۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
آیت اللہ محقق داماد

حوزہ/ ایران کے فرھنگستان علوم کے شعبہ اسلامی ریسرچ کے سربراہ آیت اللہ محقق داماد نے ادیان کے مابین گفتگو کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: قرآن میں لفظ احتجاج، گفتگو اور مذاکرے کے معنوں میں  آیا ہے اور مقصود اس کا یہ ہے کہ اس طرح اتمام حجت ہو کہ مد مقابل مبہوت ہوکر رہ جائے یعنی یہ کہ مد مقابل اس طرح سکوت اختیار کرلے کہ جو کچھ بھی کہا گیا ہے اس نے اسے قبول کرلیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ایران کے فرھنگستان علوم کے شعبہ اسلامی ریسرچ کے سربراہ آیت اللہ محقق داماد نے ادیان کے مابین گفتگو کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: قرآن میں لفظ احتجاج، گفتگو اور مذاکرے کے معنوں میں  آیا ہے اور مقصود اس کا یہ ہے کہ اس طرح اتمام حجت ہو کہ مد مقابل مبہوت ہوکر رہ جائے یعنی یہ کہ مد مقابل اس طرح سکوت اختیار کرلے کہ جو کچھ بھی کہا گیا ہے اس نے اسے قبول کرلیا ہے۔

آیت اللہ سید مصطفی محقق داماد نے کہا کہ اسی سلسلے میں چھٹی صدی میں مرحوم شیخ طبرسی نے الاحتجاج نام کی ایک کتاب لکھی تھی جس میں پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور ائمہ اطہار علیھم السلام  کے ان مناظروں  کا تذکرہ تھا جو انھوں نے تمام دوسرے مذہب کے پیروؤں یا حتی کہ اہل اسلام سے کئے تھے۔ 

انہوں نے یہ بھی کہا کہ گفتگو کے باب میں ایک دوسرا پہلو، مباحثہ کا ہے  جو ابتدا میں خود ہمارے درمیان شروع ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ شیعوں کے اعلی دینی  مداراس یا حوزہ ھائے علمیہ میں یہ بہترین روش میں سے ایک ہے جو ہمیں اہل سنت کے تمام دوسرے مسالک کے مدرسوں میں کہیں بھی نظر نہیں آتی  ۔ 

آیت اللہ محقق داماد نے یہ بھی کہا کہ ایک گھنٹے کا مباحثہ کئی سال کے مطالعے سے بہتر ہوتا ہے۔ پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کے ایک سربرآوردہ شخص نے 12 جلدوں کی ایک کتاب میں مناظرے اور اس کے اجراء کے طریقوں پر بحث کی تھی۔ 

انہوں نے اس بات کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں ادیان کے مابین گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان جنگ و جدل ہو  بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک دوسرے کو درک کرسکیں یا جسے انگریزی میں کہتے ہیں understanding each other یعنی میں اسے سمجھ لوں اور وہ میری بات سمجھ  جائے۔ 
 آيت اللہ محقق داماد نے اپنے خطاب میں کہا کہ قرآن مجید نے ہمیں اسی اصول کا سبق دیا ہے جبکہ بدقسمتی سے ہم اس پر عمل نہیں کرتے۔ خدائے واحد نے آیہ «قُل يا أَهلَ الكِتابِ تَعالَوا إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وَبَينَكُم» میں ادیان ابراہیمی یعنی مذاہب توحیدی کی پیروی کرنے والوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے مشترکہ عقیدے یعنی توحید پر تکیہ کریں۔

انھوں نے کہا کہ توحید ہی وہ مشترکہ نقطۂ نظر ہے جس پر اتفاق ممکن ہے اورصرف اسی طرح اتحاد توحیدی ، بین الاقوامی شرک کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ انھوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس دعوت کا مطلب یہ ہے کہ ہم دوسروں کے مختلف انداز فکر کے احترام کے قائل رہیں۔ ہمارے لئے قرآن محید نے اس بات کو فرض قراردیا ہے جس پر بدقسمتی سے ہم نے عمل نہیں کیا۔ 

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ادیان کے مابین گفتگو میں گفتگو کا لفظ اس تصور سے رکھا گیا ہے کہ ہم مد مقابل کی اہمیت کے اس طرح قائل ہوں کہ دوسروں کو بھی غور و فکر کرنے کا موقع دیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں گفتگو شروع کرنے کا ہی کوئی حق نہیں ہے۔ 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .