حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،تاراگڑھ اجمیر میں امام بارگاہ آل ابو طالب علیہ السّلام میں ١٤ شوال المکرم شب شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام کی مناسبت سے مجلس عزاء منعقد ہوئی، اس مجلس عزاء کو امام جمعہ تاراگڑھ مولانا سید نقی مھدی زیدی بعنوان "تاریخ و سیرت امام صادق علیہ السلام" خطاب کیا جس میں مؤمنین و مؤمنات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
مولانا سید نقی مھدی زیدی نے مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: علماء کا بیان ہے جعفر جنت میں ایک شیریں نہر کا نام ہے کیونکہ آپ کا فیض عام جاری نہر کی طرح تھا لہٰذا اسی لقب سے ملقب ہوئے، آپ کا سب سے مشہور لقب "صادق" ہے، ایک حدیث کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اس لقب سے نوازا تھا، آپ کی مشہور کنیتیں ابو عبد الله (آپ کے بیٹے عبداللہ افطح کی نسبت) سے ہے جبکہ آپ کو ابو اسماعیل (آپ کے بڑے بیٹے اسماعیل کی نسبت) اور ابو موسیٰ (آپ کے فرزند امام موسیٰ کاظمؑ کی نسبت) سے کہا جاتا ہے۔
مولانا نقی مھدی زیدی نے مزید کہا کہ: حدیثی کی کتابوں میں امام صادقؑ کی اخلاقی خصوصیات میں سے زہد، انفاق، فراوانی علم، طولانی عبادت اور قرآن کریم کی تلاوت وغیرہ جیسی اخلاقی خصوصیات کا تذکرہ ملتا ہے۔ محمد بن طلحہ امام صادقؑ کو اہل بیت میں سب سے زیادہ عظمت و بزرگی کا حامل شخص قرار دیتے ہیں جو علم و معرفت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و تقوی، عبادت و بندگی نیز قرآن مجید کی تلاوت میں اپنے زمانے میں شہرت رکھتے تھے۔مالک بن انس جو اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے ہیں، امامؑ کے متعلق کہتے ہیں: جتنی مدت جعفر بن محمد کے پاس جانے کا اتفاق ہوا انہیں تین حالتوں میں سے ایک حالت میں پایا، یا نماز کی حالت یا روزہ داری کی حالت میں یا ذکر پڑھنے کی حالت میں۔ بحار الانوار کے مطابق امامؑ نے کسی فقیر کے سوال کرنے پر اسے چار سو درہم عطا فرمایا اور جب اس کی شکر گزاری کو دیکھا تو اپنی انگوٹھی جو دس ہزار درہم کی تھی، اسے بخش دیا۔ آپؑ کے انفاق فی سبیل اللہ سے متعلق بھی بہت ساری احادیث موجود ہیں۔ کتاب کافی میں آیا ہے کہ آپ رات کو کسی تھیلے میں روٹی، گوشٹ اور درہم و دینار رکھ کر بطور ناشناخت غریبوں کے دروازوں پر جاتے تھے اور مذکورہ چیزوں کو ان میں تقسیم کرتے تھے۔ ابوجعفر خثعمی نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے ایک دفعہ درہم و دینار سے بھرا ہوا ایک تھیلہ مجھے دیا اور اسے بنی ہاشم کے کسی فرد کو دینے کا کہا لیکن یہ اسے یہ نہ کہا جائے کہ اسے کس نے بھیجا ہے۔ خثعمی کہتے ہیں جب اس شخص نے وہ رقم لے لیا تو اس کے بھیجنے والے کیلئے دعا کیا اور امام صادقؑ کی شکایت کرنا شروع کیا کہ اتنے مال دولت کے باوجود ان کی مدد نہیں کرتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ: امام جعفر صادقؑ کے شاگردوں کے مناظرے پر مبنی حدیث جسے کَشّی نے نقل کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے شاگرد مختلف علمی شعبوں میں تخصص رکھتے تھے۔ اس حدیث کے مطابق حُمران بن اَعیَن علوم قرآنی میں، اَبان بن تَغلِب ادبیات عرب میں، زُرارہ فقہ میں اور مومن الطاق اور ہِشام بن سالم علم کلام میں تخصص رکھتے تھے۔ اہل سنت کے بعض علماء اور ان کے فقہی پیشوا بھی امام صادقؑ کے شاگرد رہے ہیں۔ شیخ صدوق نے مالک بن انس سے نقل کیا ہے کہ وہ ایک مدت تک امام صادقؑ کے پاس جاتے تھے اور آپؑ سے حدیث سنتے تھے۔ مالک بن انس نے اپنی کتاب مُوَطَّأ میں امام صادقؑ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ ابن حجر ہیثمی لکھتے ہیں کہ اہل سنت کے بعض بڑے علماء مانند یحیی بن سعید، ابن جریح، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، سفیان ثوری، ابوحنیفہ وغیرہ نے امام صادقؑ سے روایت کی ہیں۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے مزید کہا کہ: آپ کے بعض شاگردوں کی جلالت اور ان کی تصانیف اور علمی خدمات پر روشنی ڈالنی تو بے انتہا دشوار ہے، جو بعض دوسرے فرقوں کے امام و پیشوا مانے جاتے ہیں ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں کو امام کے عنوان سے مانتے ہیں مگرخود امام جعفر صادق علیہ السلام کو امام قبول نہیں کرتے یہ کتنا بڑا ظلم ہے۔
خطیب مجلس مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: مورخین حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں: وہ دین اور ادب میں بہت زیادہ صاحبِ علم، حکمت و دانائی میں کامل ترین شخصیت اور خواہشات کے حوالے سے بے انتہا زہد و پرہیزگاری اور مکمل تقوی کے مالک تھے۔ کتاب مطالب السؤل کے مؤلف کہتے ہیں: جہاں تک امام جعفرصادق علیہ السلام کے مناقب اور صفات کا تعلق ہے تو وہ کسی بھی شمار کرنے والے کی گنتی سے زیادہ ہیں، ان کے مناقب کی انواع و اقسام بصارت کی آنکھیں کھلی رکھنے والے کی عقل کو حیرت زدہ کر دیتی ہیں، اُن کے دل پر مسلط بے تہاشا علوم کی حالت یہ ہے کہ جن احکام کی دلیل و علت درک نہیں ہو سکتی اور جن علوم کا احاطہ کرنے سے عقلیں قاصر ہیں۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے آپ سے نقل ہونے والی بعض مشہور احادیث کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ: حدیث توحید مُفَضَّل یہ ایک طولانی حدیث ہے جسے امام صادقؑ نے چار نشستوں میں مُفَضَّل بن عمر کو املاء فرمایا، اس حدیث میں آفرینش جہان، خلقت انسان، دنیائے حیوانات کی حیرت انگیزیاں، آسمان اور زمین کی حیرت انگیزیاں، موت کی حقیقت اور اس کا فلسفہ وغیرہ جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔
حدیث عِنوان بَصری: اس میں امام صادقؑ نے عبودیت کی تعریف کے بعد عِنوان بصری نامی شخص کے لئے ریاضت نفس، بردباری اور علم و معرفت کے حوالے سے مختلف دستورالعمل بیان فرمایا ہے۔ آیت اللّہ سید علی قاضی رضوان اللہ علیہ جو عرفانی تربیت میں بے مثال تھے اور علامہ طباطبائی اور آیت اللہ بہجت جیسے عرفاء کے استاد تھے۔ وہ اپنے زیر تربیت افراد کو پہلا درس ہی یہ دیتے تھے کہ حدیث عنوان بصری میں دی گئی ہدایات کو لکھ کر اپنے پاس رکھیں اور دن میں کئی بار پڑھا کریں۔
مقبولہ عُمَر بن حَنظَلہ: اس حدیث میں قضاوت اور تعارض روایات کے موضوع پر بحث فرمائی ہے، ولایت فقیہ کے قائلین اس مسئلے پر اسی حدیث سے استناد کرتے ہیں۔
مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: منصور دوانیقی نے کئی مرتبہ حکم دے کر امام جعفر صادق علیہ السلام کے گھر کو آگ لگوائی اور کئی بار آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن جب بھی وہ امام کو دیکھتا تو اس پر ہیبت طاری ہو جاتی اور وہ اپنے ارادے پہ عمل کرنے کی بجائے ان کا احترام کرنے پر مجبور ہو جاتا، منصور دوانیقی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو لوگوں سے ملنے جلنے سے روک دیا تھا اور اسی طرح سے لوگوں کے امام جعفرصادق علیہ السلام سے ملنے پہ بھی پابندی لگا دی تھی۔
آخر میں مولانا نقی مھدی زیدی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے دردناک مصائب کا تذکرہ کیا جس میں مومنین و مومنات نے گریہ کیا آخر میں شبیہ تابوت برآمد ہوکر جلوس کی شکل میں نوحہ خوانی و سینہ زنی کے ساتھ کربلا میں اختتام پزیر ہوا۔
آپ کا تبصرہ