حوزہ نیوز ایجنسی। حضرت امام رضا علیہ السلام کی مدینہ سے نیشاپور اور مرو کی طرف ہجرت کے درمیان "سرخس" اور دشت طوس کے علاقے میں مختصر قیام بھی بے حد موثر تھا۔ ہجرتوں کی تاریخ پر جب ںظر ڈالی جائے تو اس ہجرت کا بھی ایک اہم مقام ہے۔ ایران کی پوری تاریخ میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی یہ ایک ایسی ہجرت تھی جس نے اس پورے خطے کی ثقافتی اورتمدنی تاریخ پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
ہندوستان بھی اپنی تہذیب و تمدن کی تاریخ کے لحاظ سے ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ مگر خود حضرت امام رضا علیہ السلام کی خراسان کے شہر مرو میں آمد اور پھر آپ کی شہادت کے بعد بھی آپ کے حرم مبارک کی اہمیت کے پیش نظر، نیز خراسان کے پورے علاقے کا ہندوستان سے نزدیک ترین فاصلے پر ہونا اور یہاں سے ہندوستان تک آسان ترین رفت و آمد بھی اس بات کا باعث بنی کہ پورے ہندوستان کے معاشرے پر یہاں کی تہذیب کے گہرے اثرات کی چھاپ پڑجائے
مختلف عقائد والوں کے درمیان محبت اہلبیت ایک قدر مشترک
ہندوستان میں اسلام کی آمد کے بعد اور بالخصوص جب امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے نمائندے ہند کی جانب روانہ کئے تو اسی وقت سے محبت اہلبیت علیہم السلام ہندوستان کے عام لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہو گئی تھی۔ سب سے پہلی شخصیت جسے ہندوستان میں اقتدار تک رسائی ہوئی تھی، اس کا نام شنسب تھا، جس کا پورا قبیلہ امیرالمومنین (ع) کا پوری طرح معتقد تھا۔
ہندوستان کے اس کثیرالمذاہب خطے میں جو چیز ہمیں مشترکہ طور پر نظر آتی ہے وہ لوگوں کے درمیان محبت اہلبیت (ع) کا شدید جذبہ ہے۔ حتی کہ ہندوستان میں آپ کو ایسے دیہات بھی کمتر نظر آئیں گے جہاں روز عاشور عزاداری امام حسین (ع) کسی نہ کسی شکل میں نظر نہ آتی ہو۔ ہندوستان کے دوسرے شہروں میں آپ کو ایسے عزادار کم ہی ملیں گے جو ایام محرم میں اپنے وطن کی عزاداری کے لئے چھٹیاں لے کر نہ آتے ہوں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کی قومی چھٹیوں میں عاشور کے دن کی چھٹی بھی شامل ہے۔
"چار مینار"، امام رضا علیہ السلام کے روضے کی یادگار
قطب شاہی دور حکومت میں تاجروں کی آمد و رفت اس بات کا باعث بنی کہ ہندوستان اور خراسان کے درمیان قریبی روابط برقرار ہوں۔ جنوبی ہندوستان میں قطب شاہی حکومت کے علاوہ بھی کچھ مقامی جکومتیں تھیں جن کے سارے حکمراں شیعہ تھے۔ اب اسی شہر حیدرآباد کو لیجئے جس کی آبادی کئی ملین افراد پر مشتمل ہے، اس کی ایک اہم علامت "چار مینار" کی عمارت ہے جو امام رضا علیہ السلام کی یاد میں بنائی گئی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ میر محمد مومن استرآبادی ان علماء میں سے تھے جو ایران سے جنوبی ہندوستان ہجرت کرکے گئے اور وہاں انھوں نے قطب شاہی قلمرو میں شایان شان حدمت کی۔ بنیادی طور پر" قطب شاہ حکمراں، شیعہ اور ایران کے شہر ہمدان کے رہنے والے تھے۔ ان کا تعلق قبیلۂ قراقوینلوسے تھا۔ چونکہ یہ امام رضاو علیہ السلنم سے بے انتہا محبت کرتے تھے اس لئے انھوں نے روضۂ امام رضا علیہ السلام کی شبیہ "چار مینار" کی صورت میں بنوائی تھی۔
یہ ایک تین منزلہ عمارت ہے جس کی نچلی منزل میں امام رضاعلیہ السلام سے متعلق تمام علامتوں جیسے پرچم اور دوسری چیزوں کی مصوّری کی گئی ہے۔ قطب شاہیان سلسلے کے کئی بادشاہ چونکہ اجتہاد کے درجے تک پہنچے ہوئے تھے لہذا وہ ہر ہفتے پیر اور بدھ کے دن اوپر کی منزل پر تشریف فرما ہوتے اور لوگوں کے مذہبی مسائل کا جواب دیا کرتے تھے۔ اس عمارت کی اوپر کی منزلیں پانی کے مخزن یا ٹینکوں کا کام کرتی تھیں اور پورے شہر کی پانی کی ضرورت یہیں سے پوری ہوتی تھی۔
آج چارسو سال گزرنے کے بعد بھی یہ عمارت حیدرآباد شہر کی علامت کے طور پر موجود ہے۔ کچھ ایرانی علماء جیسے ابن خاتون عاملی نے وہاں ہجرت کی تھی اور قطب شاہیان کے دور میں 40 سال تک ان کی حیثیت تقریبا" ایک قائد یا پیشوا جیسی رہی تھی۔ یعنی شاہ تھوڑی مدت کے لیۓ اپنی حکومت کا اجازت نامہ ، مؤمن استرآبادی اور ان کے بعد ابن خاتون عاملی سے لیا کرتے تھے۔ ابن خاتون عاملی شیخ بہائی کے بھانجے اور داماد تھے۔
میر مؤمن استرآبادی نے ،جن کے بنائے ہوئے نقشے پر حیدرآباد شہر کی بنیاد ڈالی گئی تھی ، اطراف کی زمینوں کو خرید کر ایک قبرستان بنایا تھا۔ اس قبرستان میں انہوں نے ایک حصّے کو شاہ چراغ نام کے ایک سید سے منسوب کردیا تھا جن سے انہیں بہت عقیدت تھی۔ میر مؤمن نے وصیت کی تھی کہ ان کو سید شاہ چراغ کی قبر کے راستے میں دفن کیا جائے۔
خود میر مؤمن کی قبر آج ایک اہم زیارت گاہ مانی جاتی ہے ۔ جس کی زیارت کے لۓ ہرشب جمعہ شیعہ ،سنی اور حتی ہندو بھی جوق در جوق وہاں جاتے ہیں ۔
ہندوستان کے اہلسنت کی امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک سے تاریخی عقیدت
ہندوستان میں ایک دور تاریخ کا ایسا بھی تھا کہ ایک طرف شیعہ حکومت کررہے تھے تو دوسری طرف اہل سنت تیموری یا گورکانی حکمراں تھے۔ پہلے تیموری شاہ، بابر کے دور سے ہی امام رضا علیہ السلام سے محبت اور عقیدت کا دور دورہ ہمیں تاریخ میں نظر آتا ہے۔
خود بابر جو سنی العقیدہ تھا، اس نے ایک نیا رسم الخط "خط بابری" ایجاد کیا تھا۔ اس نے اس خط میں دو قرآن لکھے۔ ایک کو مکّۂ معظمہ بھیجا اور دوسرا حرم امام رضا علیہ السلام کو ہدیہ کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ قرآنی نسخہ جو مکّہ بھیجا گیا تھا وہ تو تلف ہوچکا ہے لیکن جو نسخہ حرم امام رضا علیہ السلام کے لئے بھیجا گیا تھا وہ حرم مطہر کے گنجینۂ قرآن میں محفوظ ہے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ خط بابری کا اس کے علاوہ کوئی نمونہ کہیں بھی موجود نہیں ہے۔
مشہد الرضا میں ہندوستانیوں کی یادگار"مسجد فیل"
مسجد فیل ابھی تک مشہد میں سالم شکل میں موجود ہے، یہ وہ مسجد ہے جو ہندوستانیوں نے بنوائی تھی۔ کہا جاتاہے کہ ہندوستان سے اتنے زیادہ تحفے اور ہدیے مشہد بھیجے جاتے تھے کہ مجبورا" ہاتھیوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ سامان لانے والے لوگ جب ان ہاتھیوں سمیت مشہد پہنچتے تھے تو پہلے اس مسجد پر آتے تھے۔ یہاں پر غسل کرکے اور پاک صاف ہوکر یہ لوگ آستان امام رضا علیہ السلام پر پہنچتے تھے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس زمانے میں آستان قدس رضوی کی سب سے زیادہ خدمت ہندوستانی لوگ کرتے تھے۔
مختلف ملکوں میں آستان قدس کے سفیروں کی تعیناتی
یہ سفارتی روابط یکطرفہ نہیں ہوتے تھے۔ یعنی جیسا کہ معلوم ہے ایران کے دربار صفوی میں خیرات خان کو ہندوستانی قطب شاہی سفیر کے طور پر بھیجا گیا تھا۔ اسی طرح خود بارگاہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی جانب سے بھی سفیروں کومختلف ملکوں ، بشمول ہندوستان بھیجا جاتا تھا۔
آستان قدس کی طرف سے جو سفیر بھیجے جاتے تھے وہ فقہاء اور علماء میں سے ہوتے تھے۔
اس سلسلے میں آستان قدس رضوی کے سفیر کی ایک دستاویز ملی ہے وہ ایک استوار نامہ یا تصدیق نامہ ہے جسے اس زمانے میں توٹیق نامہ کہتے تھے۔ یہ تین میٹر لمبی دستاویز ہےجس میں نیچے آستان قدس کی ایک بڑی مہر بھی لگی ہوئے ہے۔
ہندوستان میں امام رضا علیہ السلام کی آل اولاد
موجودہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں 70 میلین یا سات کروڑ شیعہ رہتے ہیں جن میں تقوی، نقوی اور امام رضا علیہ السلام کی اولاد یعنی رضوی سادات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ایک شجرہ نامہ مرتب کیا گیا ہے جس کی لمبائی 600 میٹر ہے۔
یہ وہ شجرہ ہے جسے غالبا" دنیا کا سب سے بڑا شجرہ کہا جائے۔ اس میں سب کے سب تقوی سادات ہیں۔ اہلسنت کے بھی اکثر عرفانی سلسلے امام رضا علیہ السلام تک پہنچتے ہیں جو سب کے سب صحیح النسب ہیں۔ یہ سب اس نسبت پر فخر کرتے ہین کہ وہ امام رضا (ع) سے وابستہ ہیں۔ آستان قدس کے تمام کارناموں میں ایک کارنامہ یہ ہے کہ یہاں سے سادات کو وہاں بسانے میں مدد کی گئی اور ان سے رابطہ بھی برقرار رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج چار سو سال گزرنے کے بعد ایک عظیم جمیعت شیعہ اور سنی سادات کی وہاں موجود ہے۔