۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
ماہ صیام کے پندرہویں

حوزہ/ارباب تکبر کی نگاہ ہمیشہ اپنے کارناموں پر ہوتی ہے جبکہ صاحبان عجز کی نگاہ ہمیشہ اپنی خطاؤں پر ہوتی ہے ارباب تکبر ہمیشہ اپنی خارجی حیثیت کو دیکھتے ہیں جبکہ صاحبان عجز ہمیشہ اپنی داخلی کیفیت کو دیکھتے ہیں ایک  کے کردار سے ہمیشہ بدبو آتی ہے اور ایک کے کردار سے ہمیشہ خوشبو پھوٹتی ہے ایک جینے کا منفی رویہ ہے اور ایک زندگی کا مثبت انداز ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl 
پندرہویں دن کی دعا:اَللّهُمَّ ارْزُقْني فيہ طاعةَ الخاشعينَ وَاشْرَحْ فيہ صَدري بِانابَۃ المُخْبِتينَ بِأمانِكَ ياأمانَ الخائفينَ؛ اے معبود! اس مہینے میں عجز و انکسار والوں کی سی طاعت عطا کر، اور خاکسار اطاعت شعاروں کی سی توبہ کرنے کے لئے میرا سینہ کشادہ فرما، تیری امان کے واسطے، اے ڈرے سہمے ہؤوں کی امان۔
حل لغات :- اخبات کہتے ہیں پست اور کشادہ زمین کو؛ کنایتا عجز اور انکساری۔

اَللّهُمَّ ارْزُقْني فيہ طاعةَ الخاشعينَ وَاشْرَحْ فيہ صَدري بِانابَۃ المُخْبِتينَ؛ آج میں دعا کی مجموعی معنوی کیفیت پر غور کر رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں مجھے کوئی سرا نہیں مل رہا تھا؛ بے ساختہ منہ سے نکلی ہوئی معصوم(ع) کی یہ مختصر دعا اپنے معانی اور مفاہیم کے اعتبار سے اتنی بیکراں ہے کہ جسے چند لفظوں کے کوزہ میں نہیں سمویا جاسکتا میں دیر تک حیران تھا کہ اپنی شرح کا آغاز کہاں سے کروں پوری دعا بذات خود دل کی شرح ہے تو آخر شرح کی شرح کیسے کروں؟ 

دو لفظیں ہیں دعا میں جن پر زور دیا گیا ہے ایک  "خاشع " اور ایک " مخبت " ایک "خشوع " سے مشتق ہے اور ایک " اخبات " سے اور دونوں کا تعلق دل سے ہے دل شرمندہ ہوتا ہے تو عجز کی کیفیت طاری ہوتی ہے جسے اخبات اور تواضع کہتے ہیں  اور جب دل ٹوٹتا ہے تو انسان روتا جسے خوف اور خشیت کہتے ہیں اور یہ بڑی عمدہ صفت ہے یہ صفت اللہ کو بہت پسند ہے کیوں ؟ 
دیکھئیے ایک چیز ہے" فخر عبادت " اور ایک چیز ہے " اشک ندامت " فرشتوں کے یہاں فخر عبادت ہے:وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ۔

فرشتے رونا جانتے ہی نہیں ملک کو رونا آتا ہی نہیں جب بندہ اپنے گناہوں پہ روتا ہے تو اللہ کو اس کا رونا بہت پسند آتا ہے اور بندے کو رونا اس وقت آتا ہے جب اسے غلطی کا احساس ہوتا ہے احساس کے بعد اعتراف کی منزل آتی ہے جسے توبہ کہتے ہیں اور اعتراف کے لئے شرح صدر چاہیئے جس کی بھیک دعا میں مانگی جارہی ہے جی ہاں غلطی کرنا غلط ہے لیکن غلطی کا اعتراف کرنا خوب ہے یعنی اعتراف سے سئیہ حسنہ میں بدل جاتا ہے۔

غالب کا ایک شعر ہے:کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب؛شرم تم کو مگر نہیں آتی 

یہ کعبہ کا غیر عرفانی تقدس ہے اسی لئے علی شریعتی نے کہا کہ محبت معرفت کے بغیر بت پرستی ہے شعر کی ظاہری لفظوں کو دیکھئیے غالب کہہ رہے ہیں اتنے سارے جرم لیکر کعبہ کیسے جاؤں ؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اتنا بڑا شاعر طہارت کے اس قاعدہ اولیہ سے کیسے بے خبر رہا کہ سمندر میں گرنے کے بعد کثافت پھرکثافت نہیں رہ جاتی -  
مولانا رومی کا شعر مجھے عارفانہ لگا:

قطرہ اشک ندامت در سجود 
ہمسری خون شہیدان می نمود 

ندامت کے وہ آنسو جو سجدہ میں عاجزوں کی آنکھوں سے گرتے ہیں اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ اللہ انہیں شہیدوں کے خون سے تولتا ہے،اشک عاجز؛اور خون مجاہد۔
اسی لئے دعا میں عاجزوں کی سی اطاعت اور عاجزوں کی سی انابت طلب کی جارہی ہے کہ میدان جہاد میں جاکر خون کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت نہ ملی تو کیا ہوا ؟ آ مصلہ پر آکر دو قطرے آنسو بہادے۔

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے کہ یہ آئینہ ہے وہ آئینہ 
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

اور عاجزین کی سی اطاعت طلب کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ارباب تکبر کی نگاہ ہمیشہ اپنے کارناموں پر ہوتی ہے جبکہ صاحبان عجز کی نگاہ ہمیشہ اپنی خطاؤں پر ہوتی ہے ارباب تکبر ہمیشہ اپنی خارجی حیثیت کو دیکھتے ہیں جبکہ صاحبان عجز ہمیشہ اپنی داخلی کیفیت کو دیکھتے ہیں ایک  کے کردار سے ہمیشہ بدبو آتی ہے اور ایک کے کردار سے ہمیشہ خوشبو پھوٹتی ہے ایک جینے کا منفی رویہ ہے اور ایک زندگی کا مثبت انداز ہے۔

میگنیٹ کے دو رخ ہوتے ہیں ایک اس کا پازیٹیو سائڈ اور دوسرا اس کا نگیٹیو سائڈ ہوتا ہے ایک کو ساؤتھ پول کہتے ہیں اور ایک کو نارتھ پول اگر آپ اس کے پازیٹیو سائڈ کو پازیٹیو سائڈ سے ملائیں گے تو کبھی نہیں ملیں گے ہاں اگر آپ نے پازیٹیو سائڈ کو نگیٹیو سائڈ سے ملایا تو فورا مل جائیں گے کبریائی صرف اللہ کے لئے ہے اگر کوئی تکبر کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں آئے تو یہ پازیٹیو کو پازیٹیو سے ملانا ہے اس طرح کبھی اللہ سے ملاقات نہ ہوسکے گی اسکے برعکس اگر کوئی عجز و انکساری کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں آئے تو یہ نگیٹیو کو پازیٹیو سے ملانا ہے فورا اللہ سے ملاقات ہوجائے گی یہی تو قرآن نے کہا:وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب؛سجدہ کر اور اللہ سے قریب ہوجا۔ (واجب سجدہ والی آیت؛ بہتر ہے کہ سجدے میں اس ذکر کو پڑھیں:«لٰا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ حَقّا حَقّا لَا إِلٰهَ الّا اللّٰهُ ایماناً وَ تَصْدِیقاً لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ عُبُودِیةً وَ رِقًّا سَجَدْتُ لَک یٰا رَبِّ تَعَبُّداً وَ رِقًّا لَا مُسْتَنْکفاً وَ لَا مُسْتَکبِراً بَلْ أَنَا عَبْدٌ ذَلِیلٌ ضَعِیفٌ خَائِفٌ مُسْتَجِیرٌ»)

بِأمانِكَ ياأمانَ الخائفينَ: تیری امان کا واسطہ اے ڈرنے والوں کی جائے پناہ۔
جی ہاں جب بندہ اپنے گناہوں سے گھبراکے اس کے دامن رحمت میں جاتا ہے تو وہ اسے دائمی امان دیدیتا ہے۔

بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ ہمیں ان معانی و مفاهیم کی سمجھ کے ساتھ ہی ان پر عمل کی بھی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

تحریر: سلمان عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .