۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا سید احمد علی عابدی

حوزہ/جمہوری اسلامی ایران نے چالیس سال کی مشکلات کے باوجود اپنے استقلال کو برقرار رکھا اور استقلال کو اس لیے برقرار رکھا کہ اسکا رابطہ اہل بیت علیہم السلام سے تھا، اہلبیت(ع) نے پورے دور بنی امیہ اور بنی عباس کو جھیلا، مصیبتوں کو جھیلا، لیکن کبھی بھی اپنے اصول و عقائد سے سمجھوتہ نہیں کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،شہرِ ممبئی کے امام جمعہ مولانا سید احمد علی عابدی صاحب نے حرم امام رضا(ع) کی جانب سے منعقد ویبمینار کو خطاب کرتے ہوئے ڈیل آف سنچری کو ایک دکھاوا دھوکا قرار دیتے ہوئے کہا:صدی کی ڈیل کے سلسلے میں ابھی بھی کچھ تاریک گوشے باقی ہیں جو واضح نہیں ہوپائے ہیں اور اخباروں میں اسکا ذکر نہیں ہوا ہے لیکن جو بات یقین سے کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ معاہدہ اور یہ ڈیل اور معاملہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے حق میں یا فلسطینوں کے حق میں نہیں ہوگا اگر کچھ چیزیں اس ڈیل میں مسلمانوں کو دی جائیں گی تو وہ صرف ایک لالی پاپ ہوگااور انہیں صرف بہلانے کی کوشش کی جائے گی،اور سب سے اہم بات اس میں یہ ہے کہ، اگر آپ کو یہ معاہدہ کرنا تھاتو اس  معاہدے کو لکھنے سے پہلےآپ کو خود فلسطینیوں سےاور فلسطین میں بھی فلسطینی حکومت کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کو اعتماد میں لیکر معاہدہ کی شرطیں لکھنا چاہیئے تھا،اگر آپ اس معاہدے کی شرطوں کو آزاد رکھتےاور فلسطینی حکومت اور فلسطینی عوام کو باقاعدہ اعتماد میں لیکر کے کوئی معاہدہ کرتے تب تو معاہدہ دوطرفہ ہوتا ورنہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر کچھ شرطیں لکھ لینا اور ان شرطون کو لوگوں پر تھوپنا یہ سوائے ایک طرح کی دہشت گردی بلکہ غنڈہ گردی کے اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے،شروع سے جو امریکہ یورپ اور بقیہ تمام مغربی ممالک کا سلسلہ رہا ہے وہ کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں یا فلسطینیوں کے حق میں، وہ کبھی بھی مخلص نہیں رہے ہیں ان لوگوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو بھی دھوکہ دیا اور فلسطینیوں کے ساتھ آج تک انصاف نہیں ہوا۔

ہندوستان میں  مرجع عالیقدر آیة اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے وکیل مطلق نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا،آخر یہ معاہدہ کس چیز کا ہے؟ اگر ہمارے گھر میں کوئی آدمی زبردستی آکے گھس جائے اور چار لوگ اسے ہمارے گھر میں زبردستی بٹھادیں اور مالک مکان اس بیٹھنے سے راضی نہ ہو اور پھر بعد میں یہ کہا جائے کہ تم لوگ اس  آدمی کو اس گھر میں رہنے کا حق دے دوتو کیا یہ واقعاً انصاف ہے؟؟، اگر یہ یہودی جو ہیں اگر فلسطین کے ہوتے تو الگ مسئلہ تھالیکن یہ باہر سے لاکر بسائے گئے ہیں انکو زبردستی فلسطین میں جگہ دی گئی ہےانکا آنا اور رہنا سب غصبی ہےتو غصبی جگہ کے اوپر انکا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیئے کہ انہیں نکل جانا چاہیئے اسکے بعد پھر فلسطینیون سے درخواست کریں کہ ہم آئیں یا نہ آئیں۔

انہوں نے کہا،اس طرح کی ڈیل جو آجکل یہ ہورہی ہے یہ سوائے اسکے کہ یہ اسرائیل کو اور زیادہ مستحکم کرے اور اسکی غیر قانونی شکل کو قانونی شکل دے اور فلسطینیوں کو ایک لالی پاپ دیکر کےٹہلا دے اس سے زیادہ کوئی اور چیز نہیں ہے لہذا یہ معاہدہ کسی بھی شکل و صورت میں گرچہ اسکی تفصیلات ابھی بھی نہیں آئی ہیں، کسی بھی طرح یہ معاہدہ فلسطینیوں کے حق میں اور مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوگا۔

مدیر جامعة الامام امیر المؤمنین نجفی ہاؤس نے سلسلۂ گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ، یہ معاہدہ اس لیے کیا جارہا ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ وہ جو حزب اللہ کے ہاتھوں انکو شکست ملی تھی اس وجہ سے ہے، انہوں نے کہا، جس زمانے میں یہ حزب اللہ کی جنگ ہوئی تھی اور حزب اللہ نے ان لوگوں کو شکست دی تھی  اور قرآن کی آیت: فَإِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْغَالِبُونَ؛ کا عملی ثبوت پیش کیا تھا؛ اس وقت عمرے کے طور پر میں خدا کے فضل سے عمرے کا شرف حاصل کرہا تھا تو وہاں کے اخبار میں  ہندوستان کے ایک بہت بڑے صحافی ہیں  ایم جے اکبر انکا ایک مضمون چھپا تھا جسکی عبارت مجھے تھوڑی بہت  یاد ہے، انہوں نے جدے کے ایک انگلش اخبار میں مضمون لکھا تھا اس جنگ کے بعد، انہوں نے لکھا تھا کہ ’’اس جنگ میں لبنان پر بہت زیادہ حملے ہوئے ہیں، بم گرائے گئے ہیں مکانات توڑے گئے ہیں  ہسپتال گرائے گئے سڑکیں برباد کی گئی ہیں لیکن یہ سارے نقصانات دوچار سال میں پورے ہوجائیں گے اور لبنان پھر اپنی اصلی جگہ پر آجائے گا  لیکن اس جنگ میں جو یہودیوں کو شکست ہوئی ہے یہ شکست کبھی بھی بھلائی نہیں جائے گی یہ انکے دل کو توڑ چکی ہے‘‘ اور یہ واقعاً ایک حقیقت ہے اگر آج یہودیوں کو  احساس نہ ہوتا کہ ہم جنگ کرکے پھر سے قبضہ کرسکتے ہیں تو اب تک وہ غزّہ کی پٹّی پر اور بقیہ پٹّیوں پر قبضہ کرکے جیت سکتے ہوتے جیسے انہوں نے اس سے پہلے مصر سے جنگ کرکے کچھ حصے اپنے قبضے میں کرلیے ہیں لیکن اب حزب اللہ کے بعد اور حزب اللہ کے ہاتھوں شکس فاش کھانے کے بعد انکے دل میں یہ ڈر بیٹھ گیا ہے کہ اب ہم اس صورت میں، اور جنگ سے کسی بھی صورت میں ایک زمین بھی حاصل نہیں کرسکتے لہذا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیل کے ذریعہ سے، معاہدے کے ذریعہ سے یہ کام کرو، اور اگر انہوں نے معاہدہ کربھی لیا تو آپ یقین جانیئے کہ قرآن کے اعتبار سے یہ کبھی بھی اپنے معاہدے پر باقی نہیں رہیں گے، قرآن شاہد ہے کہ کبھی بھی اپنے معاہدے پر باقی نہیں رہیں گے، یہ معاہدہ صرف فلسطینیوں کو دھوکہ دینے کے لیے اور مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کے لیے کررہے ہیں، اگر یہ معاہدہ ہوبھی گیا؛ اول تو ہوگا نہیں تو آپ یقین جانیئے یہودی اپنے معاہدے پر ثابت قدم نہیں رہیں گے اور کسی نہ کسی بہانے سے  اس معاہدے کو توڑتے رہیں گے، لہذا یہ ڈیل کسی بھی صورت نہ فلسطینیوں کے حق میں ہے اور نہ مسلمانوں کے حق میں ہے، یہ سمجھوتہ ہونہیں سکتا ہے یہ غیر قانونی عمل ہے،یہ پرانا کام کیا ہے انہوں نے،کسی ناجائز اولاد کو برتھ سارٹیفیکٹ دے کر اسکی ولادت کو جائز ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔

برّصغیر کے مشہور و معروف علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والے عالم دین نے یوم القدس کے اثرات و فوائد پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا،دیکھیئے میں اس سلسلسے میں ایک واقعہ نقل کروں تاکہ آپکو اندازہ ہو کہ یوم القدس کا فائدہ کیا ہے، ہمارے یہاں ایک بہت بڑے عالم دین گزرے ہیں مولانا غلام عسکری صاحب قبلہ رحمة اللہ علیہ بانئ تنظیم المکاتب، وہ بمبئی آتے تھے تو وہ تنظیم المکاتب کے نام سے پمفلٹ شائع کرتے تھے کچھ لوگ پمفلٹ پڑھنے کے عادی نہیں تھے وہ پمفلٹ لے کر وہیں پر پھینک دیتے تھے، کچھ لوگوں نے مولانا مرحوم کو خبر دی کہ لوگ آپکا پمفلٹ لیتے ہیں اور پھینک دیتے ہیں؛ کیا فائدہ؟ آپ نے کہا کہ فائدہ ہے! کہا کہ کیا فائدہ؟ کہا کہ جب یہ پمفلٹ لیتے ہیں تو انکے ذہن میں تنظیم المکاتب آتا ہے یا نہیں آتا؟ کہا آتا ہے، تو آپ نے فرمایا میں یہ چاہتا ہوں کہ تنظیم المکاتب انکے ذہنوں میں زندہ رہے، تو یہ یوم القدس جو ہے اسکا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے ذہن میں اور دنیا والوں کے ذہن میں زندہ رہتا ہے، ہم اسکا یہ نہ دیکھیں کہ اسکا کیا فائدہ، فائدہ یہ ہے کہ آج چالیس برس کے بعد بھی یہ یوم قدس زندہ ہے، اگر آج یہ یوم قدس زندہ نہ ہوتا، اور یہ مسئلہ زندہ نہ ہوتا، تو  دشمن کو اس طرح کی ڈیل کی فکریں نہ ہوتیں، یہ ڈیل اسی بنا پر ہورہی ہے کہ یہ مسئلہ زندہ ہے، اور اسکو زندہ رہنا چاہیئے، اور اس وقت تک زندہ رہنا چاہیئے جب تک یہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں پوری طرح سے آنہ جائے، لہذا یہ کام تو ہمکو کرنا ہی چاہیئے، حق کا ذکر بار بار رکھنا چاہیئے:وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ؛آپ یاددہانی کراتے رہیئے آپ ذکر کرتے رہیئے، یہ چیزیں آپ کے لیے مفید ثابت ہونگی،جہاں تک مسئلہ فلسطینیوں کا ہے تو میں آپکی خدمت میں بڑے ہی ادب کے ساتھ  اور معذرت کے ساتھ کہنا چاہونگا کہ یہ سپر طاقتیں یا اسرائیل کی طاقتیں یہ مضبوط طاقتیں نہیں ہیں، مشکل ہماری اپنی کمزوری ہے، ہماری کمزوری نے انہیں مضبوط کیا ہے، ہم نے قرآن مجید کی ان تاکیدات کو بھلا دیا ہے جسمیں ارشاد ہے: وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّـهُ يَعْلَمُهُمْ؛اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن -اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے سب کو خوفزدہ کردو۔[الأنفال۶۰]۔

مولانا نے کہا، ہم نے اپنی طاقتوں کو بجائے مثبت سمت میں لگانے کے  ہم نے منفی فکروں میں لگایا ہے، اور ہماری بڑی طاقتوں نے ہمکو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، ورنہ اس وقت فلسطین  اور اسرائیل جہاں پر واقع ہیں اسکے ارد گرد اتنی مسلمان بستیاں ہیں اور اتنی طاقتور بستیاں ہیں؛ اگر یہ ذاتی اختلافات کو چھوڑ کرکے اس ناسور کو ختم کرنا چاہیں تو اب تک ختم کرچکی ہوتیں، اور انکو بھی سکون مل جاتا، لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب یہ مسلمان طاقتیں  ان اسرائیلیوں سے رابطے برقرار کرتی ہیں، جب اپنے دشمنوں سے مل جاتے ہیں تب مسائل خراب ہوجاتے ہیں؛ اور مسئلہ بھی یہی ہے، بہت پرانی مثال ہے کہ لوہا جب ایجاد ہوا تو درختوں نے کہا کہ ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے کوئی مشکل نہیں ہے کوئی درخت نہیں کٹے گا؛ لیکن جب وہ کلہاڑی بن گئی اور اس کلہاڑی میں لکڑی کا بِینت لگ گیا تو سبکی سمجھ میں آگیا کہ اب ہمارے کٹنے کی باری آگئی؛ کیوں؟ کیونکہ ایک ہمارا ان سے مل گیا ہے۔ تو یہ جو ہماری دوستیاں اسرائیل سے شروع ہورہی ہیں یہ ہمارے لیے زیادہ خطرناک ہیں، اور ہمارے لیے مشکل کیا ہے عالم اسلام کی مشکل کیا ہے کہ یہ دولت کے خزانے پر بیٹھے ہوئے بھی اپنے کو فقیر محسوس کررہے ہیں، انسان جب اپنے کو فقیر محسوس کرتا ہے، جب اپنے کو بھکاری محسوس کرتا ہے تو دینے والے کی ہر شرط کو قبول کرتا ہے، چونکہ یہ ممالک مغربی ممالک کے رحم و کرم کی وجہ سے زندہ ہیں، وہاں سے ایڈ لے رہے ہیں لہذا انکی استقلالی فکر ختم ہوچکی ہے  انکی سوچنے کی صلاحیتیں ختم ہوچکی ہیں، لہذا ان سے کسی طرح کی کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی،

استاد حوزہ علمیہ نے جمہوری اسلامی ایران کی کامیابی و کامرانی اور اسکے استقلال و جوانمردی کی بات کرتے ہوئے کہا، آج وہ ممالک جنہوں نے اپنے استقلال کو برقرار رکھا جسمیں جمہوری اسلامی ایران ہی شامل ہے، جس نے واقعاً چالیس سال کی مشکلات کے باوجود اپنے استقلال کو برقرار رکھا اور استقلال کو اس لیے برقرار رکھا کہ اسکا رابطہ اہل بیت علیہم السلام سے تھا، اہلبیت(ع) نے پورے دور بنی امیہ اور بنی عباس کو جھیلا، مصیبتوں کو جھیلا، لیکن کبھی بھی اپنے اصول و عقائد سے سمجھوتہ نہیں کیا، چونکہ انقلاب اسلامی ایران اہلبیت(ع) کی تعلیمات پر مشتمل ہے اور وہاں سے اسکو الہام مل رہا ہے اور سب سے بڑی بات امام زمانہ(عجل) کی تائید حاصل ہے  اور انکی عنایتیں ہیں اس بنا پر اس نے اپنے استقلال کو محفوظ رکھا ہے اور یہی استقلال آج دنیا کی آنکھوں میں کانٹا بنا ہوا ہے، لیکن ظاہر سی بات ہے کانٹا بنا ہے تو بنا رہے: مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ؛ انکے دل میں کانٹا رہنا چاہیئے لہذا اس وقت جو مسئلہ ہے اس مسئلہ کو زندہ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اپنے بچوں کو اس بارے میں بتائیں۔

انہوں نے واضح کرتے ہوئے بتایا،اور یہ مسلئلہ صرف فلسطین کا نہیں ہے، اس لیے کہ خانۂ کعبہ سعودی کی ملکیت نہیں ہے سعودی کے انتظام میں ہے، لیکن ہے پورے مسلمانوں کا، مدینۂ منورہ ہے سعودی کے انتظام میں؛ لیکن ہے پورے مسلمانوں کا، مسجد اقصیٰ چونکہ پہلا قبلہ ہے ہمارے انبیاء علیہم السلام اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے نماز پڑھی ہے لہذا وہ ہے پورے مسلمانوں کا؛ انتظام فلسطین کا ہے، لہذا ہم اپنے حق سے ذرّہ برابر بھی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں، آج نہیں تو کل یہ نکلیں، ہمیں یقین ہے، آپ یقین جانیئے آج نہیں تو کل ایک دن ضرور آئے گا جب علی(ع) اور زهرا(س) کا فرزند آئے گا حیدر کررار کا وارث آئے گا اور ان لوگوں کو ویسے ہی بھگائے گا جیسے خیبر سے یہودیوں کو بھگایا تھا اور جیسے بقیہ جگہوں سے بقیہ لوگوں کو بھگایا تھا، آپ یقین جانیئے مسلمان اٹھیں یا نہ اٹھیں بیدار ہوں یا نہ ہوں یہ انکا کام ہے لیکن جب علی و زهرا کا لعل حیدر کررار فاتح خیبر کا بیٹا آئے گا تو یقیناً منظر دوسرا ہوگا اور ہمیں ان سب کے لیے تیار رہنا چاہیئے لہذا یہ فلسطین ایک زندہ مسئلہ ہے اور یہ صرف فلسطینیوں کا نہیں پورے مسلمانوں کا ہے اور اسکا زندہ رہنا اور زندہ رکھنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .