۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/شیعت ایک مضبوط و مستحکم قلعے کی صورت اپنے دشمنوں کے لئے ناقابل تسخیر اور انکی دسترس سے بہت دور دنیا میں عزت و استقلال کی آواز بنی ہوئی ہے، اور یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام کی ان کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | آج دنیا میں شیعت کی اپنی ایک الگ پہچان ہے اسے ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والی عالمی استکبار کے خلاف برسرپیکار ایک ایسی قوم کے طور پر جانا جاتا ہے جو شہادت  سے نہیں ڈرتی بلکہ اسے اپنا افتخار سمجھتے ہوئے تاریخی گزرگاہوں پر شہادتوں کے چراغ جلاتے ہوئے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ 

صاحبان فکر ونظر گواہی دیں گے کہ نظام ظلم و ستم کے خلاف اگر کہیں متحدہ آواز دنیا می سنائی دے رہی  تو شیعت کی ہے، اور کیوں نہ ہو اسکے ایک سمت کربلا ہے تو دوسری طرف ایک عادلانہ نظام حکومت کے قیام کی امید جو ظہور حضرت حجت عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف سے وابستہ ہے، دنیا میں شیعت کی پہچان ایک سربلند و امن پسند قوم کے طور پر ہے، وہ عراق و شام کے مقتل ہوں کہ لبنان و بحرین کے چمنستان شہادت یا پھر افریقا کے صحرؤاں میں شیخ زکزکی کی قیادت میں دین کی راہوں میں قربان ہو جانے کا جذبہ، برصغیر میں عشق  علی (ع) کا خراج ہو کہ دنیا کے گوشے گوشے میں حق کی آواز بلند کرنے کی بنیاد پر قتل و زنجیر و سلاسل وزندان،  شیعت ایک مضبوط و مستحکم قلعے کی صورت اپنے دشمنوں کے لئے ناقابل تسخیر اور انکی دسترس سے بہت دور دنیا میں عزت و استقلال کی آواز بنی ہوئی ہے، اور یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام کی ان کاوشوں کا نتیجہ ہے۔وہ کاوشیں جو انہوں نے اپنے مختلف دورہ ہائے امامت میں انجام دیں اور آج ہم انکے نتائج کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ شیعت کے قلعہ کو ناقابل تسخیر بنانے میں ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام نے جو کردار ادا کیا ہے، ناقابل فراموش ہے، ہر ایک امام نے اپنے اپنے انداز میں شیعت کی فکری بنیادوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ اسکے درخت کی دشوار ترین حالات میں اس طرح آبیاری کی ہے کہ بارہا دشمن نے اسے کاٹنا چاہا، اسے اکھاڑ پھینکنے کے لئے جو جتن ممکن تھے کئے، لیکن یہ دشمن کی ہر کوشش کے بعد پہلے سے زیادہ بارور ہوکر سامنے آیا اور آج ہم اس کے ثمرات کو ایران و لبنان اور عراق و شام میں دیکھ رہے ہیں۔ ان تمام ائمہ طاہرین علیھم السلام میں جنہوں نے شیعت کو دنیا میں ایک انقلابی و دشمن سے ٹکرانے والی قوم کی صورت شناخت دلانے میں لافانی کردار ادا کیا، امام جواد علیہ السلام کے بےنظیر کرادر کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پیش نظر تحریر میں ہم نے ایک الگ زاویہ کے تحت امام علیہ السلام کی جانب سے شیعت کو مستحکم کرنے نیز اسکی توسیع و ترویج کے کچھ نمونوں پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

امام جواد علیہ السلام اور شیعوں کا انسجام و انصرام:

امام جواد علیہ السلام کے دور امامت میں کمسنی میں منصب امامت پر فائز ہونے اور آپکی امامت کو لیکر بعض نادان چاہنے والوں کے درمیان شک و شبہے کے باوجود مجموعی طور پر شیعت کو مضبوطی حاصل ہوئی، اور اس خطرے کے باوجود کہ شیعہ ایک محور سے ہٹ کر تتر بتر ہو جائیں گے آپ نے امامت کے سلسلہ سے پائے جانے والے شبہات کا جواب دیکر شیعوں کی بہترین انداز میں راہنمائی کی اور امت کو شبہات کے خطرناک گرداب سے نکال کر ساحل نجات تک پہنچایا۔ جہاں آپکی امامت کے آغاز میں شیعوں کے درمیان ایک بڑے شگاف کا خطرہ تھا وہیں آپنے ان خطروں سے اس طرح مقابلہ کیا، وہی لوگ جو امامت کو لیکر بکھرنے کی کگار پر تھے، ایک ایسے مستحکم قلعہ کی شکل میں ڈھل گئے جو آج تک ناقابل تسخیر ہے۔ چنانچہ آپکی امامت کے بعد شیعوں کے درمیان کوئی فرقہ وجود میں نہیں آیا اور آپ کی امامت کے برکت سے حکومت کے تمام تر دباؤ کے باوجود شیعوں کا انسجام و انصرام بہتر طور پر سامنے آیا اور آپ کی مساعی جمیلہ، اس بات کا سبب بنی کہ لوگوں کے جہاں عقائد مضبوط ہوں وہیں فقہی، سیاسی اور فکری طور پر انکے اندر بالیدگی پیدا ہو سکے۔ سچ ہے آپ اپنے بابا کے اس قول کے مکمل مصداق تھے جس میں امام رضا علیہ السلام نے فرمایا تھا: *کہ ہمارے شیعوں کے لئے اس مولود سے زیادہ با برکت پیدا نہیں ہوا۔ (1)

امام جواد علیہ السلام کے دور میں شیعہ:

شیعت کو امام جواد علیہ السلام کے دور میں بڑی عظمت حاصل ہوئی، شیعت کے وقار اور شان و شوکت میں قابل غور اضافہ ہوا، اس کا ایک سبب یہ تھا کہ امام جواد علیہ السلام کے دور امامت میں شیعہ پوری اسلامی سرزمین پر پھیل چکے تھے، بہت سے لوگ بغداد میں رہتے تھے تو کچھ مدائن و عراق میں رہائش پذیر تھے(2)۔ جن کی آمدورفت اور طرز زندگی خود بخود شیعت کی تبلیغ کا سبب تھی، حتٰی مصر میں شیعوں کی ایک آبادی رہتی تھی اور کوفہ کے بعض محدثین جیسے محمد بن محمد ابن اشعث، احمد بن سہل اور خاص کر اسماعیل بن موسٰی بن جعفر کے مصر میں قیام اور انکی فعالیت و سرگرمیوں کی وجہ سے مصر میں بھی شیعت کا اچھا خاصا رسوخ تھا۔(3) مصر کے شیعوں کے سلسلہ سے یہ بات بھی مشہور ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد جب امام جواد علیہ السلام کی امامت کو لیکر شیعوں میں اختلاف پیدا ہوا تو مصر سے علی ابن اسباط نامی شخص بھی محض اس لئے آپکے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ اپنے ذہن میں تصویر کو بٹھا لے اور مصر کے لوگوں کے درمیان جب پلٹے تو آپ کے چاہنے والوں کو بتا سکے کہ انکے امام کا حلیہ کیسا تھا(4) تاکہ لوگ آپ کے حلیہ، چال ڈھال اور انداز کو اپنے ذہنوں میں رکھ کر ان لوگوں کے ممکنہ امامت کے دعوے کو مسترد کر دیں، جن کا تعلق مکتب اہلبیت اطہار علیھم السلام سے نہیں ہے لیکن وہ شیعت میں انحراف کی سازش کے تحت بنا پر دعوٰی کر سکتے ہیں۔
علی ابن ساباط کا آپ کے چہرے کو غور سے دیکھ کر اسے اپنے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت مصر میں شیعہ موجود تھے۔
 جہاں مصر میں شیعہ موجود تھے وہیں ایران کے مختلف علاقوں جیسے خراسان، سیستان، ری، قم، طبرستان، طالقان، اہواز، جیسے مقامات پر بھی شیعہ زندگی بسر کر رہے تھے۔
 ان علاقوں کے شیعہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کو خمس ارسال کرتے حتٰی ان علاقوں میں آپ کی جانب سے بہت سے وکیل بھی موجود تھے جو ان علاقوں میں آپ کے کاموں کو دیکھ رہے تھے۔ (5) اگرچہ ایران مین شیعت کا پرانا سابقہ رہا ہے اور یہ عباسی حکومت سے پہلے کی طرف پلٹتا ہے جیسا کہ جرجی زیدان نے اس بارے میں لکھا ہے، خراسان اور طبرستان و دیلم کے رہنے والے عباسی حکومت سے پہلے ہی شیعان علی علیہ السلام میں تھے۔(6)
 امام رضا علیہ السلام کی جانب سے ایران کا سفر شیعت کے پھلنے پھولنے اور اسکی وسعت و اسکے نفوذ و رسوخ میں سنگ میل ثابت ہوا تھا، جس سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے امام جواد علیہ السلام نے شیعت کو اور بھی مضبوط کیا اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں امام کے شاگردوں کی فعالیت بھی دوسرے مقامات کی بہ نسبت زیادہ تھی اور اسی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ امام جواد علیہ السلام کے دور میں ایران شیعت کے اہم مراکز میں ایک تھا۔
 یہی سبب ہے کہ علویوں کے قیام اسی خطے میں زیادہ ہوئے، اور خلافت کو لیکر ایران میں ناراضگی و مخالفت دوسری جگہوں سے زیادہ تھی۔ ایران میں عباسی خلافت کو لیکر مخاف فضا کے دو بڑے نمونے یہ ہیں۔

الف۔ قم میں مامون کے خلاف شورش و بغاوت:
۲۱۰ ہجری میں قم کے لوگوں نے مامون کے کارندوں کے خلاف شورش کی، انکی مخالفت کا سبب یہ تھا کہ مامون جب خراسان سے بغداد کی طرف ایک سفر سے پلٹ رہا تھا تو اس نے شہر ری کے ٹیکس میں لوگوں کو چھوٹ دی اور ٹیکس کم کر دیا۔ قم کے لوگوں نے بھی اسے مکتوب لکھا اور اس سے اس بات کا تقاضا کیا کہ ری کے لوگوں کی طرح انہیں بھی کچھ چھوٹ دی جائے، لیکن مامون نے اس بات کو قبول نہیں کیا جسکی بنا پر لوگوں نے شورش کر دی مامون نے بھی کچھ سپاہیوں کو بغاوت کا سر کچلنے کے لئے بھیج دیا، مامون کے سپاہیوں نے نہ صرف لوگوں کا محاصرہ کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، بلکہ ۲۰ لاکھ درہم کے ٹیکس کو ۷۰ لاکھ کے ٹیکس میں بدل دیا۔ (7) اگرچہ اس پورے ماجرے سے جو چیز ظاہر ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ یہ معاملہ اقتصادی معاملہ تھا لیکن اس جہت سے یہ بات قابل غور ہے کہ مامون نے یہ امتیازی سلوک ایران ہی کے قریب قریب کے دو شہروں کے لئے کیوں کیا؟ اور کیوں قم کے لوگوں کی درخواست کو قبول نہیں کیا، اس کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ گرچہ ری میں بھی شیعہ تھے، لیکن قم کے شیعوں کے درمیان ولایت و امامت کو لیکر جو پختہ فکر تھی وہ کہیں اور نہ تھی اور یہ امامت کو لیکر جتنا خالص تھے، دوسرے شہر کے لوگ اتنا نہ تھے۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآئن یہ بتاتی ہیں کہ امامت و ولایت سے نزدیکی کی بناء پر مامون نے انکے ٹیکس کو نہ صرف کم کیا بلکہ بڑھا دیا، اہل قم کا جرم یہ تھا کہ اہلبیت اطہار علیھم السلام سے انکی محبت بے نظیر تھی تو اس محبت کی بنا پر ان پر حکومت کی جانب سے تنگیاں بھی ویسی ہی تھیں پابندیاں بھی ویسی ہی تھیں۔

ب۔ محمد بن قاسم حسینی کا خروج:
۲۱۹ ہجری میں محمد بن قاسم حسینی علوی، جو کہ ایک عابد و زاہد پرہیزگار و فقیہ کے طور پر مشہور تھے اور انکی دینداری کے سلسلہ سے کسی کو حرف نہ تھا اور امام سجاد علیہ السلام کے فرزندوں میں تھے، اورانہیں کی نسل سے تھے، انہوں نے کوفہ میں الرضا من آل محمد کے نام سے خروج کیا اور اسکے بعد خراسان چلے گئے، جب یہ خراسان پہنچے تو انکے نعرے کی بنیاد پر جو الرضا من آل محمد تھا، ۴۰ ہزار لوگوں نے بیعت کر لی اس کے بعد انکے اور حکومت کے سپاہیوں کے درمیان جنگ ہوئی، اور آخر کار انہیں پکڑ کر گرفتار کر لیا گیا۔ ان دو نمونوں سے واضح ہوتا ہے کہ ایران میں شیعہ کس قدر تھے اور اہلبیت اطہار علیھم السلام سے کس قدر مانوس تھے کہ انکی خاطر ظالموں سے بیر لینے میں شیعان حیدر کرار کو کوئی عار نہ تھی۔ 
ایسے  شیعوں کے لئے ضروری تھا کہ انکی فکری تربیت ہو سکے انکے عقائد مضبوط ہوں، انکی سیاسی سوجھ بوجھ قوی ہو امام جواد علیہ السلام نے یہ کام اپنے وکیلوں کو دیا اور آپ کے وکیلوں نے اس کام کو بخوبی اس طرح انجام دیا کہ آج بھی ایران کے بعض علاقوں کے شیعہ فکری و عقائد کے حوالے سے دیگر مقامات سے ممتاز نظر آتے ہیں۔

شیعوں سے امام کا تعلق:

ایک طرف حکومت کی مشینری کی کوشش تھی کہ امام علیہ السلام کے سامنے ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دے کہ امام سے شیعوں کا تعلق محدود ہو جائے تاکہ شیعوں کی رگ حیات کو کاٹا جا سکے، انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ شیعوں کی رگ حیات امامت سے انکا تعلق ہے، وہ جانتے تھے کہ شیعہ اپنے امام کو اپنی پناہگاہ سمجھتے ہیں اور امام کو ساری دنیا میں سب سے افضل فرد جانتے ہیں، اپنی زندگی کے خطوط کو امام علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں ترسیم و تنظیم کرتے ہیں، لہٰذا حکومت کی پوری کوشش تھی کہ امام علیہ السلام سے کسی بھی طرح رابطہ نہ ہو سکے، جبکہ امام علیہ السلام کی پوری کوشش تھی کہ شیعوں سے رابطہ و تعلق ٹوٹنے نہ پائے، اسی وجہ سے آپ نے دنیا بھر کے شیعوں کے درمیان اپنے وکیلوں کو بھیج رکھا تھا جو شیعوں کی ضرورتوں کو آپ تک پہنچایا کرتے تھے، آپ تک شرعی رقوم ان شیعوں  ہی کے ذریعہ پہنچتی، جسے آپ اپنے نمائندوں کے ہی ذریعہ ضرورتمندوں تک منتقل کرتے۔ جب امام علیہ السلام کی جانب سے شیعوں تک رسائی کے بارے میں ہم کتابوں میں تلاش کرتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے کہ امام علیہ السلام کی جانب سے اہواز، ہمدان، سیستان، بصرہ، ری، واسط، کوفہ قم میں ایسے نمائندے تھے جو آپ کے کاموں کو انجام دیتے اور شیعوں اور آپ کے درمیان پل کا کام کرتے تھے، یہاں پر ہم ان میں سے اہم شخصیتوں کی طرف اس طرح اشارہ کر سکتے ہیں۔

۱۔ ابراہیم بن محمد ہمدانی:

یہ وہ شخصیت تھی جو ہمدان کے علاقے میں امام کی جانب سے وکیل قرار دی گئی تھی، انکے بارے میں امام علیہ السلام کا یہ مکتوب ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا، اس علاقے میں تمہارے علاوہ میرا کوئی وکیل نہیں ہے، میں نے ہمدان میں اپنے دوستوں سے کہہ دیا ہے کہ تمہاری اطاعت کریں۔ (8)

۲۔ صفوان بن یحی:

یہ امام کاظم علیہ السلام، امام رضا علیہ السلام اور امام جواد علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے اور امام جواد علیہ السلام کے وکیل تھے۔(9) شیعہ اپنی شرعی رقوم انکو دیتے تھے تاکہ امام علیہ السلام تک پہنچا دیں۔ معمر بن خلاد کا کہنا ہے، جن غلّوں کے بارے میں اسماعیل بن خطاب نے وصیت کی ہے وہ صفوان بن یحی کو دے دیئے جائیں، ایک مقام پر وہ کہتے ہیں وصیت کے مطابق کچھ غلات وغیرہ  لیکر میں امام جواد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت نے فرمایا، پروردگار اسماعیل بن خطاب اور صفوان پر اپنی رحمتوں کو نازل کرے کہ وہ میرے بابا کی جماعت میں ہیں اور جو میرے بابا کی جماعت میں ہو خدا سے جنت میں ماوی عطا کرے گا۔ صفوان ۲۱۰ ہجری میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے، امام جواد علیہ السلام نے انکے لئے حنوط و کفن کا انتظام خود کیا اور اسماعیل بن موسی بن جعفر سے کہا کہ ان پر نماز پڑھیں۔(10)

۳۔ علی بن مہزیار اہوازی:

یہ وہ شخصیت ہے جو جلیل القدر منزلت کی حامل ہے، امام کے اس مایہ ناز صحابی نے اسلامی معارف و دینی مسائل پر ۳۰ (11) یا ۳۳ کتابیں تحریر کیں، شیعوں کے ہمیشہ مددگار رہے، انکا طریقہ یہ تھا کہ زیادہ تر سوالات امام علیہ السلام سے لکھ کر پوچھتے تھے اور جو ضروری باتیں ہوتیں امام علیہ السلام تک منتقل کرتے امام علیہ السلام اور علی بن مہزیار کے درمیان بہت سے خطوط ردوبدل ہوئے، ان میں ہم ایک کو پیش کر رہے ہیں۔ علی بن مہزیار نے ایک خط کے ذریعہ جب امام علیہ السلام کو حکومتی کارندوں اور قم کے رہنے والے شیعوں کے درمیان تصادم کی اطلاع دی تو امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں لکھا، تم نے جو بھی قم کے بارے میں مجھے اطلاع دی اسے میں نے دیکھ لیا، خدا انہیں نجات دے، اور انکی مشکلات کو حل کرے، تم نے جو باتیں مکتوب کی ہیں۔ ان سے اس قضیہ میں جان کر مجھے خوشی ہوئی ، اسی طرح سے یہی عمل کرتے رہو، امید کرتا ہوں کہ خدا بدلے میں جنت دے کر تمہیں خوش کرے، اور تم سے میری رضایت کی بنا پر راضی ہو جائے اس کے حضور عفو و کرم کا خواستار ہوں، حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔ (12) اس مکتوب سے پتہ چلتا ہے کہ علی ابن مہزیار صرف اس علاقے میں آپ کے نمائندہ اور وکیل نہ تھے، بلکہ آپ کو ایک خصوصی حیثیت بھی حاصل تھی اسی وجہ سے امام علیہ السلام فرماتے ہیں، اسی طرح اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہو اسکے علاوہ اور بھی ایسے مکتوب ہیں جنہیں امام علیہ السلام نے علی ابن مہزیار کے مکتوب کے جواب میں لکھ کر ان سے اپنی محبت اور اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ (13)
علی ابن مہزیار کی شخصیت اس اعتبار سے ہمارے لئے اہم ہے کہ انکے والد کا تعلق ہمارے ہی علاقے و خطے سرزمین ہندوستان سے تھا اور مذہب کے لحاظ سے پہلے عیسائی تھے۔(14) انکے عیسائی مذہب ہونے کے بارے میں صراحت کے ساتھ کشی نے بیان کیا ہے کہ پہلے وہ عیسائی تھے اور انکا تعلق ہندوستان سے تھا لیکن خدا نے اپنے کرم و لطف سے انکی ہدایت کی۔(15) علی ابن مہزیار کا یہ نمونہ ہمارے لئے قابل غور ہے کہ ہندوستان کا رہنے والا ایک شخص امام جواد علیہ السلام سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ آپ کا مورد اعتماد بن جاتا ہے اور ان شخصیتوں میں قرار پاتا ہے جن کے لئے امام علیہ السلام دعا کرتے ہیں، جہاں یہ بات ہمارے لئے پیروی اور اطاعت کے اصولوں کو لیکر بہت کچھ سبق رکھتی ہے، وہیں امام علیہ السلام کے طرز امامت کو بھی بیان کرتی ہے کہ کس طرح دور دراز کے علاقے کے لوگوں کو امام علیہ السلام نے اپنے کردار کے بل پر اپنا گرویدہ بنا لیا تھا ۔آج ہمارے لئے بھی ضروری ہے اپنے سامنے اس کردار کو بصورت آئینہ رکھیں، جس نے ملک و جغرافیائی سرحدوں کو توڑ کر اپنے مثبت طرز عمل سے نہ صرف اپنوں بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی متاثر کیا۔ آج ہندوستان میں چھائے نفرتوں کے بادلوں کے درمیان ہمارے لئے ضروری ہے کہ اسی طرز کو اختیار کریں، اور حلم و بردباری کے ساتھ متحد ہو کر جہاں اپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں، وہیں جذبات میں آ کر ایسا کچھ نہ کریں کہ لوگ ہمارے دین و مذہب سے محض اس لئے دور ہو جائیں کہ انہیں اس میں عقل و شعور و منطق نظر نہ آئے اور وہ اپنی معنویت کی تسکین کے لئے ان راہوں پر چل پڑیں جس کی انتہا انسانیت کی ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
1۔ اعلام الورى، ص 332۔
2۔ الغـيـبـه، شـيـخ طـوسـى، ص 212 بـه نقل حيات فكرى و سياسى امامان شيعه۔
3۔ ر.ك ـ سيره پيشوايان، پيشوايى، ص 561۔
4۔ ر.ك ـ كافى، ج 1، ص 384
5۔ ر.ك ـ سـيـره پـيـشـوايان ، ص 561 و حيات فكرى و سياسى امامان شيعه ، ج 2، ص 133.
6۔ تـاريـخ تـمـدن اسـلامـى ، ج 2، ، ص 232 بـه نقل الحياة السياسية للامام الرضا(ع )، ص 172
7۔ الكامل فى التاريخ ، ج 6، ص 399.
8۔ ر.ك ـ بحار، ج 50، ص 109.
9۔ الامام الجواد، قزوينى ، ص 197.
10۔ مسندالامام الجواد، ص 137.
11۔ فهرست، شیخ طوسی، ص ۸۸
12۔ رک: رمضانعلی رفیعی، تاریخ زندگانی آئمه (امام محمد تقی علیه السلام)
13۔ بحار الأنوار، ج ‏۵۰، ص ۱۰۵٫
14۔ زرکلی‌، الاعلام، ج ۵، ص ۱۷۸
15۔ اختیار معرفة الرجال، شیخ طوسی، ص ۵۴۸/۹۸۸/ ن

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .