۱۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۹ شوال ۱۴۴۵ | May 8, 2024
حجۃ الاسلام خراسانی نژاد

حوزہ/ سب سے اہم ابزار و وسائل کہ جن سے ابلیس نے استفاده کیا وہ قوم یہود سے استفاده کیا ہے ،تاکہ افراد، اشخاص، اور اقوام و ملت کے درمیان مختلف چیزیں ایجاد کردیں تاکہ اس طرح سے وہ اپنے منافع تک پہنچ جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دبیرخانہ شہید سردارسلیمانیؒ قم،ایران میںماہ رمضان کی منزلت اوراسکی عظمت کے سلسلے سے جو یکماہ پروگرام کاسلسلہ جاری ہے آجکی اس تقریرمیں عظیم شخصیت حضرت آقای خراسانی نژاد استاد مجتمع آموزش عالی فقہ،مدرسہ حجتیہ کو دعوت دی گئی،آپ نے عنوان مذکورہ پرروشنی ڈالتے ہوئے فرمایا! جس دن خداوند عالم نے تمام مخلوقات کوخلق کیا،تو ابلیس نے اعتراض کیا اور پروردگار عالم نے جو تمام مخلوقات فرشتوں کو اِس وجود کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا تو ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا ۔جس چیز کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے کہ وہ ابلیس کا تکبر تھا جس نے اس کو آدمؑ کو سجدہ کرنے سے منع کیا تھا ابلیس نے کہا تھا کہ میں آگ سے بنا ہوں اور یہ مٹی سے بنے ہیں ، جی ہاں ؟جو فطری طور پر اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ رجيم (مردود) ہو جاتا ہے اور اس کو بارگاه الهٰی سے نکال دیا جاتا ہے اور یہ فطری بات ہے کہ اس کی موت ہی آجاتی ہے ۔

ابلیس کو جب اِس چیز کا مقابلہ کرنا پڑا تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے وہ خدا کے سامنے گر پڑا اورخداوند عالم سے درخواست کی کہ میں نے تیری اتنے سال عبادت کی ہے لہٰذا مجھے اس کی جزاء میں زندہ رہنے دیجئے ، خداوند عالم نے اس کو زنده رکھا اور اس کی مدت کو بھی ابلیس نے بتایا که خداوندعالم نے اس کو قیام تک زندہ رہنے کی فرصت دیدی ہے لیکن خداوندعالم نے فرمایا کہ جو مدت تونے معین کی ہے اُس تک نہیں لیکن "الی وقت معلوم" تک ہے یعنی اس کو ایک مشخص و معلوم زمانہ تک فرصت دی ۔ ہماری ایک دسته روایات که جن میں ظهور از منجی عالم کو مشخص و معین کیا گیا ہے اس نے بھی اسی زمانہ سے اپنی کارکردگیاں شروع کردی ہیں ایک یہ کہ اللہ کے بندوں کے کاموں کو چھپانا شروع کردیا اوریہ کہ اس موعود تک نہ پہنچے (یعنی وہ رکاوٹیں ایجادکیں کہ ظهور نہ ہونے پائے) یعنی ابلیس نے بھی اسی زمانہ سے کارکردگیاں شروع کردیں ۔اچھی بات ! اس لئے اُس نے اِس کام کی بخاطر انسانوں ا ور غیرانسانوں سے مدد لینا شروع کردیا(اپنے دوست بنانا شروع کردئے ) ۔

قرآن مجید بھی فرماتا ہے من الجنہ والناس،اور اُن اقوام میں سے ایک قوم که جس نے ابلیس کے کام انجام دینے کی ذمہ داری سنبھالی وہ قوم یهود ہے که قرآن مجید فرماتا ہے:لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین آمنوا الیهود--- (مائده/۸۲)یہ اهل ایمان کے شدید دشمن ہیں اور بهرحال جو شخص بھی خدا پر ایمان رکھتا ہو قومِ یهود اس کی دشمن ہے ،اور اُن کا یہ بھی ادعا ہے قومِ برترہیں خدا نے ہمیں منتخب فرمایا ہے اور بقیه انسان ،حیوانوں کے قالب میں اُن کے خدمت گذارہیں ---اس طرح کے ادعانے ان کے تکبر کو اپنے اوج تک پہنچا دیا اس وجہ سے کہ وہ اپنی نظر میں دوسرے تمام انسانوں کے لئے کسی ارزش و اہمیت کے قائل نہیں ہے ۔

سب سے اہم ابزارو وسائل کہ جن سے ابلیس نے استفاده کیا وہ قوم یهودسے استفاده کیا ہے ،تاکہ افراد، اشخاص، اوراقوام و ملت کے درمیان مختلف چیزیں ایجاد کردیں تاکہ اس طرح سے وہ اپنے منافع تک پہنچ جائے ۔عیسائیت کے درمیان ،اچھا! (جی ہاں)عیسائیت ایک واحدپیکر،آیت لتجدن اشد الناس---کے مطابق ،مطلب برقرار رکھتے ہوئے قرآن مجید بھی فرماتا ہے جو لوگ اِن (یہودیوں) سے سب سے زیادہ نزدیک هیں وہ ا یک پیکر پیوسته تھے اور جامعه مسیحیت و عیسائیت ، یهودی لوگ ، میں نے جو چیز سنی ہے اور نقل کی گئی ہے وہ عنوان "موش کثیف"(گندہ چوہا)پہچانتے تھے اور یہ تمام کارٹون جو وہ بناتے ہیں اُن پر ابتدا میں ایک چوہا بناتے ہیں جو یہودیت کا بنا یا ہوا ہے ۔انھوں نے اس گندے چوہے کی فکر کو ختم کردیا ۔

اِن کا مغرب اور یوروپ کے معاشرے میں کوئی مقام نہیں تھا ، قانونی طور پر ان کی کوئی جگہ نہیں تھی بهرحال اگر وہ خودسے کوشش کرتے اورمخفیانہ طور پر کام کرتے تو علنی طور پر ظاہر و آشکار نہیں ہو سکتے تھے ۔لہذا انھوں نے سازمان و ساختار وڈھانچے تشکیل دئے اور عیسائیوں کے درمیان بروز کرنے کے لئے بعض یہودی ظاہری طور پر عیسائی ہوگئے ، عیسائیت کے کارزارمیں وارد ہوگئے اور اُن کے درمیان نفو پیدا کرلیا اور اس کے بعد نسل در نسل اپنے ۲۰۰ سالہ پروژه پر گامزن رہے ،اور اپنی نیت میں اپنا مقصد رکھے ہوئے تھے اور یهودیت کے پا بند تھے ، وہ فقط دھوکا دینے کے لئے ہی آئے تھے اور خودکوعیسائی بتاتے ہوئے عیسائی ساختار و ڈھانچے میں وارد ہوگئے۔۔۔۔

۱۵۱۷ میلادی میں مذہبی اصلاحات جنبش ،بعنوان نسیم آزادی عیسائیت میں شکاف ڈالنے کا باعث ہوئی یعنی مارٹین لونیر نام کاایک شخص که جو اُن ہی یہودیوں میں سے عیسائی ہو گیا تھا وہ ایک کشیش بن گیا تھا حالانکہ اصل میں وہ یهودی تبار تھا ،یہ آیا اور اُس نے ا یک جنبش آزادی بنائی اوراس سے دین کی ظرفیت سے بھی استفاده کیا ہے یعنی دین همیشه،دین کی ظرفیت سے عظیم انقلابوں کے لئے استفاده کرتے ہیں چاہے مثبت جهت میں ہو اور چاہے منفی جہت میں ہو یعنی دین میں یہ ظرفیت پائی جاتی ہے کہ اور ہمیں اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے اور لہذا دین کی ظرفیت سے استفاده کرتے ہوئے وہ بھی آہستہ آہستہ خودکو عیسائی معاشرے میں ڈال لیا ،لیکن وہ حقیقت میں یهودی تبار و نسل میں سے تھا یہ آیا اور اس نے یا حصہ کی وضاحت کی کہ کیوں یهودیوں کی مخالفت کی جائےا ور نفوذ پیدا لیااور آہستہ آہستہ ایک نہضت نسیم آزادی بن گئی که پرتستان وہ افراد ہو گئے کہ جن کی یهودیت کے ساتھ سازش تھی اور آہستہ آہستہ یوروپ کے معاشرے پر چھا گئی اور سب سے پہلے جس ملک نے اس کو تسلیم کیا وہ ہالینڈ تھا که جس نے ۵۰۰ یہودی خاندانوں کو اپنے اندر جگہ دی، اس کے بعد یوروپ کے دوسرے ممالک ایک دوسرے پر سبقت لینے لگے ،اسپین ، اس کے بعد بریطانیا آیا اور یہ ان میں سب سے آگے بڑھ گیا اور یک اصلاحاتی بھی اس نے اپنے برنامه و پروگرام میں یہ چیز ایجاد کی که یهودی تجارت ، اقتصاد، معلمی و ... حتی حکومت میں بھی آسکتے ہیں اور اتنی ترقی کی چند سال پہلے بریطانیا میں وزیر اعظم یهودی نسل سے ہوا یعنی یہ اس قدر میدان کھول دیا ۔ان مما لک کا پشت صحنه ،سرمایه منابع انسانی اورفطری منابع سےاستفاده کیا کرتے تھے اوراس سازمان نے یهودکا ڈھانچا بنا دیا تھا اور اس کے بعد سولہویں صدی ہجری میں قانونی طور پر یہودی حکومت کی تلاش میں تھے وہ بھی فلسطین کی سرزمین میں ،لہذا وہ اپنی خواہشات تک پہنچنے کے لئے ،ملاحظہ کیجئے کہ دنیا میں کیا کیا اتفاقات ہوئے اور کتنی سخت فضائیں قوم و ملت کے سر پر آئیں ۔ جس سب سے پہلے قضیه کا نام لیا جاسکتا ہے وہ جنگ کریم تھی۔ اچھا !روس کی پادشاهی حکومت نے یہ ادعا کیا که یہ سب یہودیوں کی بنائی سازمانوں کا کھلواڑ تھا ،کہ فلسطین کے تمام کلیسا پر اُن کی نظارت رہے ۔ اس طرف سے اسلامی ملکوں پر عثمانی حکومت مقتدر تھی تقریبا ۶۰۰ هجری سے ۱۳۰۱ هجری تک عثمانی حکومت کا اقتدار تھا که جو یهودیوں کے نقصان میں تھا لہذا یهودیوں کا آئیڈیل یہ تھا کهسارے ممالک لقمه لقمه ہو جائیں تاکہ اُن کا چبانا آسان ہوجائے ۔اس کے لئے امپراطوری کے کوئی معنی ہی نہیں تھے یہ امپراطور نابود ہو جائے اوریہ فلسطین بھی اُن کے ہاتھ آزاد ہوجائے ۔اچھی بات!ایہ جنگ کریمه شروع ہو گئی امپراطوری عثمان اور هزار روسیه ا وریہودیوں کی بنائی ہوئی سازمان کے درمیان جنگ شروع ہوگئی ، بریطانیا اور فرانس کی پشتیبانی امپراطور عثمانی کررہے تھے ، اور اس روس کی جنگ میں امپراطور عثمانیه مغلوب ہوگئے لیکن یہ کیا اتفاق ہوا کہ هزاروں افراد قتل کردئے گئے ۔کس لئے ؟تاکہ یهودی اپنے مقصد تک پہنچ جائیں اور وہ فلسطین کو اپنے قبضہ میں لینا ہے ۔

فرانس اور انگلینڈ که جو پشتیبانی کے لئے آئے انھوں نے کل خرچ کیا لہذا ؟ سازمان ساختار یهود اور نیز خود امپراطوری بھی سازمان ساختار یهود کی مقروض ہو گئی ۔ممالک میں سب سے آگے ملک بریطانیا تھا که اس کا ظاهربریطانیا ملک تھا لیکن پشت صحنه سازمان ساختار یهودتھی ۔جی ہاں !اس لئے امپراطوری عثمانی اچھی خدمت کرے ا ورایک طرف سے بہت زیادہ قرض لے رکھا تھا اپنے اندر خود اصلاحات انجام دیاکرتے تھے اور بڑے دباؤ سے ان کی پیشنهادیں قبول کیا کرتے تھے اوریہی اند ر کی زیادہ اصلاحات اس بات کاباعث ہوئی که فلسطین اسرائیل میں بدل جائے ، یہ موثرتھا اور روشن فکر افراد کا نفوذ جن کی یہود کی سازمان ساختار پرورش کی تھی وہ نفوذ کرگئے ۔آگے چل کر اس امپراطوری کا مکمل طور سے شیرازہ بکھر گیا ۔

پہلی جنگ بھی اسی قصه پر ہوئی تھی یعنی پھر بھی اس قصه کے پیچھے سازمان ساختار یهودہے جس کا انھوں نے ملکوں کے درمیان اس طرح نقشہ کھینچا ہے که ملکوں کے درمیان جنگ ہو اور اس کا ماحصل و نتیجہ پہلی جنگ عظیم میں دنیا میں میلیونوں افراد قتل ہوئے تھے ،اور ویران ہوئے تھے اوراس سے امپراطوری عثمانی عربی ممالک لبنان ،شام ، مصر وغیرہ .... فلاں فلاںملک کا شیرازہ بکھر گیا تھا ۔اچھا !وہ دوباره بیٹھے کہ کیا کرنا چاہئے ؟پھر بھی اس کے پیچھے سازمان ساختار یهو تھی که اِن ملکوں میں سے ہر ایک اس کی قیومیت اور فلسطین کو قبول کرے ۔

قدس آزاد ہوکر رہیگا، حجۃ الاسلام خراسانی نژاد


تبصرہ ارسال

You are replying to: .