۲۲ آذر ۱۴۰۳ |۱۰ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 12, 2024
امام حسن عسکری

حوزہ/ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی زندگی کے مختصر دور میں ایسا کردار پیش کیا جو آج بھی ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ وہ مشکل حالات میں بھی اپنے شیعوں کے مسائل حل کرتے رہے، انہیں حوصلہ دیتے رہے، اور ظلم کے سامنے ڈٹے رہنے کا سبق سکھایا۔ آج کے دور کے جوان کو بھی امام علیہ السلام کی انہی صفات کی ضرورت ہے تاکہ وہ نفسانفسی کے عالم میں درست راہ پر گامزن ہو سکے۔

تحریر: روح الله توحیدی‌ نیا

تلخیص و ترجمہ: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | آج کے اس پرآشوب دور میں جہاں ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے ہر ایک خود میں مگن ہے، ایک جوان ایسے آئیڈیل کی تلاش میں حیران و سرگردان ہے جسے اپنی زندگی کا آئینہ بنا کر کامیابی کی بلندیوں کو طے کرتا ہوا اپنی منزل مطلوب تک پہنچ جائے ایسے میں ضروری ہے کہ ہم ان شخصیتوں کے کردار و افکار کو جوانوں کے سامنے پیش کر سکیں، جو ہر اعتبار سے ایک مکمل آئیڈیل ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی ذات بابرکت انہیں ہستیوں میں سے ایک ہے جسے اس پر محن دور میں جوانوں کے آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ بقول رہبر انقلاب "امام حسن عسکری علیہ السلام کی ذات تمام مومنین کے لئے اور خاص طور پر جوانوں کے لئے ایک نمونہ بن سکتی ہے، ایسے امام جنکے سلسلہ سے آپکے حامیوں اور آپ کے مخالفوں دونوں نے ہی آپ کے فضل کا، علم و تقوی کا، طہارت و عصمت کا دشمنوں کے مقابل آپکی شجاعت کا مشکلات کے مقابل صبر و استقامت کا اعتراف کیا ہے اور جب آپکی شہادت واقع ہوئی تو آپکی کل عمر ۲۸ برس تھی۔ (1)

امام حسن عسکری علیہ اسلام اور آپکے شیعوں پر پابندیاں:

ادوار آئمہ طاہرین علیہ السلام میں امام حسن عسکری علیہ السلام کا دور سخت ترین دور ہے، ایسا دور جس میں آپ پر بھی پابندیاں تھیں آپکے چاہنے والوں پر بھی نظر رکھی جا رہی تھِی اور شیعوں پر سیاسی و سماجی لحاظ سے بہت سختیاں تھیں اور انکی کڑی نگرانی ہوتی تھی، حتٰی کہ زندان میں بھی علیحدہ سے آپ اور آپکے شیعوں پر جاسوسوں کو رکھا گیا تھا کہ ہر نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔ (2) اسکے علاوہ جب کبھی امام علیہ السلام کو نسبی آزادی دی جاتی تو امام علیہ السلام کو مامور کیا جاتا کہ ہفتہ میں دو بار دارالخلافہ میں حاضری دیں۔ (3) پابندیاں اس قدر سخت تھیں کہ آپکے اصحاب و چاہنے والے عمومی جگہوں پر آپ سے مخاطب بھی نہیں ہو سکتے تھے۔ (4) اور بارہا ایسا بھی ہوا کہ آپ کے چاہنے والوں کو بھی آپ کے ساتھ ہی قید کر دیا گیا۔(5)

اس قدر پابندیوں اور سختیوں کا سبب یہ تھا کہ ایک تو حکومت وقت اس بات سے باخبر تھی کہ امامت کا تصور کیا ہے اور شیعہ عقائد کے اعتبار سے امام علیہ السلام کے علاوہ ہر کسی کی حکومت کو نااہل سمجھتے ہیں، دوسری طرف عباسیوں کے خلاف الگ الگ جگہوں سے آوازیں اٹھ رہی تھیں، ایسے میں کچھ لوگ یہ جھوٹی خبریں بھِی پہنچا رہے تھے کہ امام علیہ السلام کا اپنے چاہنے والوں سے گہرا رابطہ ہے، خط و کتابت کے ذریعہ بھی اور وکیلوں کے ذریعہ بھی اور لوگ آپ تک رقومات شرعیہ کو بھیجتے ہیں اور مخفی طور پر شیعوں کے مختلف گروہ آپ سے رابطہ میں بھی ہیں اس لئے حکومت کی جانب سے کڑی نگرانی ہو رہی تھی اور یہی وجہ تھی کہ ۶ سال کے دور امامت میں آپ کو ہمیشہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے سلسلہ سے خدشہ رہا کہ انکے زندگی کے چراغوں کو حکومت کی جانب سے کسی بھی قت گل کیا جا سکتا ہے۔(6)

امام علیہ السلام کی تدبیر اور اپنے چاہنے والوں کی مشکلات کا حل:

اس گھٹن کے ماحول میں بھی امام علیہ السلام نے شیعوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے کوئی دقیقہ فروگزار نہ کیا بلکہ اپنے چاہنے والوں کی ہدایت کے لئے اور بھی تیزی سے کام کیا، جس کے سبب شیعوں کی تعداد میں قابل ملاحظہ اضافہ ہوا اور شیعہ دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گئے۔ امام علیہ السلام نے ہجرت کر کے دور دراز کے علاقوں میں بود و باش اختیار کرنے والے شیعوں کو بھی تنہا نہیں چھوڑا بلکہ انکے مسائل کے حل کے لئے اپنے وکیلوں کو روانہ کیا، جو ہر جگہ کے شیعوں کے مسائل سے آگاہ ہوتے اور انکے مسائل کو حل کرتے۔ (7) نمونے کے طور پر ہم ایران میں خراسان، جبال اور گرگان سے لیکر قم، اہواز، تک کے علاقوں کا نام لے سکتے ہیں، جہاں امام علیہ السلام کی جانب سے وکیلوں کا ایک سلسلہ قائم تھا جو ان علاقوں کے حالات سے امام علیہ السلام کو باخبر کرتا اور امام علیہ السلام شیعوں کی رہبری کے لئے ضروری ہدایات فرماتے۔ (8)

امام علیہ السلام پر گرچہ حکومت کی طرف سے سخت نگرانی تھی، اسکے باوجود آپ نے شیعوں کے مسائل کو حل کرنا اپنی اولیں ضرورت سمجھا اور جہاں جیسے ہوا انکے مسائل کو حل کیا اگر کہیں خط لکھ کرکوئی مسئلہ حل ہو رہا تھا تو خط لکھا، (9) اگر کہیں بدعتوں کا رواج ہو رہا تھا اور مساجد کو محلوں کی شکل میں بنایا جا رہا تھا تو وہاں بھی ضروری رہنمائی کرتے ہوئے اس کام سے لوگوں کو روکا کہ مساجد کو محلوں کی طرح نہ بنائیں اور انکی زینت ایسے نہ کریں، جیسے بادشاہوں کے محلوں کی ہوتی ہے۔ (10) اگر کہیں اس بات پر اختلاف ہوا کہ "من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" سے کیا مراد ہے، تو آپ نے اسکی وضاحت کی اور اس بات کو بیان کیا کہ یہی ولایت امیر المومنین علیہ السلام حزب اللہی جماعت کو دوسرے گروہوں سے الگ کرنے کا معیار ہے۔ (11)

تمام تر گھٹن اور دباؤ کے ماحول میں بھی آپ نے ان لوگوں کی تحسین و تمجید فرمائی، جو ظلم کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کو ظلم کے خلاف ڈٹے ہوئے مجاہد شیر اور دشمن کے چہرے کو بگاڑ دینے والے سورماؤں کے طور پر پیش کیا۔(12) امام علیہ السلام کی یہ کل کی کوششیں تھیں کہ آج شیعت دنیا میں سر بلند ہے آپ نے سخت ترین حالات میں بھی شیعوں کا مان بڑھایا، انہیں حوصلہ دیا کہ ہرگز مایوس نہ ہوں آگے بڑھتے رہیں، آپکے پیش نظر وہ حالات تھے جو عصر غیبت میں پیش آنے والے تھے، جنکا قیاس عصر حضور آئمہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا آپ نے ایک طرف تو فکری و سماجی طور پر شیعوں کو مضبوط کیا، دوسری طرف مالی مسائل میں بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا اور جہاں ضرورت پڑی وہاں آپ نے شیعوں کی مالی مدد فرمائی اور ان مشکلات کے حل کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے ہونے والے ظلم کو ناچیز سمجھنے کی دعوت دی اور اپنے وکیلوں کے ذریعہ شیعوں کے درمیان یہ بات راسخ کرا دی کہ ظلم آج ہے کل نہیں رہے گا اور ظلم کا شکار ہو کر ہمت نہ ہارو اسے ناچیز سمجھ کر کل کے سرمایہ کی طرف بڑھو اور برے و سخت حالات میں خدا پر بھروسہ کرو۔ (13)

کردار کی بلندی اور دشمنوں کا اعتراف:

امام علیہ السلام نے جہاں شیعوں کی رہنمائی کے لئے وکیلوں کے ذریعہ ہر جگہ کی خبر رکھی اور ضروری ہدایات کے ذریعہ انہیں سربلند کیا، وہیں اپنے کردار کے ذریعہ اپنے دشمنوں کے منھ کو بھی بند کیا، حتٰی کہ ان لوگوں تک کو آپ واپس لانے میں کامیاب ہو گئے، جو امامت کے سرچشمے سے ہٹ کر انحراف کا شکار ہو گئے تھے چنانچہ ۲۰ سال کے سن میں منصب امامت پر فائز ہوئے اور اسکے باوجود کے امام ہادی علیہ السلام کے اکثر پیروکاروں نے آپ کی امامت کو قبول کیا، کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو منحرف ہو گئے، لیکن امام علیہ السلام نے اپنے کردار کو اتنا بلند کیا کہ ان منحرفین کے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا اور کچھ مدت کے بعد انہیں بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ دوبارہ اپنے سرچشمہ ولایت پر واپس آ گئے۔ (14) امام ہادی علیہ السلام کے بعد اس دور کی خاص فضا کو دیکھتے ہوئے یہ بات اپنے آپ میں بہت بڑی ہے کہ امام ہادی علیہ السلام کو زندگی کے آخری ایام میں کھلم کھلا موقع نہ مل سکا کہ آپ کے سلسلہ سے لوگوں کو بتا سکیں اور اپنے بعد کے امام کی حیثیت سے آپ کا مکمل تعارف کرا سکیں۔(15)

یہی وجہ ہے کہ امام ہادی علیہ السلام کے دوران حکومت میں بھی بعض لوگ امام کے دوسرے فرزند کی امامت کے قائل تھے۔ نہ صرف آپکے کردار کی بلندی کا اعتراف دشمنوں کو تھا بلکہ اس دور کے بڑے علماء بھی آپ کے علم و فضل کے قائل تھے چنانچہ اسحاق کندی جیسے عالم کا اپنے ہی ہاتھوں سے لکھی گئی کتاب کا اپنے ہاتھوں ہی جلا دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے اور آپکے بھیجے گئے شاگرد سے یہ کہنا آپ کے علم کا اعتراف ہے کہ یہ بات ایسے ہی گھر سے نکل سکتی ہے۔ (18) کردار کی بلندی و پاکیزگی کا عالم یہ ہے کہ جب زندان بان سے تمام تر سختیوں کی تاکید کے بعد آپ کے سلسلہ سے پوچھا گیا تو اسکے پاس آپ کی تمجید و تحسین کے سوا کچھ کہنے کو نہیں تھا، لہٰذا اسکے پاس اسکے علاوہ الفاظ ہی نہ تھے کہ تم نے جس کی نگرانی کے لئے مجھے بھیجا اسکی نگرانی کیا کروں کہ وہ ہر وقت مشغول عبادت رہتا ہے۔ (17)

احمد بن عبید اللہ بن خاقان کا یہ اعتراف آپ کی عظمت کو آپ کے مخالفین و دشمنوں کے درمیان بیان کرنے کے لئے کافی ہے کہ جو کہتا نظر آتا ہے۔ "میں نے رفتار و کردار اور پاکدامنی و طہارت و نجابت میں حسن بن علی ابن محمد ابن الرضا سے بڑھ کر کوئی نہ دیکھا کہ میں نے جس سے بھی بھی انکے بارے میں سوال کیا، چاہے وہ اہل قلم ہوں یا منصب قضاوت پر فائز افراد یا وزراء سب نے انکے بارے میں بہت ہی احترام کے ساتھ جو کچھ کہا وہ تحسین و تمجید کے سوا کچھ نہ تھا، میں نے دوست و دشمن کسی کو نہ پایا جو انہیں خیر سے یاد نہ کرتا ہو۔ (18) ایسی شخصیت کی زندگی کے رہنما اصول یقینا آج کے جوانوں کے لئے ضروری ہیں کہ وہ جانیں انکے پاس کتنا عظیم سرمایہ انکے آئمہ طاہرین کی بابرکت حیات کے طور پر موجود ہیں، جنہوں نے سختیوں اور دشواریوں میں رہتے ہوئے بھی اپنے شیعوں کی رہنمائی کی آج اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنا سر فخر سے بلند کر کے کہ سکتے ہیں کہ ہم شیعہ ہیں۔

حواشی:

1۔ بیانات دیدار اقشار مردم و خانواده شهدا و ایثارگران ۱۳۹۰/۱۲/۱۰.

2۔ طبرسی، اعلام الوری، ص۳۵۴.

3۔ طوسی، الغیبة، ص۱۳۹.

4۔ ،رک: اربلی، کشف الغمة، ج۳، ص۲۱۸.

5۔ ایضا ، ص۱۳۲.

6۔ رک: سید بن طاووس، مهج الدعوات، ص۶۳.

7۔ رک: سید بن طاووس، مهج الدعوات، ص۶۳.

8۔ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۴۲۵؛ اربلی، کشف الغمة، ج۲، ص۴۲۵ و ۴۲۷؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، ص۴۲۷.

9۔ سید بن طاووس، مهج الدعوات، ص۴۴- ۴۵).

10۔ طوسی، الغیبة، ص۲۰۶.

11۔ اراد بذلک علما یعرف به حزب الله عند التفرقه (اربلی، کشف الغمة، ج۳، ص۲۱۹.

12۔ نحن لیوث الوغی و غیوث الندی و طعنا العدی و...» (موسوعة الامام العسکری (علیه‌ السّلام)، ص۲۰۸

12۔ طوسی، الغیبة، ص۳۵۷.

14۔ نوبختی، فرق الشیعة، ص۹۵ و ۱۳۸.

15۔ رک: طبرسی، اعلام الوری، ص۳۵۱.

16۔ ابن شهرآشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، ج۴، ص۴۲۴.

17۔ کلینی، الکافی، ج۱، ص۵۱۲؛ مفید، ارشاد، ج۲، ص ۳۳۴.

18۔ کلینی، الکافی، ج۱، ص ۵۰۳.

تبصرہ ارسال

You are replying to: .