۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
نویں دعا

حوزہ/کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو جانوروں کی حرکت پرندوں کی آواز بارش سے پہلے کی گھٹاؤں اور طوفان سے پہلے کی ہواؤں سے جان لیتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے لیکن اللہ کی نشانیاں انہیں دکھائی نہیں دیتیں۔

حوزہ نیوز ایجنسیl 
نویں دن کی دعا:اَللّهُمَّ اجْعَل لي فيہ نَصيباً مِن رَحمَتِكَ الواسِعَة وَاهْدِني فيہ لِبَراهينِكَ السّاطِعَة وَخُذْ بِناصِيَتي إلى مَرْضاتِكَ الجامِعَة بِمَحَبَّتِكَ يا اَمَلَ المُشتاقينَ؛اے معبود! میرے لئے اس مہینے میں اپنی وسیع رحمت میں سے ایک حصہ قرار دے، اور اس کے دوران اپنے تابندہ برہانوں سے میری راہنمائی فرما، اور میری پیشانی کے بال پکڑ کر مجھے اپنی ہمہ جہت خوشنودی میں داخل کر، تیری محبت کے واسطے اے مشتاقوں کی آرزو۔
حل لغات :- رحمت یعنی نرم دلی چونکہ نرم دلی کا نتیجہ مغفرت ' احسان اور عفو و کرم ہے اس لئے رحمت سے مراد مغفرت ' بخشش ' احسان ' عفو  اور کرم  ہے اور یہ معنی صرف اللہ کے لئے ہیں انسانوں کے لئے لفظ " رحمت " یا لفظ" رحم " نرم دلی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔
اَللّهُمَّ اجْعَل لي فيہ نَصيباً مِن رَحمَتِكَ الواسِعَة:اے اللہ میرے لئے اس مہینے میں اپنی وسیع رحمت میں سے ایک حصہ قرار دے۔
اتنی بڑی رحمت ہے تیری وسعت کل شئ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اس میں سے ایک حصہ میرے لئے بھی مخصوص کردے؛

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی 

دعا کی لفظوں پہ غور کیجئیے؛رحمت ،ہدایت،محبت،اشتیاق،آرزو؛
پوری دعا گویا عجز اور عشق سے لبریز ہے جی ہاں رحمان و رحیم سے طلب رحمت ہی کمال عبدیت ہے ماہ مبارک کا پہلا عشرہ آپ جانتے ہیں" عشرہ رحمت " کہلاتا ہے امام سجاد صحیفہ سجادیہ کی اکتالیسویں دعا میں فرماتے ہیں:وَ أَفْرِشْنِی مِهَادَ کَرَامَتِکَ، وَ أَوْرِدْنِی مَشَارِعَ رَحْمَتِکَ؛اے اللہ میرے لئے اعزاز و اکرام کی مسند بچھادے اور مجھے اپنی رحمت کے سرچشموں پر اتار دے۔
تو ماہ مبارک کا عشرہ اولی "عشرہ رحمت " ہے اور  عشرہ رحمت ہی اللہ کی رحمت کا سرچشمہ ہے جس پر اس رحمان و رحیم نے ہمیں اتار دیا ہے بس اس کی رحمت کو سمیٹنے کے لئے صرف دو چیزوں کی ضرورت ہے:(1) کاسہ دل ٹیرھا نہ ہو ؛یامشکیزہ دل میں کوئی سوراخ نہ ہو ۔(2) رحمت کے متحقق ہونے کے اسباب کا عرفان ہو۔
قرآن مجید کہتا ہے 
 أَطِيعُوا اللَّهَ وَ الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ؛اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے[سوره آل عمران132]
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا ﴿سورة النساء١٧٥﴾جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اسکو مضبوط پکڑا تو انہیں اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور اپنے تک ان کو سیدھا راستہ دکھائے گا۔
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ ﴿سورة الأعراف١٥٦﴾میری رحمت سب چیزوں سے وسیع ہے لیکن وہ رحمت ان کے لئے لکھوں گا جو ڈرتے ہیں جو زکات دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
معلوم ہوا ایمان اطاعت تقوی اور ایتائے زکات  اسباب نزول رحمت ہیں یعنی ایمان مضبوط ہو اطاعت خالص ہو خوف صرف اللہ کا ہو اور رسائی اس کے بندوں تک ہو تو دعا کے لئے ہاتھ پھیلا دو امیرالمومنین(ع) نے امام حسن(ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:


عرش اور فرش کے خزانوں پر
جس کا قبضہ ہے اے مرے دلبر

اس نے اذن طلب ہے تم کو دیا
استجابت کا زمہ بھی ہے لیا

مانگنے پر تمہیں کیا مامور
تاکہ درخواست کو کرے منظور

درمیاں اپنے اور تمہارے پسر
اس نے درباں نہیں بٹھائے پسر 

اور برائی میں یہ حساب رکھا
ایک کو ایک ہی شمار کیا 

اور نیکی میں یہ کیا اس نے 
ایک کو دس بنادیا اس نے 

اس نے پھر دے کے تم کو اذن دعا
رحمتوں کے خزانے کی بیٹا

کنجیاں دیدی ہیں تمہیں دلبر
کھول لو ان سے رحمتوں کے در

اس کی رحمت کے جھالے برسالو
بیٹا جب چاہو اس کو منوالو 

وَاهْدِني فيہ لِبَراهينِكَ السّاطِعَة:اور اپنے تابندہ برہانوں سے میری رہنمائی کر۔
مخفی برہان نہیں کہا "برہان ساطعہ" یعنی تابندہ نشانی کہا دنیا والے اپنا سائن بورڈ کھلی جگہ پر لگاتے ہیں تاکہ سب کو دکھائی دے اللہ نے اپنے سائن بورڈ انفس و آفاق میں لگادئیے ہیں پھر دکھائی کیوں نہیں دیتے؟
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو جانوروں کی حرکت پرندوں کی آواز بارش سے پہلے کی گھٹاؤں اور طوفان سے پہلے کی ہواؤں سے جان لیتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے لیکن اللہ کی نشانیاں انہیں دکھائی نہیں دیتیں قرآن کی چیخ و پکار کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا؛ امیرالمومنین نے فرمایا:صبح روشن ہوچکی ہے آنکھ والے کے لئے۔ 
اے اللہ اس مہینے میں تو ہماری آنکھیں کھول دے۔
وَخُذْ بِناصِيَتي إلى مَرْضاتِكَ الجامِعَة:اور میری پیشانی کے بال پکڑ کر مجھے اپنی ہمہ جہت خوشنودی میں داخل کر۔
دعا کرتے کرتے بندہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اس کے وجدان پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی ہے؛ عشرہ رحمت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے صرف ایک دن رہ گیا اس لئے چیخ رہا ہے چلا رہا ہے اپنی قوتوں کو اس کے سپرد کر رہا ہے؛ اے اللہ میری پیشانی کے بال پکڑ لے؛ جس طرح درد سے کراہتا مریض اپنے ڈاکٹر سے کہتا ہے میرے ہاتھ پاؤں باندھ دو اور اس مرض سے جلدی میری جان چھڑاؤ۔
اے اللہ اب میں دنیا اور اسکی چالبازیوں اور مکاریوں سے تنگ آگیا ہوں میری پیشانی کے بال پکڑ کر مجھے اپنی بے پناہ خوشنودی میں داخل کر۔ آمین

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .