تحریر: لاریب فاطمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جمعة الوداع یعنی" آخری جمعہ" اور یہ اصطلاح خاص طور پر رمضان کے آخری جمعہ کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور دوسری طرف قدس یعنی بیت المقدس اور عالمی یوم القدس مطلب قدس کا دن جو ساری دنیا میں منایا جائے۔میں اس تحریر میں فلسطین واسرائیل کی تاریخ کو بیان نہیں کرنا چاہوں گی بلکہ صرف اور صرف :
✓یوم القدس منانے کا مقصد
✓اس دن کی اہمیت
✓صرف مسئلہ فلسطین پر ہی کیوں آواز بلند جبکہ دوسرے بھی کئی مظلوم ممالک ہیں
✓یوم القدس کے حوالےسے مختلف شخصیات کے فرمودات
✓فلسطینی عرب ہیں اور سنی بھی تو ہم ان کی حمایت کیوں کریں۔
✓مسئلہ فلسطین کا راہ حل
"یوم القدس احیائے غیرت اسلامی کادن ہے"
"یوم القدس صیہونیت کے رد اور فلسطین کی فکری، مادی اور اخلاقی حمایت کی تجدید کا دن ہے"
١۔ یہ دن منانے کا مقصد ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔اور طاغوتی طاقتوں اور نظاموں کو للکارنے کا ہے۔
٢ ۔ یوم القدس اسی دن ہی کیوں رکھا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ماہ ضیافت کی برکات سے کافی حد تک اپنے نفس سے رہائی حاصل کر چکا ہوتا ہے۔اور بہت سی روحانی طاقت حاصل کر لیتا ہے ۔تو باقی ایام کی نسبت انسان زیادہ اچھے سے دشمن کو للکار سکتا ہے۔کیوں کہ ایک آزاد انسان ہی اتنی قوت رکھتاہے کہ امریکہ واسرائیل جیسے شیطان بزرگ کے خلاف آواز بلند کر سکے۔
٣۔الہیٰ رہبر وہ ہوتا ہے جو کسی ایسے واقعہ کا انتخاب کرتا ہے جس میں اتنی طاقت و استعداد ہوکہ اسے نہضت ( تحریک) میں بدلا جاسکے مثال کےطورپر کربلا بپاہوا ،امام حسین شہید ہوئے بیبی زینب س، تمام آئمہ نے اسے ایک واقعہ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ایک نہضت میں بدل دیا اور وہ نہضت نہضت عزاداری ہے (جو کہ بدقسمتی سے رسم عزاداری بن چکی ہے) امام خمینی مسلمین جہاں کی بیداری کے لئے ایک عالمی نہضت پیدا کرنا چاہتے تھے۔امام خمینی نے عالمی نہضت کے لئے قدس کو بنیاد قرار دیا۔ کیونکہ اس میں اتنی طاقت تھی کیونکہ ایک تو یہ تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔اور دوسرا یہ اسلامی سرزمین ہے۔ بس کسی غاصب کو حق نہیں پہنچتا کہ یہاں قبضہ جمائے۔ لہذا مسئلہ قدس اس کے اندر اتنی طاقت تھی کہ یہ ایک عالمی نہضت کو جنم دے سکے۔ آپ نے اس کے لیے ماہ رمضان کا انتخاب کیا ، جو کہ ماہ انقلاب ہے۔ اس میں آدمی کی شخصیت میں انقلاب آتا ہے۔ روزہ آدمی میں تقوی پیدا کرتا ہے ہے اور جب یہ مہینہ اپنے اختتام پر ہو تو آدمی ایک خاص طبیعت میں ہوتا ہے اس وقت آدمی میں اتنی طاقت آ چکی ہوتی ہے ہے ہوتی ہے کہ ایک عالمی قدم اٹھا سکے۔ اس لیے آپ نے جمعۃ الوداع کا انتخاب کیا ۔بس اس کا محرک مسئلہ قدس تھا، مگر ہدف صرف فلسطین تک محدود نہیں ہے، ہدف بہت وسیع ہے۔ اس کا ہدف تمام امت میں شعور اور بیداری پیدا کرنا ہے۔ اور امت کو ان پر مسلط بیرونی اندرونی شیطانوں سے آزاد کرانا ہے۔
۔رہبر مسلمین جہان حضرت آیت اللہ خامنہ ای حقیقت یوم القدس کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔
"یوم القدس فقط آزادی فلسطین سے مخصوص نہیں بلکہ اس سے مراد تمام جہان اسلام کی آزادی ہے"
پس قدس ایک سمبل ہے ہے اس کی آزادی یعنی تمام مظلومین جہاں کی آزادی جب قدس آزاد ہوگا اور امام کفر اسرائیل کا خاتمہ ہوگا تو دیگر مظلوم اقوام بھی آزاد ہو جائیں گی۔ پس مظلومین جہاں کی آزادی و بیداری کے لئے امام خمینی کی اسٹریٹجی کا نام" عالمی یوم القدس" کا انعقاد ہے۔
٤۔امام خمینی فرماتے ہیں: "یوم القدس یوم اللہ، ہی یوم رسول اللہ ہے، یوم اسلام ہے ،جو یوم القدس نہیں مناتا وہ استعمار کا خدمت گزار ہے"
حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: "روز قدس اسلامی سرزمینوں کی فضائیں مردہ باد امریکہ اور مردہ باد اسرائیل کے نعروں سے گونج اٹھی چاہیں"
شہید مطہری فرماتے ہیں کہ "آج اگر رسول اللہ زندہ ہوتے تو سب سے زیادہ غمگین اس قدس کے مسئلے پر ہوتے"
سید مقاومت سید حسن نصر اللہ فرماتے ہیں: "ہم فلسطین نہیں چھوڑیں گے، ہم قدس کو نہیں چھوڑیں گے، ہم فلسطین میں امت کے مقدسات کو نہیں چھوڑیں گے"
سید ہاشم الحیدری فرماتے ہیں: "ہر چیز ہم قبول نہیں کریں گے گے کیونکہ قدس ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا ہمارا یہی نعرہ ہے"
شہید راغب حرب جو کہ شہید عباس موسوی سے پہلے لبنان میں مزاحمت اسلامی کے لیڈر تھے، فرماتے ہیں:"اسرائیلیوں سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے بلکہ اپنا ہاتھ کھینچ لیتے تھے اور فرماتے تھے تم سے ہاتھ ملانے کا مطلب تمہارے وجود کو تسلیم کرنا ہے اور ہم تمہیں تسلیم ہی نہیں کرتے"
سید عبدالمالک الحوثی فرماتے ہیں کہ "مسجد اقصی فقط ایک ملت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ طاغوتی و استکباری طاقتوں کے ساتھ مبارزے کے حساس مرحلے کی علامت ہے"
شیخ شہید باقر نمر فرماتے ہیں "یوم القدس صیہونیت کے رد اور فلسطین کی فکری، مادی اور اخلاقی حمایت کی تجدید کا دن ہے"
شہید عباس موسوی فرماتے ہیں کہ" اسرائیل شر مطلق ہے"
قائد اعظم محمد علی جناح تو شروع سے اسرائیل کے وجود کی خلاف تھےاس لیے پاکستان نے اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا آپ فرماتے ہیں:
1۔ "Israel is an illegitimate child of the west"
٢۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کسی صورت قبول نہیں،ہم سرائیل کو کسی صورت قبول نہیں کر سکتے۔
٣۔اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے امت کے قلب میں گھسایا گیا ہے ،پاکستان اسے ہرگز تسلیم نہیں کرے گا۔
فلسطینی عرب ہیں اور سنی ہے تو ہم کیا ان کی حمایت کیوں کریں گے ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اللہ تعالی نے انبیاء اور آئمہ عرب میں بھیجے تو پھر ہمیں نعوذباللہ ان کو بھی نہیں ماننا چاہیے بلکہ اپنے علاقائی اور قومی اور علاقائی امام چننے چاہیے ،قومیت کی حدود انسان ساختہ ہیں۔ اور امام زمانہ کی نصرت میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی "قومیت" ہے ۔کیونکہ امام کسی ایک قوم کے امام نہیں ہوں گے اور امام کا ہدف بھی کوئی امام نہیں بلکہ عالمی وجہانی ہدف ہو گا۔ اس لئے قوم پرست امام تک نہیں پہنچ سکے گا۔یہ بارڈر انسان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں خدا نے تو یہ نہیں بنائے ۔قرآن پاک کے بقول خدا نے اس زمین کو جمیعا یعنی "بطورِ کلی" خلق کیا ہے۔
"یعنی وہی اللہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے جمیعا ( بطور کلی) خلق کیا" (البقرہ29)
اس طرح امام خمینی فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور حضرت علی علیہ السلام نے جو بت توڑے وہ مورتی کے بت تھے ہم نے جمود توڑنے میں قومیت کے بت ہیں"
رسول اللہ کی حدیث ہے "جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ وہ مسلمانوں کے امور کی فکر نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے"۔ (بحار الانوار)
امام علی نے اپنی وصیت میں فرمایا کہ"بیٹا (حسن وحسین علیہ السلام) ہمیشہ مظلوم کی حمایت کرنا اور ظالم کی مخالفت کرنا"
بس ان فرمودات کی روشنی میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم فلسطین کی حمایت کریں۔
دوسری بات یہ کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ فلسطینی سنی ہیں اور وہاں کوئی شیعہ آباد نہیں۔تو کیا ان کے سنی ہونے سے ہماری ذمہ داری ساقط ہوجاتی ہے؟ یا کیا ہم انہیں مسلمان نہیں مانتے؟ یا رسول خدا نے تمام مسلمانوں کو جسد واحد کی طرح قرار نہیں دیا؟کیا آئمہ اطہار نے یہ شرط لگائی ہے کہ اس مظلوم کی مدد کرنا جو تمھارے مسلک کا ہو؟ ہر گز نہیں پس آئمہ کی فکر کے اندر تمام مظلومین جہاں کی مدد کرنا لازم ہے نہ کہ اپنے فرقہ قوم اور مسلک کی۔
دوسری بات یہ کہ شیعہ اسلام کا فرقہ نہیں بلکہ اسلام کا عنوان ہے ۔ تشیع محافظ اسلام اور علمبردار محافظ مقدسات اسلام ہے۔
پس جہاں بھی ظلم ہو شیعہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان کا دفاع کرے۔
بس جو کے فلسطینی مظلوم ہیں۔اس لیے ان کی حمایت ہم پر واجب ہے ۔اگر وہ مظلوم نہ بھی ہوتے تو بھی ہم قبلہ اول کی آزادی اور اسلام کی سربلندی کے لئے کوشش کرتے۔پس مکتب تشیع ہم سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہم مظلومین فلسطین کی حمایت کریں اور قبلہ اول کی حرمت کے لیے آواز بلند کریں۔
٦۔مسئلہ فلسطین تین کے حل کے لیے امریکا کی تجویز
دو ریاستی حل
اس کا مطلب ہے کہ" مغربی کنارے "اور" غزہ پٹی "پر صرف فلسطین کی حکومت ہوگی باقی تمام علاقوں پر اسرائیلی حکومت ہوگی اور فلسطین اپنی خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتا ،اور نہ ہی اپنی کوئی باقاعدہ حکومت قائم کر سکتا ہے اور یروشلم ( بیت المقدس) اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا اور جو فلسطینی فلسطین میں مقیم ہے و ہیں رہیں گے اور جو فلسطین سے باہر ہیں وہ یہاں آ کر نہیں رہ سکتے مگر یہ حل اہل فلسطین اور اس کے حمایتی مسلم ممالک کو قبول نہیں۔
ایک ریاستی حل
اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ایک ریاست ہو یعنی صرف اسرائیل کی ریاست ہوگی اور فلسطین کے علاقوں کو اس میں ضم کر دیا جائے گا یہ تجویز اہل فلسطین کے علاوہ خود اسرائیل کو بھی منظور نہیں کیوں کہ پھر وہ خالص یہودی حکومت نہیں رہے گی بلکہ اس میں مسلم شہری بھی موجود ہوں گے یہ راہ حل بذات خود اسرائیل کو ہی منظور نہیں کیونکہ یہ صیہونیت کی آئیڈیالوجی کے خلاف ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی تجویز
امام خمینی نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا۔اور اسے جرثومہ سرطان سے تشبیہ دی ہے اور اس جرثومہ سرطان کا جسم سے کاٹ دینا ہی اس کا حل ہوتا ہے ہے۔یعنی ان کے مطابق اسرائیل کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا ،اس کا نابود ہو جانا ہی مسئلہ فلسطین کا واحدحل ہے۔