حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ولایت فقیہ کے اہم ترین دلائل میں سے ایک دلیل، روایات ہیں۔ پچھلی قسط میں امام زمانہؑ کی توقیع شریف کا ذکر کیا گیا تھا، اور اس بار ہم ایک اور دلیل نقلی یعنی مقبولہ عمر بن حنظلہ پر گفتگو کریں گے۔
مقبولہ عمر بن حنظلہ
عمر بن حنظلہ روایت کرتے ہیں:
میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا:
"اگر دو شیعہ کسی قرض یا وراثت کے معاملے میں اختلاف کر لیں تو کیا وہ اپنا مقدمہ ظالم سلطان یا اس کے مقرر کردہ قاضی کے پاس لے جا سکتے ہیں؟"
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
«مَنْ تَحَاکَمَ إِلَیْهِمْ فِی حَقٍّ أَوْ بَاطِلٍ فَإِنَّمَا تَحَاکَمَ إِلَی الطَّاغُوتِ وَمَا یُحْکَمُ لَهُ فَإِنَّمَا یَأْخُذُهُ سُحْتاً وَإِنْ کَانَ حَقّاً ثَابِتاً لَهُ، لِأَنَّهُ أَخَذَهُ بِحُکْمِ الطَّاغُوتِ وَقَدْ أَمَرَ اللَّهُ أَنْ یَکْفُرَ بِهِ» (الکافی، ج۱، ص۶۷)
پھر امامؑ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «یرِیدُونَ أَنْ یتَحَاکَمُوا إِلَی الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ یکْفُرُوا بِهِ» (النساء/۶۰)
[کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے مقدمات طاغوت کے پاس لے جائیں، حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کریں۔]
عمر بن حنظلہ کہتے ہیں: جب میں نے امامؑ کی یہ سخت تاکید سنی تو عرض کیا: "پھر ایسے موقع پر شیعہ کیا کریں؟"
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
«یَنْظُرَانِ إِلَی مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مِمَّنْ قَدْ رَوَی حَدِیثَنَا وَ نَظَرَ فِی حَلَالِنَا وَ حَرَامِنَا وَ عَرَفَ أَحْکَامَنَا فَلْیَرْضَوْا بِهِ حَکَماً فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَیْکُمْ حَاکِماً، فَإِذَا حَکَمَ بِحُکْمِنَا فَلَمْ یُقْبَلْ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُکْمِ اللَّهِ وَ عَلَیْنَا رُدَّ، وَالرَّادُّ عَلَیْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَهُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْکِ بِاللَّهِ.»
یعنی: "ایسے موقع پر تم ان لوگوں کی طرف رخ کرو جو راویان احادیث ہیں، حلال و حرام سے واقف ہیں اور ہمارے احکام کو جانتے ہیں۔ انہیں اپنا حَکم اور قاضی بناؤ۔ میں نے ایسے شخص کو تم پر حاکم مقرر کیا ہے۔ اگر وہ ہمارے حکم کے مطابق فیصلہ کرے اور کوئی اس فیصلے کو قبول نہ کرے تو اس نے دراصل اللہ کے حکم کو سبک سمجھا ہے اور ہمارا انکار کیا ہے، اور ہمارا انکار درحقیقت اللہ کے انکار کے مترادف ہے، جو شرک کے درجے میں شمار ہوتا ہے۔"
اس روایت کے اہم نکات:
1. اختلافی معاملات میں طاغوتی حکمرانوں اور ان کے قاضیوں کے پاس جانا حرام ہے۔
2. امام صادقؑ نے رہنمائی فرمائی کہ ایسے موقع پر اہلِ علم، یعنی وہ فقہاء جو حلال و حرام اور احکامِ اہل بیتؑ کو جانتے ہیں، ان کی طرف رجوع کیا جائے۔
3. اس روایت میں صرف جھگڑوں اور مقدمات کی بات نہیں بلکہ ایک عمومی قانون بیان ہوا ہے: «فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَیْکُمْ حَاکِماً»، یعنی امامؑ نے فقیہ کو شیعیان کے اوپر "حاکم" اور "سرپرست" کے طور پر مقرر کیا۔
4. امامؑ نے واضح فرمایا کہ فقیہ کے فیصلے کو رد کرنا امام کے فیصلے کو رد کرنا ہے، اور امام کا انکار، خدا کے انکار کے برابر ہے۔
فقہاء کی توضیح:
صاحب جواہر، آیت اللہ محمدحسن نجفیؒ فرماتے ہیں:
"امامؑ کے اس قول (فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَیْکُمْ حَاکِماً) سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فقہاء عام طور پر ہر اس منصب کے لیے منصوب ہیں جو امام معصومؑ کے اختیار میں ہے، چاہے قضاوت ہو یا دیگر ولایتیں۔" (جواهر الکلام، ج۲۱، ص۳۹۶)
شیخ انصاریؒ لکھتے ہیں:
"مقبولہ عمر بن حنظلہ کے لفظ 'حاکم' سے مراد مطلق اختیار رکھنے والا حاکم ہے، جیسے کوئی سلطان اپنے شہر پر کسی کو تمام امور میں مسلط کر دے۔" (قضا و شهادت، ص۸)
نتیجہ
ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ فقیہ کی ولایت، امام معصومؑ کے نصب سے ہے، یعنی خود امامؑ نے فقیہ کو امت پر حجت اور حاکم قرار دیا ہے۔ البتہ اس ولایت کے عملی نفاذ اور قبولیت کے لیے عوام کی پذیرائی بھی ضروری ہے۔
۔۔۔ جاری ہے
ماخذ: نگین آفرینش









آپ کا تبصرہ