حوزہ نیوز ایجنسیl
آٹھویں دن کی دعا:اَللّهُمَّ ارْزُقْني فيہ رَحمَةَ الأَيْتامِ وَاِطعامَ الطَّعامِ وَاِفْشاءَ السلام وَصُحْبَةَ الكِرامِ بِطَوْلِكَ يا مَلْجَاَ الأمِلينَ؛اے معبود! مجھے اس مہینے میں توفیق عطا کر کہ یتیموں پر مہربان رہوں، اور لوگوں کو کھانا کھلاتا رہوں، اور بزرگوں کی مصاحبت کی توفیق عطا کر، اپنی عطا کے واسطے اے آرزومندوں کی پناہ گاہ۔
حل لغات : یتیم :-عربی میں" یتم " اکیلے پن کو کہتے ہیں اسی لئے موتی کو یتیم کہتے ہیں کیونکہ وہ سیپ میں اکیلا ہوتا ہے درہ یتیمہ یعنی بیش قیمت موتی۔یتیم یعنی وہ نا بالغ بچہ جس کا باپ مرجائےاورعربی میں جس جانور کی ماں مرجاتی ہے اسکو بھی یتیم کہتے ہیں۔
اَللّهُمَّ ارْزُقْني فيہ رَحمَةَ الأَيْتامِ:اے اللہ اس مہینہ میں مجھے توفیق دے کہ یتیموں پر مہربان رہوں۔
کیا پیاری دعا ہے اگر یتیم کو بروقت شفقت مل جائے تو واقعی وہ قیمتی موتی بن سکتا ہے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿سورة البقرة١٧٧﴾؛نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لو نیکی یہ ہے جو اللہ اور روز آخرت اور اسکے فرشتوں اور اسکی کتاب اور تمام پیغمبروں پر ایمان لائے اور اسکی محبت میں رشتہ داروں یتیموں مسکینوں اور مسافروں میں مال دے.....۔
ایمان کے بعد ایتام پر احسان ہی ایمان کا کمال ہے جس طرح زنجیر کی ایک کڑی بھی کمزور یا ٹوٹی ہوئی ہو تو اپنی افادیت کھو دیتی ہے اسی طرح سماج کا ہر طبقہ جب مضبوط ہوگا تو ترقی کرے گا ورنہ نہیں - طلاق بیوگی یتیمی معذوری دکھ غربت اور افلاس ہر سماج کا حصہ ہیں حصہ ہیں تو مسئلہ بھی ہیں اسلام نے انہی مسائل کے حل کے لئے خمس اور زکات کے سسٹم کو متعارف کرایا ہے خمس عالیشان مساجد لمبے چوڑے عزاخانے اور بڑے بڑے اداروں کے قیام کے لئے نہیں ہے بلکہ بھوکے کو کھانا مل جائے ننگے کو کپڑا مل جائے بے گھر صاحب گھر ہو جائے مسافر اپنے وطن لوٹ جائے اور تعلیم جو بچے کا پیدائشی حق ہے وہ مل جائے اور بس۔
بد حال لوگوں کے چہروں کی رنگت اڑی جارہی ہے اور آپ سنگ و خشت کی رنگ کاری میں لگے ہوئے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ ہم کس اسلام کو فالو کررہے ہیں-حکومتیں دفاع کے نام پر بجٹ کا وافر حصہ اسلحہ جات کی خریدی میں لگاکر ملکوں کو کمزور کررہی ہیں اور ہم نماز اور مجالس کے نام پر بڑی بڑی مساجد اور عزاخانے بنواکر ملت کا خون چوس رہے ہیں۔
عالیشان عزاخانہ؛پریشان عزادار
ایک قصبہ میں ہم گئے جہاں کی ابادی مشکل سے سات سو مومنین پر مشتمل تھی اور چالیس سے زائد عزاخانے دیکھے جو مال خمس سے بنے ہیں اور مومنین کی اکثریت مفلوک الحال ہے یہ صرف ہندوستان کی بات نہیں ہے امریکہ کے ایک شہر میں آٹھ بڑی بڑی امام بارگاہیں ہیں جو پیدل کی مسافت پر واقع ہیں اور ہر ادارے کے پاس توجیہات و تاویلات کا ایک دفتر ہے۔
ایک شخص نے رسول اللہ)ص) سے آکر اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو رسول اللہ ص نے پوچھا کیا تو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو ؟ اسنے کہا ہاں یا رسول اللہ تو رسول(ص) نے فرمایا جا کسی یتیم پر رحم کر۔
آج ہمارے دل سخت ہو چکے ہیں ہماری توجہ اصل چیزوں سے ہٹ چکی ہے ضرورت ہو تو مساجد اور امام باڑے خون کے گارے سے بنیں لیکن اپنی انا کی تسکین کے لئے وجوہات شرعیہ کا بے دریغ استعمال آخرت کی جواب دہی سے سبک دوش نہیں کرسکتا۔
آج افغانستان عراق شام لیبیا فلسطین کشمیر اور روہنگیا میں کروڑوں بچے یتیم ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کی مدد کے محتاج ہیں اپنے شہر اور اپنے ارگرد نہ جانے کتنے یتیم اور افلاس کے مارے ہیں جنکو اولیت دینی چاہئیے تو آئیے کم سے کم انہیں اپنی دعاؤں میں شامل کریں۔
زمانہ جاہلیت میں یتیم کو اسکے باپ کی جائیداد سے محروم کردیا جاتا تھا رسول(ص) نے پہلے ان کی ذہن سازی کی یتیم کے سر پر دست شفقت پھیرنے کو جنت میں اپنے ساتھ معیت کا انہیں مزدہ سنایا پھر برے انجام سے ڈرایا مجرم کے اندرون کو جھنجھوڑا جرم کی سنگینی کا نقشہ کھینچ کر بتایا نتائج سے آگاہ کیا:إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ﴿سورة النساء١٠﴾جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ در اصل اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں۔۔۔۔۔
اور آج کی اس دعا میں اطعام طعام افشائے سلام اور صحبت کرام یعنی بزرگوں کی صحبت کی توفیق طلب کی گئی ہے اطعام طعام میں مالی اور سماجی پہلو ہے جبکہ افشائے سلام اور صحبت کرام میں اخلاقی پہلو مضمر ہے اسلام نے لوگوں کو کھانا کھلانے پر بہت زور دیا ہے شادی کا ولیمہ حج کا ولیمہ ختنہ اور عقیقے کا کھانا اسکی دلیل ہے اور آج کل مکان کا ولیمہ زور و شور کے ساتھ رواج پارہا ہے جو ایک امر مستحسن ہے۔
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿سورة الانسان٨﴾إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿سورة الانسان٩﴾؛اس آیت کریمہ میں دو باتیں قابل غور ہیں:ایک "علی حبہ " یعنی اسکی محبت میں؛دوسرے" لوجہ اللہ " یعنی اللہ کی خوشنودی کے لئے۔
علی حبہ میں یہ نکتہ پوشیدہ ہے کہ ہر چند اہل بیت(ع) کو خود کھانے کی ضرورت تھی مگر انہوں نے دوسروں کو ترجیح دی خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلانا یہ اہلبیت(ع) کی شان ہے اور لوجہ اللہ میں یہ نکتہ ہے کہ اطعام طعام اللہ کے لئے ہو لوجہ الناس نہ ہو یعنی دولت کی نمائش کے لئے نہ ہو۔
اللہ ہمیں دعا پڑھنے والی نہیں دعا کو سمجھنے والی قوم بنائے۔ آمین
تحریر: سلمان عابدی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔