حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام والمسلمین علی رضا پناہیان نے کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے سخت ترین حالات میں شیعوں کو فکری بلوغ تک پہنچایا اور ان کی شہادت کے بعد شیعوں کے درمیان کوئی نیا فرقہ وجود میں نہ آیا۔
انہوں نے ٹی وی پروگرام سمت خدا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام عسکریؑ نے کم عمری ہی میں والد گرامی کی شہادت کا صدمہ جھیلا اور اپنی والدہ حضرت نرجس خاتونؑ کے ساتھ کڑی مصیبتوں کا سامنا کیا۔ امامؑ کی شہادت کے بعد حضرت نرجس خاتونؑ بھی شدید محدودیتوں کا شکار رہیں، جبکہ اس وقت ان کے فرزند امام زمانہؑ غیبت صغری میں داخل ہو گئے۔ یہ حالات دراصل اس بات کی نشانی تھے کہ خداوند متعال اپنی قدرت سے اندھیروں میں بھی امید کا چراغ روشن کرتا ہے۔
حجۃالاسلام پناہیان نے کہا کہ امام عسکریؑ کے دور میں، باوجود اس کے کہ لوگ اپنے امام کو براہِ راست نہیں دیکھتے تھے، شیعیان حقیقی ایمان پر قائم رہے۔ ان کی تربیت کا اثر یہ ہوا کہ شیعہ امت کسی نئی فرقہ بندی کا شکار نہ ہوئی، جبکہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ ایک امام کی شہادت کے بعد امت اپنی وحدت پر قائم رہی۔ اس کا سہرا علمائے شیعہ کو بھی جاتا ہے جنہیں امامؑ نے بڑی ذمہ داریاں سونپیں اور جنہوں نے وحدت و استقامت کی حفاظت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ائمہ اطہارؑ نے 250 سالہ تاریخ میں مؤمنین کو فکری طور پر اس مقام تک پہنچا دیا تھا کہ وہ امام کو بغیر ظاہری دیدار کے پہچان سکیں۔ یہی میراث آج بھی زندہ ہے، جس کا ثبوت اربعین جیسے عظیم اجتماع ہیں۔
حجۃ الاسلام پناہیان نے کہا کہ اگرچہ امام عسکریؑ سخت حصار اور محدودیتوں کا شکار رہے اور حتیٰ کہ حج بھی نہ جا سکے، لیکن خداوند نے دکھایا کہ دشمن کی شدید پابندیوں کے باوجود ولایت باقی رہتی ہے۔
انہوں نے آخر میں آیہ 8 سورہ صف «یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ» کی تلاوت کرتے ہوئے کہا کہ نور خدا کو بجھانے کی ہر کوشش ناکام ہے اور امام عسکریؑ کی زندگی اس حقیقت کی روشن دلیل ہے۔









آپ کا تبصرہ