تحریر: سویرا بتول
حوزہ نیوز ایجنسی। کسی بھی مفکر کے پیام میں عروسِ معنی کو بے نقاب دیکھنے کے لیےیہ ضروری ہے کہ پہلے اِن جذبات و خیالات کی تہ تک پہنچا جاٸے جن پر اِس کی فکر کی اساس ہے اور اس سرچشمہ سے واقفیت حاصل کی جاٸے جو اِس کی تخیلات کا ماخذ ہے،اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوٸے جب ہم فکرِاقبال کا ماخذ ڈھونڈتے ہیں توہمیں اس کے پیچھےقرآن کی تعلیمات کارفرمادکھاٸی دیتی ہیں۔بلاشبہ اقبال کا کلام کماحقہ سمجھ میں نہیں آسکتا جب تک قرآن کریم نگاہوں کے سامنے نہ ہو۔جو اِس زاویہ نگاہ سےپیغامِ اقبال کو دیکھے گاوہ جہاں ایک طرف یہ محسوس کرے گا کہ قرآن کریم انسان کو کن بلندیوں تک لے جاتا ہے،دوسری طرف یہ بھی دیکھ لے گا کہ اقبال قرآن کے اِن حقائق کو کس خوبصورتی سے ایک شعر میں حل کرکے رکھ دیتے ہیں۔بقول مولانا ابو الاعلی مودودی:
وہ (اقبال)جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا،جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا ہے۔حقيقت اور قرآن اُس کے نزدیک شے واحد تھے۔
(بحوالہ "جوہر" صفحہ٦٦)
قرآن حکیم نے علم کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ سمع، بصر اورقلب کی شہادت سے حاصل ہوتا ہے اور ان ذرائع سے کام نہ لینے والے کے لیے قرآن میں نہایت سخت الفاظ ہیں;
لھم قلوب لا یفقھون بھا و لھم اعین لایبصرون بھا ولھم اذان لا یسمعون بھااولیک کالانعام بل ھم اضل
وہ لوگ جو دل و دماغ رکھتے ہیں لیکن اِن سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے،آنکھیں رکھتے ہیں لیکن اِن سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے،کان رکھتے ہیں لیکن اِن سے سننے کا کام نہیں لیتے تو یہ بالکل چوپاٸے ہیں بلکہ اِن سے بھی گٸے گزرےاور اِن سے زیادہ بے راہ رو ہیں۔
اقبال علم کی اس قرآنی تعریف کے متعلق فرماتے ہیں کہ;
جہاں را جز بہ چشمِ خود ندیدم
چشمِ خود سے متعلق ضربِ کلیم میں ہے;
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں تیرے نورِسحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیماٸے قمرسے
دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے
اغیار کے افکار و تخیل کی گداٸی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی
اس نظامِ کاٸنات میں انسان کی صحیح حیثیت کیا ہے،اسے سب سے پہلے قرآن حکیم ہی نے متعین کیا ہے۔یہ اعلان ہوا کہ;
وسخرلکم مافی السموات وما فی الارض جمیعا
(جو کچھ زمین و آسمانوں کے اندر ہے،جو کچھ کاٸنات کی پستیوں و بلندیوں میں ہے اُس(اللہ)نے اِن سب کو تمہارے لیے تابع فرماں کر رکھا ہے)
اور اقبال یوں فرماتے ہیں;
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کےلیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
اقبال فرد کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ:
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحر بے پایاں بھی ہے
کیوں گرفتارِ طلسم ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے
ہفت کشورجس سے ہو تسخیربےتیغ و تفنگ
تو اگرسمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
اور یہ وہ فرد ہے جس کے متعلق ارشاد باری تعالی ہے
ولا تھنوولا تحزنو و انتم الاعلون ان کنتم مومنین
مت گھبراٶ،مت خوف کھاٶ۔تم دنیا میں سب سے بلند ہو بشرطیکہ تم مومن بن جاٶ۔
یہ زمین و آسماں مومن ہی کی میراث ہے جسے اقبال کہتے ہیں:
عالم ہے فقط مومن جانبازکی میراث
مومن جو نہیں صاحبِ لولاک نہیں
حاصل الکلام یہ کہ اقبال کے تمام تر افکار و نظریات کا سرچشمہ وماخذ کلامِ الہی ہے۔اِن کے اشعار میں ہر جگہ قرآنی روح دوڑتی نظر آتی ہے جبھی تو ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم یہ کہتے دیکھاٸی دیتے ہیں کہ;
اقبال قرآن کا شاعر اور شاعر کا قرآن ہے۔