بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَی رُسُلِكَ وَلاَ تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ. سورہ آل عمران، آیت ۱۹۴
ترجمہ: پروردگار جو تونے اپنے رسولوں سے وعدہ كيا ہے اسے عطا فرما اور روز قيامت ہميں رسوا نہ كرنا كہ تو وعدہ كے خلاف نہيں كرتا۔
موضوع:
یہ آیت دعا پر مشتمل ہے، جو اہل ایمان اللہ کے حضور قیامت کے دن رسوائی سے بچنے اور اللہ کے وعدوں کی تکمیل کی درخواست کرتے ہوئے مانگتے ہیں۔
پس منظر:
سورہ آل عمران کی یہ آیت ان دعاؤں کا حصہ ہے جو مومنین اللہ سے اپنے ایمان کی استقامت اور اخروی کامیابی کے لیے مانگتے ہیں۔ اس کا پس منظر غزوۂ احد کے بعد کا ہے جب مسلمانوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور انہوں نے اللہ سے معافی اور مدد کی درخواست کی۔
تفسیر:
- اہل عقل کا اجر کا طلبگار ہونا: اس آیت میں، اہل عقل ایمان والوں کو وہ اجر و ثواب مانگنے کی ترغیب دی گئی ہے جس کا اللہ نے اپنے انبیاء کے ذریعے وعدہ کیا ہے۔
- انبیاء کا واسطہ: اللہ کے وعدوں کی تکمیل کے لیے انبیاء کو بطور واسطہ پیش کیا گیا ہے، جو اہل عقل کو اللہ کے وعدے یاد دلاتے ہیں۔ربوبیت کی جھلک: اللہ کی ربوبیت اس کے وعدوں کی وفا میں ظاہر ہوتی ہے، اور یہ اس کی رحمت اور فضل کا ایک پہلو ہے۔
- دنیاوی بشارتیں: آیت کے مطابق، دنیاوی زندگی میں اہل عقل کو دی جانے والی خوشخبریاں اور ان کی ذلت سے بچانے کی دعا ان کے ایمان اور ربوبیت پر اعتقاد کی عکاس ہے۔
- خوف اور امید کا توازن: اہل عقل کی دعاؤں میں خوف اور امید کا توازن موجود ہے؛ وہ اللہ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں، مگر قیامت کے دن کی رسوائی سے بھی ڈرتے ہیں۔
- دعا کی اہمیت: اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دعا اللہ کے وعدوں کی تکمیل میں ایک مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔
- اللہ کی وعدوں کی خلاف ورزی نہیں: آخر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنا اہل عقل کے لیے ایک اہم الہامی بشارت ہے۔
نتیجہ:
اس آیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایمان کی بنیاد اللہ کے وعدوں پر پختہ یقین اور عمل کی درستی پر ہونا چاہیے۔ اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق ہمیں اخروی کامیابی عطا فرمائے اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچائے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ آل عمران