حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سید جعفر حسین،ایڈیٹر روزنامہ صدائے حسینی حیدرآباد دکن نے عید الاضحی کے مناسبت سے کہا کہ عید قربان سنت ابراہیمی ہے جو ایک باپ کا اپنے لخت جگر کو راہ خدا میں قربان کرنا، ایسا ایثار و قربانی کا جذبہ تب ہی موجود ہوتاہے جب خالق کائنات پر انسان کو یقین ہو۔
یہ ایک باپ کا اپنے بیٹے کو اس عالم ضعیفی میں قربان کرنا، یہ فقط جذبہ عشق ہے، ورنہ لوگ رقم تک خدا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں، تو اپنی اولاد کیسے قربان کریں گے، جب کہ یہ مال و دولت خدا ہی کی عطا کردہ ہے۔
سنت ابراہیمی کی عملی صورت اور خدا سے عشق کا اگر کوئی تلاش میں ہے تو اسے نواسہ رسول اللہ (ص) حضرت امام حسین(ع) کی بنائی ہوئی کربلا کو دیکھنا ہوگا، جہاں وہ اپنے گود کے پالوں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرتے ہیں، اسی لیے سنت ابراہیمی کی یاد کے ساتھ وارث حضرت ابراہیم (ع) حضرت امام حسین(ع) کی یاد کو بھی منانا ضروری ہے، ورنہ انبیاء(ع) کی سنت محفوظ نہیں رہ سکتی۔
کربلا کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، عشق کی معراج کربلا ہے۔
شیخ الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پر ہر انسان کو غور و فکر کرنی چاہئے، جنہوں نے خدا کے وجود کو دلائل کی بنیاد پر بچپن ہی سے ثابت کرتے رہے، اسی ادا کو خدا نے پسند کرتے ہوئے انہیں کی آل میں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔
حضرت اسمعٰیل علیہ السلام بھی اپنے باپ کی تدبیر کو پورا کرنے پر آمادہ ہوئے، جو باپ کی تعلیم کا اثر تھا۔
لوگ عید قربان کو رسمی طور پر مناتے ہیں اور اصل مقصد سنت ابراہیمی جو خدا کی محبت میں سب کچھ لٹانا ہے یہ بھول جاتے ہیں، جانور کو ذبح تو کیا جاتا ہے پر خواہشات نفسانی کو قابو نہیں کرتے اپنی دولت میں خاندان والوں کو شامل نہیں کرتے اور نہ انکی مدد کرتے ہیں۔
کرونا وائرس نے ترقی یافتہ ممالک کی پول کھول کر رکھ دی ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(WHO) کے فرمان پر حکومت کام کر رہی ہے اور تمام مذاہب کے عبادات اور رسومات پر پابندی لگائی ہوئی ہے، جبکہ عبادتوں ہی کے ذریعے تمام وبا کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، جب تک روح مضبوط نہیں ہوتی جسم میں کچھ نہیں کرسکتا، کرونا وبا کے نام پر سنتوں کو فراموش نہ کریں، ایمان کی مضبوطی کے لئے شیخ الانبیاء(ع) کی سیرت کا مطالعہ ضروری ہے کورونا کے مریضوں کے لئے الگ رقم رکھیں اور قربانی کےلئے الگ سنت ابراہیمی ک زریعے ھی جزبہ ایثار باقی رہیگا۔ورنہ انسان بہانہ بازی می ماہر ہوتا ہے