وو تربیت کا اپنا ایک سسٹم نہیں بناسکے، بہت زیادہ مدارس بنے ہوئے ہیں، کئی ایک نظام چل رہے ہیں، ہر کسی نے اپنے ادارے بنائے ہوئے ہیں لیکن ایک منظم سسٹم نہیں ہے۔جو کہ بہت افسوس کی بات ہے۔ اپنے ملک کو دیکھوں تو اس وقت نوجوان نسل کو تعلیم و تربیت سے دور کرنے کیلئے مسلسل سازشیں کی جا رہی ہیں۔
پوری دنیا کو آپ دیکھیں سوائے محدود ملکوں کے۔ سب ممالک میں تعلیم و تربیت کا جو سسٹم ہے وہ زیادہ مغرب کا ہے۔ ہمیں پتہ نہیں کیوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کو، حضور کے نظریہ کو، ائمہ علیہم السلام اور جو ان کا ایک کردار تھا اور ان کی سیرت حسنہ اور عالی شان کردار کو بھلا کر اور ان کے نظام تعلیم و تربیت سے دور ہوکر ہم کیوں مغربی نظام تعلیم کے پیرورکار بن گئے؟!۔ آج اس وجہ سے امت میں بگاڑ پیدا ہوچکا ہے، اب بھی یہ سازشیں رکی نہیں ہیں۔ یہ اب بھی بھرپور عروج پر ہیں اور آگے بڑھ رہی ہے۔
افسوس ہے کہ مسلمان ممالک میں، آج وہ اسلامی تعلیم و تربیت کا نصاب ترتیب دیا جائے اور اس میں مغرب کی پیروی کی جائے، عالم کفر کی پیروی کی جائے۔ اگر پاکستان کے حوالے سے بات کروں تو یہ ملک برصغیر کے غیرت مند اور غیور مسلمان کہ جنہیں اسلام سے محبت تھی، انہوں نے بنایا تھا۔ یہ ملک بنایا گیا تھا تاکہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہوگا، یہاں نظام تعلیم و تربیت اسلام کا ہوگا، یہاں اسلام کی نسلیں تربیت پائیں گی اور وہ اسلام کے سنہری دور کو واپس لائیں گے، اپنے خطے میں اپنا ایک الگ ملک حاصل کرکے اپنا جو نظام عدل و انصاف ہے جو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کا وژن اور مقصد تھا، جو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم ہدف تھا، وہ انتہائی عظیم وژن تھا۔ لیکن انتہائی بدقسمتی سے آج تک ہم مغرب پرستی اور عالمی قوتوں کے اشاروں پر چلنے کی وجہ سے اپنا نظام تعلیم بھی اسلامی نہیں بنا سکے۔ بلکہ میں افسوس کے ساتھ یہ کہوں گا کہ بہت ساری سازشیں مثلا یہ کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگایا جائے، فرقہ واریت کا ٹھپہ لگایا جائے، اس کے ساتھ انہیں بدنام کیا جائے، اسی بہانے نصابِ تعلیم کو سیکولر نظام بنایا جائے، قرآن کی آیات اور اسی طرح احادیثِ مبارکہ جو سیرت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی ہیں انہیں نصاب سے نکال کر مغربی دنیا کی پیروی کی جائے وغیرہ۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ دینِ اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بہت بڑی خیانت ہے اور امت جب تک بیدار نہیں ہوگی یہ خیانت رکے گی نہیں، یہ سازشیں رکیں گی نہیں ۔
بدقسمتی سے ہم نے اسلام کے سسٹم کو فالو نہیں کیا چاہے وہ اقتصادیات میں ہو، سیاسیات میں ہو یا معاشی صورت حال ہو۔اسے ہم سو فیصد اسلامی نہ بناسکے۔ اب اس میں مسلمانوں کے اندر صحیح انڈر سٹینڈنگ نہ رہی، غلط فہمیاں اس طرح پیدا کی گئیں کہ مسلمان ایک دوسرے کو برداشت ہی نہ کرے وغیرہ۔ تو جب ہم ایک دوسرے کو کافر کہیں گے، ہم اس طرح کے گروہ پالیں گے جو مسلمانوں میں تفریق ڈالیں تو ظاہر ہے ہم اقتصادیات می، سیاسیات میں، معاشرتی مسائل میں ہماری صورت حال ناگفتہ بہ ہوگی چونکہ جب قوم میں اتنا انتشار ہو، اتنا اختلاف ہو، اتنے تنازعات ہوں کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت تک نہ کریں۔
عالم اسلام کی تمام قوت میں یہ سمھتا ہوں اب اس میں کسی بھی مسلک کو لے لیں، باقی طبقات بھی اسی طرح ہے، تو اس میں ہر کوئی صرف اپنے مسلک کو مضبوط کرنے کیلئے کام کرے گا۔ ایک بریلوی، ایک شیعہ، ایک دیوبندی چاہے گا کہ وہ اپنے مسلک کو مضبوط کرے تو جب یہ صورتحال ہوگی تو پھر امت مسلمہ کہاں گئی؟! پھر اسلام کہاں گیا؟ پھر مسلمان کہاں گیا؟۔
میری نظر میں امتِ مسلمہ کے باہمی انتشار کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے سیاسی امور میں، اقتصادی امور میں، معاشرتی امور میں اسلامی سسٹم کو فالو نہیں کیا اور یہاں بھی ہم اغیار کے غلامی کرتے ہوئے نظر آئے اور ہم عالم اسلام میں کوئی سسٹم نہیں بناسکے۔ نہ سیاسی سسٹم، نہ اقتصادی سسٹم، نہ معاشرتی سسٹم۔ آپ اکثر اسلامی ممالک کو دیکھیں وہ اسی صورت حال کا شکار ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری سب سے بڑے رول ماڈل ہمارے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہل بیت اطہارعلیہم السلام، صحابہ کرام ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن ہم کسے فالو کر رہے ہیں؟!۔
ہمارے سب سے بڑے رول ماڈل وہ ہیں اور ہم اپنا رول ماڈل امریکہ کو سمجھ رہے ہیں، یورپ کو سمجھ رہے ہیں۔ تو ہم کیا خاک ترقی کریں گے۔ ہم من حیث القوم ہم امت بن کے ابھرے ہی نہیں ہیں۔ وہی جو پرلے بھی بات کی ہے کہ اسلامی کی روح ہمارے اندر ہے ہی نہیں، ہم اس روح سے ہی بیگانہ ہوگئے ہیں، ہم پر مغربیت کی چھاپ اتنی لگ گئی ہے۔ آج اپنے ملک کی ایک بات کروں تو جس انداز میں میڈیا جوانوں کو بگاڑ رہا ہے، انٹرنیٹ بہت اچھی اور لازمی چیز ہے اور اس سے اسلام کی ترویج کیلئے اسلامی سسٹم کو متعارف کروانے بہت مثبت استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس کو ہمارے مسلمان جوانوں کو مذہب سے دور کرنے اور انہیں بگاڑنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے اس کے مقابلے میں ہمارے پاس کوئی اسلامی نظام فعال نہیں ہے کیونکہ یہ بہت بڑی خرابی ہے۔
لہذا عالم اسلام کی بدترین صورتحال کے اسباب کو آپ دو چیزوں میں تقسیم کرلیں: ایک چونکہ ہمارے اندر حقیقی اسلامی روح نہیں ہے اور دسرا ہم اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کا مقابلہ نہیں کرسکےہیں۔
حوزہ نیوز: آپ کی نظر میں دنیا بھر اسلام اور مسلمانوں کی عزت و وقار کو بحال کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
علامہ عارف حسین واحدی: اگر مسلمان دنیا میں ایک نقطے پر غور کرلے کہ اپنے جوانوں کیلئے جو اسلام نے نظام تعلیم و تربیت دیا ہے اس پر عمل کرنے لگ جائیں، اسلامی معاشرے میں شعور اور آگاہی بہتر ہو اور اسلام کے جو سنہری اصول ہیں ان پر ہم عمل کرنا شروع کردیں اور اغیار کی غلامی چھوڑ دیں تو میرے خیال میں ہم اپنے عظمتِ رفتہ کو دوبارہ بحال کرسکتے ہیں۔
اگر ہم سو فیصد سچے اور کھرے مسلمان بن جائیں تو اللہ کا وعدہ ہے "وَأَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ"(آل عمران:139) ، ہم ہی سربلند ہوں گے یقینا، ہم ہی دنیا میں حکمرانی کریں گے، ہم ہی عزت و عظمت کمائیں گے لیکن ہمارا یقین اپنے اسلامی نظام و سسٹم پر بحال ہونا چاہئے۔ اگر وہ یقین ہم بحال نہیں کرسکتے اور اگر ہم نے اپنے معاشروں میں وہی مغربیت کو فروغ دینا ہے، مغربی تعلیمی نظام کو ہم نے اپنانا ہے تو میرے خیال میں یہ ممکن نہیں ہے۔ جو قوم اپنے اسلاف کے کارنامے بھول جاتی ہے، جو قوم اپنے بزرگان کی صدیوں کی محنتیں بھول جاتی ہے، جو قوم اپنے پیشواؤں کی سیرت اور کردار کو بھول جاتی ہے، جو قوم نظریاتی، فکری اور عملی میدان میں اپنے معیار کو برقرار نہیں رکھ سکتی وہ قوم کبھی دنیا میں عزت نہیں کما سکتی۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں متحد ہوکر آگے بڑھنا ہوگا۔ عالم اسلام کی سب سے بڑی مصیبت، مسلم امہ کے سب سے بڑی آفت آپس کے اختلافات ہیں۔ یہ جو سامراجی کوششوں سے اور ان کی سازشوں سے اختلافات ہوئے ہیں، یہ جو باہمی لڑائی جھگڑے اور فتنہ و فساد اور تنازعات ہیں ان کو ختم کرنا بہت ضروری ہے اور جس چیز نے اسلام کی کمر توڑ دی ہے اور سب سے زیادہ نقصان کیا ہے وہ فتنہ تکفیر ہے۔ اگر تکفیر کو ہم روک سکیں "اور میرے خیال میں ہم باہمی اتحاد سے اسے روک سکتے ہیں" جب پوری دنیا میں تمام مسالک کے بزرگان یکجا ہوں گے تو میرے خیال میں یہ فتنہ رک سکتا ہے لیکن اس پر بہت محنت چاہئے اور سنجیدگی چاہئے۔ قرآن و سنت سے جو اصل حقائق ہیں وہ مسلمان جامعات میں اور مسلمان معاشروں میں ان سے آگاہی اور شعور چاہئے۔اگر ہم یہ کرلیں تو ان شاء اللہ کوئی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ بھی عرض کروں کہ سامراجی اور استکباری قوتیں جو ہمیں متحد نہیں ہونے دیتیں اور ہمارے لوگوں کو استعمال کرکے ہمارے اندر سے یہ ایسے گروپ پال کر وہ مسلمان معاشروں میں چھوڑ دیتے ہیں تاکہ مسلم معاشرے متحد نہ ہوں اور آپس میں دست و گریبان رہیں۔ تو یہی وہ چیز ہے جس وجہ سے ہم زوال کی طرف جارہے ہیں اور سامراجی قوتوں کو پتہ ہے کہ باقی جتنے اختلافات ہیں بے شک لسانی ہوں، علاقائی ہوں، گروہی ہوں یا وہ مختلف قوموں کے اختلافات ہوں وہ اتنے کارگر نہیں ہیں جتنا مسلم معاشرے میں فرقہ وارانہ اختلافات کارگر ہیں۔ اس لئے وہ اس پر سرمایہ بھی خرچ کررہے ہیں اور اس پر کوششیں بھی کررہے ہیں، سازشیں مسلسل کررہے ہیں اور مختلف افواہیں پھیلا کر دنیا کی ایجنسیاں اور ادارے لگے ہوئے ہیں تاکہ ہمارے اندر اختلاف پیدا کریں اور ہمیں کمزور کریں، ہمیں ضعیف کریں، ہمیں ذلیل و رسوا کریں تاکہ ہم متحد نہ ہوسکیں۔ چونکہ ان کو پتہ ہے کہ جس دن مسلم امہ متحد ہوگئی، جس دن مسلمان آپس میں متحد ہوگئے اس دن ان کی ایک نہیں چلے گی۔ ہم اپنا سسٹم لائیں گے، ہم اپنا نظام لائیں گے، ہم مل کر چلیں گے۔ لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت عالم اسلام کی ابتر صورتحال ہے۔ اس میں دور دور تک ابھی تک یہ صورتحال نظر نہیں آرہی۔ ہم محنت بہت کر رہے ہیں۔ میں پھر یہاں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو خراجِ تحسین پیش کروں گا اور رہبر معظم مدّظلّہ العالی کو۔ وہ جو پوری دنیائے اسلام کو مسلسل اتحاد ووحدت کا پیغام دے رہے ہیں۔ امام نے جس کی بنیاد رکھی۔
دیکھیں انقلابِ اسلامی ایک خالصۃً اسلامی انقلاب ہے، مستضعفین اور مظلوموں کا انقلاب ہے۔ اس میں قطعا مسلکی چیزیں نہیں ہیں کہ کسی مسلک کا انقلاب ہے لیکن وہی دنیا میں تکفیری گروہ اور وہی جو سامراج کے اور دشمنانِ اسلام کے پالے ہوئے گروہ ہیں وہ اس انقلاب کو بھی ایک مسلکی انقلاب بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بھی ایک بہت بڑی سازش ہے۔ اس کو بھی ہم نے مل کر ناکام بنانا ہے لیکن ظاہر ہے وہ بہت زیادہ قوت ارادی اور فکری حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت جو مسلم معاشرے میں فکری انتشار ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ وہ جو مسلمان بھائی کو دوسرے مسلمان بھائی سے لڑانی کی مسلسل کوششیں ہورہی ہیں اور جو غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی غلط فہمی پیدا کی جارہی ہے۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے، انٹرنیٹ کا دور ہے، ایک غلط فہمی کو ہوا دی جاتی ہے اور اسی کو لے کر آگے پھیلاتے ہیں۔ اس میں بھی بہت بڑی قوتوں کا ہاتھ ہوتا ہے تو اس کے پیچھے لگ کر ہم اپنے معاشرے میں تفریق ڈال رہے ہیں انتشار ڈال رہے ہیں ہمیں اس کو ختم کرنا ہوگا ۔ اگر اس کو کنٹرول ہوجائے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم امہ دوبارہ اپنی عظمت حاصل کرسکتی ہے۔
ایک اور چیز جو اسلامی ممالک کیلئے میں عرض کرنا چاہوں گا۔ میں اسلامی ممالک کے حوالے سے بہت زیادہ ناامید ہوں۔ یہ جو سامراجی قوتوں کے آلہ کار بن کے رہ گئے ہیں۔ حتی صورتحال اس وقت یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے درپے ہیں اور بالکل امریکہ کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور مسلم امہ کے مفادات کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ فلسطین میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوتا رہے، دنیا میں سامراجی قوتیں کس طرح ظلم ڈھا رہی ہیں۔ آپ افغانستان میں دیکھیں کیا ہوا؟!آپ کشمیر میں دیکھیں کیا ہورہا ہے؟! آپ عراق کی صورتحال دیکھیں کہ کیا ہوا؟! لیبیا کے ساتھ کیا ہوا؟! مصر میں کیا ہورہا ہے؟ لبنان میں کیا ہورہا ہے؟ باقی یمن میں اور شام میں کیا ہورہا ہے؟۔ اس سب صورتحال کی ذمہ دار سامراجی قوتیں ہیں جو اپنے مذموم عزائم کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں اور مسلمان ممالک سوئے ہوئے ہیں اور اپنی عیاشیوں میں گم ہیں، ان کو قطعا ہی سوچ ہی نہیں ہے، کوئی فکر ہی نہیں ہے کہ ہم نے امت کے مفاد کیلئے اور ہم نے مسلم دنیا کے مفادات کیلئے کام کرنا ہے۔
اگر یہ کام ہوجائے اور امہ متحد ہوجائے۔ او- آئی- سی بنی ہوئی ہے وہ بھی بدقسمتی سے استعماری آلہ کار بن کے رہ گئی ہے۔ دنیا میں مسلمانوں پر جو بھی ظلم و ستم ہورہا ہے، فلسطینیوں پر ظلم و ستم ہورہا ہے، کشمیریوں پر ہورہا ہے، اسی طرح دوسری جگہوں پر ظلم و ستم ہورہا ہے لیکن او- آئی- سی بالکل کوئی رد عمل نہیں دیتی۔
اب جو اسرائیل کو مسلسل تسلیم کرنے کے حوالے سے کوششیں ہورہی ہیں اس میں خود اسلامی ممالک ایک دوسرے سے بڑھ کر کوششیں کررہے ہیں۔ بہت افسوس کی بات ہے کچھ مشرق وسطی میں کچھ ممالک نے اسرائیل کو صرف تسلیم نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ تجارتی روابط بڑھا رہے ہیں، ان کے جو ذمہ داران ہیں وہ اسرائیل کے دورے کررہے ہیں، اب ترکی میں بھی اسرائیلی صدر کا دورہ۔ بہت ہی افسوسناک ہے، واقعا بے انتہا افسوس ہوتا ہے کہ یہ اسلامی ممالک کیا کررہے ہیں !؟
بہرحال یہ وہ دور ہے جس میں یہ سازشیں عروج پر ہیں۔ ہمیں بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ ناامیدی نہیں ہے لیکن بہرحال بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک اور مسلم حکمرانوں کو اس طرف لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی سامراج کے تسلط اور غلبہ سے نکلیں۔ اس کیلئے عوام کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
میں جو امت میں جو مثبت طرز فکر رکھنے ولے علماء کرام ہیں، جو دانشور ہیں ،جو اسلامی سکالرز ہیں، جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ امتِ مسلمہ متحد ہو، جو یہ سوچ رکھتے ہیں امت آزاد ہو اور استقلال کے ساتھ زندگی گزارے۔ ان سے یہ گزارش کروں گا کہ صرف ایک ملک میں نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کی بیداری کیلئے ایک محنت ہو۔ تاکہ ایک تغیر آئے۔ وہ ایک تحریک کے ذریعہ آ سکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ اگر عوام میں تبدیلی آئے اور عوام آواز اٹھائیں تو مختلف اسلامی ممالک کے حکمران یا تو عوام کے ساتھ ہماہنگ ہوجائیں گے یا پھر وہ ہٹ جائیں گے اور وہ صالح حکمران آئیں گے جو امت کا درد رکھتے ہوں گے۔ اس پر بہت زیادہ پلاننگ کی ضرورت ہے، بہت زیادہ نیٹورک کی ضرورت ہے، بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے اگر یہ ہوجائے تو ہم اپنا وہ ہدف حاصل کرسکتے ہیں کہ مسلمان دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عزت و عظمت حاصل کرسکتے ہیں۔
حوزہ نیوز: یمن کا مسئلہ گزرتے وقت کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، اس مسئلہ کا مستقبل آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟
علامہ عارف حسین واحدی: وہ جارح قوتیں جنہوں نے یمن پر ایک چھوٹا سا ملک سمجھ کر حملہ کیا تھا اور ایک غریب ملک، سادگی کے حوالے سے انتہائی پسماندہ ملک، اس پر حملہ کیا تھا۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ شاید ہم چند دنوں میں یا چند ہفتوں میں یمن پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔ ان کے پاس بے انتہا پیسہ بھی تھا، ان کے پاس وسائل بھی بے انتہا تھے، ان کے پاس اسلحہ کے بھی انبار تھے اور سامراجی قوتیں بھی ان کے بھرپور پشت پر تھیں اور اب تک جو سلسلہ ہے وہ سامراجی قوتیں ہیں بلکہ اسرائیل ان کی پشت پر ہے اور چاہتے ہیں کہ یمن کے جو مجاہد ہیں ان کا قلع قمع کردیں۔ لیکن میں سلام پیش کرتا ہوں یمن کے مجاہدین کو، انصاراللہ کو جنہوں نے بڑی جرأت اور شہامت کے ساتھ اور شجاعت کے ساتھ اس غیر ملکی جارحیت کا مقابلہ کیا۔
درست ہے ان کے نقصانات بہت ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے جارحین میں کوئی اخلاقی جرات نہیں ہے اور سوچ نہیں ہے کہ عوام الناس کو نشانہ نہ بنائیں، بچوں اور عورتوں کو نشانہ نہ بنائیں، ان کے ہسپتالوں کو نشانہ نہ بنائیں، ان کے اسکولوں کو نشانہ نہ بنائیں۔ حالانکہ ان کے جو بنیادی وسائل ہیں، ان کی جو بنیادی ضروریات ہیں انہوں نے اس کو نشانہ بنایا اور وہ بنیادی سٹرکچر کو تباہ کرکے رکھ دیا لیکن یہ بہادر قوم ان کے مقابلے میں کھڑی ہوگئی اور اب تو صورتحال بالکل تبدیل شدہ نظر آتی ہے۔ باوجود اس کے کہ تمام قوتیں اور دیگر ممالک ان جارح قوتوں کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن یہ ان کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہیں اور جوں جوں وقت گزر رہا ہے جارح قوتیں کمزور ہورہی ہیں اور یہ مظلوم جن کے ساتھ ان شاء اللہ نصرت الہی ہے یہ غلبہ حاصل کرتے جارہے ہیں۔
دنیا میں بھی اب یہ سوچ ہے آرہی ہے تاکہ یہ اتنے ممالک اکٹھے ہوکر، اتنا بڑا الائنس بنا کر انہوں نے جو ایک اس خطے پر حملہ کیا اور ظلم و بربریت کی انتہا ہوگئی اب وہ شکست خوردہ ہیں اور یہ مظلوم ماشاء اللہ غلبہ حاصل کر رہے ہیں اور بھرپور قوت کے ساتھ آگے بڑھ کر ان کے مقابلے میں کھڑے ہیں اور جو جواب میں ان کا نقصان کررہے ہیں وہ قابلِ ذکر ہے دنیا کی میڈیا دکھا رہی ہے ۔
میں یہاں یمن کے حوالے سے ایک نکتہ کی وضاحت کروں گا کہ ہمارے ملک پاکستان میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ یمنی "حوثی" کہہ کر ان کو باغی کہا جاتا ہے کہ خدانخواستہ وہ حرمین شریفین پر حملہ کررہے ہیں اور ان کے دشمن ہیں۔ میں بالکل وضاحت کروں کہ حوثی مسلمان ہیں اور اپنا ایک نظریہ عقیدہ رکھتے ہیں اور بڑے پکے اور کھرے مسلمان ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کسی دنیا کی قوت نے، کسی شیطانی قوت نے حرمین شریفین پر حملہ کیا تو یہ انصاراللہ اس کا بھی دفاع کرے گی۔ یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ یہ لوگ حرمین پر حملہ کریں گے۔ یہ سب غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ انشاء اللہ جیسے اللہ کا وعدہ ہے کہ مظلوم اور مستضعف اور دنیا کے پسے ہوئے لوگ جب ظلم و جبر کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں، جارحیت کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں تو فتح انہی کے مقدر ہوتی ہے؛ ان شاء اللہ۔ اور یہاں بھی ان شاء اللہ فتح انہی کی ہوگی۔
اس مسئلہ کے انجام کے بارے میں کہوں کہ ان شاء اللہ یہ جنگ ختم ہوگی، جارح قوتوں کو شکست ہوگی اور یہ مظلوم اور مستضعف ان شاء اللہ غلبہ حاصل کریں گے اور کامیاب ہوں گے۔ وہ اپنے وطن کا دفاع کررہے ہیں، اپنی سرزمین کا دفاع کررہے ہیں۔ ان کا حق ہے کہ وہ اپنے وطن پر خود حکومت کریں۔ دنیا کے کسی قوت کا کوئی ایجنٹ وہاں حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ یہ اس قوم کا ہی حق ہے کہ وہ اپنے ملک کے بارے میں فیصلہ کریں کہ کس کو حکمران بنانا ہے اور کس کو حکومت میں لانا ہے اور دنیا میں بھی یہ سوچ موجود ہے کہ ہر قوم کو اپنے مقدرات کے فیصلے کرنے کا خود حق حاصل ہے اور جس انداز میں یمنیوں نے اپنے عزت و استقلال اور آزادی کا دفاع کیا ہے، اپنی غیرت ملی دکھائی ہے وہ لائق تحسین ہے اور ان شاء اللہ فتح ان کا مقدر ہوگی اور ان کے دشمن کو شکست ہو گی۔