۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ارتباط تصویری جمعی از مداحان اهل‌بیت(ع) با رهبر معظم انقلاب

حوزہ/ صدیقۂ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ کے روز بعض ذاکروں اور شعراء و مداحان اہلبیت سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں حضرت فاطمہ زہرا کو عورت، ماں اور بیوی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا سب سے اعلی عملی نمونہ قرار دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی افکار و نظریات میں انسان کی فکری و روحانی پرورش کا سب سے بنیادی ستون، گھرانے میں پایا جاتا ہے اور اسی مرکز میں تمام میدانوں میں عورت کی حقیقی پیشرفت کا راستہ فراہم ہوتا ہے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت، یوم خواتین و یوم مادر اور اسی طرح امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے یوم پیدائش نیز جشن انقلاب کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی اور ان کی غم گسار، حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ و کفو اور چار درخشاں ستاروں کی والدہ نیز پیغمبر عظیم الشان کی نسل کے سلسلے کے نقطۂ آغاز کی حیثیت سے ان کے نمایاں کردار کی طرف اشارہ کیا اور کہا: حضرت صدیقۂ طاہرہ کو اپنی حیات میں مختلف نشیب و فراز، بے نظیر امتحانوں اور متعدد مصائب کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ زندگي کے تمام میدانوں میں جیسے بیوی اور ماں کے کردار، گھر کے امور، بچوں کی پرورش، اللہ کی راہ میں جہاد، نیکیوں کا حکم دینے، برائیوں سے روکنے اور خدا کی عبادت اور بندگي جیسے امور میں ہمیشہ اوج پر رہیں اور انھوں نے دکھا دیا کہ ایک عورت عصمت کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو سکتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے حضرت فاطمہ، حضرت علی اور ان کی گرانقدر اولاد کو ایک اسلامی گھرانے کا اعلی ترین نمونہ قرار دیا اور کہا کہ ان کی ہمراہی، ہمدلی، اخلاص اور مجاہدت کو نمونۂ عمل بنا کر اسلامی معاشرے کو اوج پر پہنچایا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ  بعض اوقات کچھ معاملوں میں دل مضطرب ہو جاتے ہیں لیکن پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اسلامی نظام میں اہلبیت علیہم السلام سے محبت، ان کی ہمراہی اور ان کی خالصانہ مجاہدت کے اثرات پوری طرح سے نمایاں ہیں اور رضاکاری کے جذبے کا فروغ، ایٹمی شہیدوں کی نام و نمود سے دور خدمات، ثقافتی اور علمی و سائنسی میدانوں میں جہادی گروہوں اور ہزاروں نوجوان گروہوں کی کوششیں اور اسی طرح کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران پیرا میڈیکل ٹیموں کی جاں فشانی در حقیقت، اسی جامع نقشے کی پیروی ہے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عورت کے بارے میں اسلام اور مغرب کے نظریات میں بنیادی فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عورت کے بارے میں اسلام اور اسلامی جمہوریہ کا نظریہ، عزت و احترام پر مبنی ہے جبکہ مغرب میں رائج نظریہ، عورت کو وسیلہ اور سامان سمجھتا ہے۔

انھوں نے فرمایا کہ اسلام میں الہی و انسانی اقدار کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئي فرق نہیں ہے البتہ مشترکہ ذمہ داریوں کے ساتھ ہی عورت اور مرد کی اپنی کچھ مخصوص ذمہ داریاں بھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم نے ان ذمہ داریوں کے حساب سے ان کے جسم کی تخلیق کی ہے۔
آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ہم اسلام کے اس نظریے پر فخر کرتے ہیں اور عورت اور طرز زندگي کے بارے میں مغرب کے نظریے پر سراپا احتجاج ہیں۔

انھوں نے اسلام اور حجاب کو عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتانے کے مغرب والوں کے پروپیگنڈوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سفید جھوٹ ہے اور اس کے غلط ہونے کی واضح دلیل، اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین کی پوزیشن ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران میں تاریخ کے کسی بھی دور میں اس حد تک پڑھی لکھی اور مختلف سماجی، ثقافتی، ہنری، علمی، سیاسی اور معاشی میدانوں میں سرگرم خواتین موجود نہیں رہی ہیں اور یہ سب اسلامی جمہوریہ کی برکت ہے۔

انھوں نے مقدس دفاع اور دفاع حرم اہل بیت کے شہیدوں کی ماؤں اور بیویوں کے لازوال اور بے نظیر کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ افسوس کہ ان عظیم خواتین کے بارے میں فن اور آرٹ کے شعبے میں اتنا کام نہیں ہوا ہے جتنا ہونا چاہیے تھا اور ابھی اس سلسلے میں کافی گنجائش پائی جاتی ہے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خواتین کے سلسلے میں اسلام کے نظریے کو، گھرانے اور ماں کے کردار کو مرکزیت عطا کرنے والا قرار دیا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ فکری و روحانی پرورش کے سب سے مضبوط ستون اور اپنائیت کا سب سے حقیقی ماحول گھرانے میں تشکیل پاتا ہے، کہا کہ مغرب کی پروپیگنڈہ مشینریاں اور کچھ مغرب زدہ افراد، گھرانے میں ماں کے مرکزی کردار کے رنگ کو پھیکا کرنے یا ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے گھریلو خواتین کے مقام اور گھرانے میں ان کے خصوصی کردار کے احترام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صحیح وقت پر شادی اور بچوں کی پیدائش کے موضوع کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ یہ دونوں موضوعات ملک کے آج اور کل کی اہم ضرورتوں میں سے ہیں اور ذاکروں نیز مداحان اہلبیت کو ایک بڑے ابلاغیاتی شعبے کی حیثیت سے ان کی ترویج میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں ذاکروں کے کام کو ایک منفرد کام بتایا اور کہا کہ اس فن میں شعر، نغمہ پردازی، بات کو سننے والوں کے دلوں کی گہرائیوں تک اتارنے والی اچھی آواز اور اسی طرح  فکر، محبت، اسلامی و تاریخی معلومات نیز سماجی و عالمی حالات کی اطلاع ضروری ہوتی ہے اور ذاکروں اور مداحان اہلبیت کے کام کا موضوع، سب سے اعلی موضوعات میں سے ایک ہے یعنی اہلبیت علیہم السلام کی مدح و ثنا اور حیات نبوی، علوی و فاطمی کے آئيڈیل کو فروغ دینا اور ان بزرگان کے افکار کو رائج کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انتقال کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دو طوفانی خطبوں کی طرف اشارہ کیا جن میں اسلامی مفاہیم اور اصولوں سے انحراف پر شدید احتجاج اور انتباہ کے باوجود ایک بھی اہانت آمیز  لفظ کا استعمال نہیں کیا گيا اور انتہائي ٹھوس اور متین الفاظ استعمال ہوئے۔ آپ نے فرمایا: مکتب اہلبیت علیہم السلام، بغیر علم کے بات کرنے، غیبت، تہمت، بدگوئي اور بدزبانی سے مبرا ہے اور ذاکروں اور اہلبیت علیہم السلام کے مداحوں کو بھی زبان اور عمل سے یہی چیزیں عوام کو سکھانی چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر سے پہلے ملک کے مختلف صوبوں کے آٹھ ذاکروں اور مداحان اہلبیت نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں اشعار پڑے اور ان کے فضائل بیان کیے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .