۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ماہ صیام کے گیارہویں دن کی دعا

حوزہ/اگر نیکی کسی کی نگاہ میں محبوب ہے تو اس کا مطلب ہے اس کی فطرت پٹری پر ہے،احسان اور عصیان یعنی نیکی اور بدی عالم شرع کے مشرق و مغرب ہیں انسان ایک سے جتنا نزدیک ہوتا جائے گا دوسرے سے اتنا ہی دور ہوتا جائے گا۔

حوزہ نیوز ایجنسیl 
گیارہویں دن کی دعا:اَللّهُمَّ حَبِّبْ اِلَيَّ فيہ الْإحسانَ وَكَرِّهْ فيہ الْفُسُوقَ وَالعِصيانَ وَحَرِّمْ عَلَيَّ فيہ السَخَطَ وَالنّيرانَ بعَوْنِكَ ياغياثَ المُستَغيثينَ؛اے میرے معبود! اس مہینے میں نیکی اور احسان کو میرے لئے پسندیدہ قرار دے، اور برائیوں اور نافرمانیوں کو میرے لئے ناپسندیدہ قرار دے، اور اپنی ناراضگی اور بھڑکتی آگ کو مجھ پر حرام فرما، اپنی فریادرسی کے واسطے، اے فریادیوں کے فریاد رس۔
حل لغات :- نار مؤنث اور مذکر یعنی جلادینے والی حرارت  آگ  جمع  نیران،کنایتا جہنم۔

اَللّهُمَّ حَبِّبْ اِلَيَّ فيہ الْإحسانَ: اے میرے معبود! اس مہینے میں نیکی اور احسان کو میرے لئے پسندیدہ قرار دے۔
احسان اور عصیان یعنی نیکی اور بدی عالم شرع کے مشرق و مغرب ہیں انسان ایک سے جتنا نزدیک ہوتا جائے گا دوسرے سے اتنا ہی دور ہوتا جائے گا۔
انسان فطرتاً نیکی کی طرف بڑھتا ہے گناہ رکاوٹ ڈالتا ہے اور اسے منحرف کرتا ہے لہذا اج کی دعا میں خدا سے جو چیز طلب کی جارہی ہے وہ بہت ہی اہم ہے اے اللہ میری نگاہ میں نیکی اور احسان کو  پسندیدہ قرار دے  یعنی مجھے میری فطرت پر باقی رکھ ظلم کہتے ہیں" وضع الشئ فی غیر محلہ " کو یعنی کسی چیز کو اس کی اصلی جگہ سے ہٹا دینا ظلم کہلاتا ہے اگر فطرت اپنی اصلی جگہ سے ہٹ جائے تو اسی کو ظلم گناہ سرکشی اور نافرمانی کہتے ہیں اگر نیکی کسی کی نگاہ میں محبوب ہے تو اس کا مطلب ہے اس کی فطرت پٹری پر ہے یہ ہو بہو وہی دعا ہے جو ہم شب و روز اپنی پنجگانہ نمازوں میں کرتے ہیں۔اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ؛اے اللہ ہمیں سیدھے راستہ پہ قائم رکھ ۔
دعا میں لفظ احسان آیا ہے جس کے لغوی معنی نیکی کے ہیں حالانکہ لفظ احسان کا جو بیک گراؤنڈ ہے وہ بہت وسیع ہے احسان " حسن " سے نکلا ہے جس کے معنی خوبصورتی اور عمدگی کے ہیں علمائے لغت کہتے ہیں کہ جو ہر زاویہ سے اچھا لگے اسے حسن کہتے ہیں حواس خمسہ جسے اچھا کہیں دیکھنے سننے سونگھنے چکھنے اور چھونے میں اچھا لگے عقل جو ہمیشہ نفع و نقصان کا سوچتی ہے اسے بھی اچھا لگے دل جو کبھی مائل ہوتا  کبھی اچاٹ ہوجاتا ہے اسے بھی اچھا لگے جو اندر سے بھی حسین اور باہر سے بھی حسین ہو اسے حسن کہتے ہیں اور حسن ہی سے حسن بھی ہے اور احسان بھی اور پندرہ رمضان کی تاریخ نزدیک ہے بس اتنا سمجھ لیجئیے کہ "حسنی صفات" کو ہی احسان کہتے ہیں۔

 گالی دینے والے کو دعا دینا احسان ہے؛ زہر دینے والی بیوی سے بھی جھگڑا نہ کرنا احسان ہے؛ اپنا مال راہ خدا میں تقسیم کردینا احسان ہے؛خود فاقہ کرکے دوسروں کا فاقہ کھولنا احسان ہے؛ انسانوں کو فقر و محرومیت سے نکالنا احسان ہے؛ غلاموں کے ساتھ عزیزوں جیسا سلوک کرنا احسان ہے؛ مزدوروں کو سلام کرنا احسان ہے؛محتاجوں اور فقیروں کو ان کی خواہش سے زیادہ عطا کرنا احسان ہے؛سائل کی آبرو رکھ لینا احسان ہے؛ نفس کو پرہیز گاری کا تحفہ پیش کرنا احسان ہے؛ فکری اور لشکری حملوں سے اپنی سرحد کو بچانا احسان ہے؛فکریں احسان نہیں بلند افکار احسان ہیں؛ سادہ لوحی احسان نہیں وسیع حلم احسان ہے؛ ظالم سے مظلوم کا حق دلانا احسان ہے؛ رعایا کی خدمت کرنا احسان ہے؛حاکم کے غلط منصوبوں کو ناکارہ بنانا احسان ہے؛یہی حسنات ہیں اور جب تک حسنات نگاہ میں پسندیدہ رہیں گے سئیات کو پنپنے کا موقع نہیں ملے گا۔

آئیے دیکھیں قرآن مجید احسان کے بارے میں کیا کہتا ہے: قرآن مجید نے پہلے صرف انفاق کرنے کو احسان کہا: الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿سورة البقرة٢٧٤﴾ جو لوگ اپنے مال رات اور دن میں خفیہ و علانیہ (راہِ خدا میں) خرچ کرتے ہیں ان کا اجر و ثواب ان کے پروردگار کے پاس ہے۔ ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
پھر ارشاد ہے: کظم غیظ کے ساتھ عسر اور یسر میں انفاق کرنا احسان ہے: الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿سورة آل عمران١٣٤﴾ جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
پھر ارشاد ہے: خدا کے آگے سر تسلیم جھکادینا احسان ہے:بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿سورة البقرة١١٢﴾ ہاں جس نے اپنا منہ اللہ کے سامنے جھکا دیا اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کے لیے اس کا بدلہ اس کے رب کے ہاں ہے، اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

اس کے علاوہ احادیث کی نظر میں احسان عبادت کے اعلی درجہ کو کہتے ہیں: الإحسانُ أن تَعبُدَ اللّه َ كَأنَّكَ تَراهُ، فإن لَم تَكُن تَراهُ فَإنَّهُ يَراكَ .[كنز العمّال : 5254.]؛احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو یہ یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

وَكَرِّهْ فيہ الْفُسُوقَ وَالعِصيانَ:اور اے اللہ اس مہینہ میں میری نگاہ میں فسق و فجور اور گناہ کو ناپسند قرار دے۔
 "کرہ"صیغۂ امر ہے کراہت سے، دعا میں کراہت اور عصیان کا جوڑ دیکھئیے یعنی گناہ اگر انسانی شکل میں ہوتا تو کریہہ المنظر ہوتا مقصود یہ کہ اے اللہ گناہ کو مجھے مجسم کرکے دکھا دے۔

وَحَرِّمْ عَلَيَّ فيہ السَخَطَ وَالنّيرانَ: اور اپنی ناراضی اور بھڑکتی آگ کو مجھ پر حرام فرما۔
یہاں پھر "سخط" اور "نیران" کا ربط دیکھئیے یعنی معصوم کی نگاہ میں سخط یعنی اللہ کی ناراضی اور نیران یعنی جھنم کی بھڑکتی آگ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔
اللہ اکبر کبیرہ

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .