۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حجت الاسلام شیخ رضا صالحی

حوزہ/ خدا کے حقیقی بندوں کا وزن امتحان جتنا بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی ان کی معرفت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجمع طلاب شگر قم کی جانب سے محرم الحرام ۱۴۴۳ھ کی ساتویں مجلس سے حجت الاسلام شیخ رضا صالحی نے "انسانی زندگی میں مصائب و مشکلات کے موضوع پر مفصل روشنی ڈالی۔

مولانا موصوف نے "و بشر الصابرين الذين اذا اصابتھم مصیبہ قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون."آیت کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا کہ مصیبت کی دو قسمیں ہیں؛
 

۱۔ مصبیت عام: جو عموما انسانی غلط کرادارکے نتیجے میں پیش آتی ہے جیسے جواری کا مفلس ہوجانا شراب خوار کا اپنی صحت کھو بیٹھنا وغیرہ

۲۔مصیبت خاص: خدا کی طرف سے کسی بندے کا امتحان ہونا۔ 

یہ مصیبت خدا کے مخصوص بندوں کو پیش آتی ہے جیسا کہ حدیث میں بے آیا ہے "البلاء موکل علی الأنبياء ثم الاوصیاء ثم الامثل فالامثل" یعنی پہلے مقام امتحان میں انبیاء آتے ہیں پھر اولیاء و اوصیاء ان کے بعد جو ان کے مثل ہوتے ہیں۔ خدا کے برگزیدہ بندے ہجوم مصائب میں صبر تحمل سے کام لیتے ہیں اور امتحان کا وزن جتنا بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی ان کی معرفت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

انسان دو وقتوں میں خدا کو بھول جاتا ہے

1۔ انتہائی عیش میں
2۔ انتہائی تکلیف میں

انتہائی عیش میں بھول جانے والے بہت زیادہ ہیں،انتہائی تکلیف میں بھول جانے والے بہت ہی کم ہے، مصیبت انسان کے سخت دل کو نرم بناتی ہے پچھلی غلط کاریوں سے بچنے کےلئے عبرت ہوتی ہے بسا اوقات خدا کی طرف سے ہٹاہوا دل خدا کی طرف واپس آتا ہے۔

انبیاء علیہم السلام جو مصائب نازل ہوئے وہ وقتی تھے، امتحان اور مصیبت ختم ہوتے ہی غم خوشی سے اور مصیبت راحت سے بدل جاتی ہے۔

انہوں نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام سےلیکر حضرتِ عیسیٰ مسیح تک سارے انبیاء الہی مختلف مصیبتوں اور مشکلات میں گرفتار ہوئے لیکن انکے امتحانات وقتی تھے جب اس امتحان سے سرخرو نکلےتو انکی مصیبتیں اور مشکلات خوشی اور راحت کی زندگی میں بدل گئ پھر خاتم الانبیاء پیغمبر اسلام کو ایسی اذیتیں اور مبصبتیں پہنچی کہ جو کسی نبی کو پہنچی تھیں پہر جب امامت کا سلسلہ شروع ہوا تو امام المتقین امیر المومنین۔علیہ السلام پھر امام حسن علیہ السلام کی زندگی بھی مصائب وآلام سے پر دکھائی دیتی ہے یہاں تک کہ نوبت امام حسعلیہ السلام تک پہنچی تو انکی مصیبت کا اندازہ نہیں کیاجاسکتا اور کسی دوسری مصیبت سے قابل مقایسہ نہیں ہے انکی دامن کو آدم سے لیکر ختم المرسلين تک تمام انبیاء و مرسلین کے مصائب نے گیر لیا تھا کیونکہ انہیں ان تمام انبیاء کے فلسفہ بعثت کو بچانا تھا اور سب امتحانات سے پوری کامیابی کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کو گزرنا تھا اور یہ بشارت سننی تھی "و بشر الصابرين الذين إذا اصابتھم مصیبہ قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون" .

انہی کلمات کے ساتھ شہادت حضرت شہزادہ قاسم لختِ جگر امام حسن کا تزکرہ کیا۔اور نوحہ خوانی کے ساتھ مجلس اپنے اختتام کو پہنچی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .