حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کی اور اولاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے کہا: اولاد کی تربیت سب سے اہم فریضہ ہے۔ خداوند عالم قیامت کے دن اولاد سے والدین کے متعلق سوال کرنے سے پہلے والدین سے اولاد کے متعلق سوال کرے گا۔ اولاد اللّہ کی امانت ہے، جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ نے ہمیں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ اولاد کی اچھی تربیت میں کوتاہی کے بہت سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ شیر خوارگی سے لڑکپن اور جوانی کے مراحل میں اسے مکمل رہنمائی اور تربیت درکار ہوتی ہےاس تربیت کا آغاز والدین کی اپنی ذات سے ہوتاہے۔ اولاد کے لیے پاک اور حلال غذا کی فراہمی والدین کے ذمے ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ رزقِ حلال کمائیں۔ والدین جھوٹ بولنے کے عادی ہیں تو بچہ بھی جھوٹ بولے گا۔ والدین کی خرابیاں نہ صرف ظاہری طور پر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں بلکہ باطنی طور پر یہ خرابیاں اس کے اندر رچ بس جاتی ہیں۔ والدین کے جسم میں گردش کرنے والے خون میں اگر حرام ،جھوٹ، فریب، حسد، اور دوسری خرابیوں کے جراثیم موجود ہیں تویہ جراثیم بچے کوبھی وراثت میں ملیں گے۔ بچوں کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کے حقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے، کیونکہ خداوند متعال کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔
مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا: سورہ انفال کی آیت ٢٨ میں ارشاد ہے کہ "و اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ" اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور بے شک اللہ ہی کے ہاں اجر عظیم ہے، اموال اور اولاد دونوں انسان کے لئے آزمائش ہیں کہ آیا ان کو انسان زندگی کا مقصد مقصود قرار دیتا ہے یا ان چیزوں کو رضائے رب کے لیے ذریعہ بناتا ہے، مال و دولت کی مثال پانی اور کشتی کی ہے کہ پانی اگر کشتی کے نیچے رہے تو یہ کشتی پار ہونے کے لیے ذریعہ ہے اور اگر یہ پانی کشتی کے اندر آ جائے تو اسے غرق کر دیتا ہے۔ اسی طرح اگر مال و اولاد ایک مقدس مقصد کے لیے ذریعہ بنیں تو بہترین وسیلہ ہیں اور اگر انسان انہیں مقصد قرار دے تو انسان ہلاکت میں پڑ جاتا ہے۔ رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ "ألا كُلُّكُم راعٍ و كُلُّكُم مَسؤولٌ عَن رَعِيَّتِه ؛ فَالأَميرُ الَّذي عَلَى النّاسِ راعٍ و هُوَ مَسؤولٌ عَن رَعِيَّتِهِ ، وَالرَّجُلُ راعٍ عَلى أَهلِ بَيتِهِ و هُوَ مَسؤولٌ عَنهُم ، وَ المرأةُ راعِيةٌ عَلى بَيتِ بَعلِها و وُلدِهِ و هِيَ مَسؤولَةٌ عَنهُم ، وَ العَبدُ راعٍ عَلى مالِ سَيِّدِهِ و هُو مَسؤولٌ عَنهُ ، ألا فَكُلُّكُم راعٍ و كُلُّكُم مَسؤولٌ عَن رَعِيَّتِهِ"، تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنے ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہے؛ چنانچہ لوگوں کا امیر ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کى ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، غلام اپنے آقا کے مال کا ذمے دار ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص ذمے دار ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا: "راعی" کا معنی وہ امانت دار نگران، جو اس چیز کی اصلاح و تدبیر میں لگا رہتا ہے جو اس کی ذمے داری میں دی گئی ہو۔ چونکہ بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے۔ اسلام نے اس مرحلے سے بچے کے لیے زندگی کے حق کو قانونی حیثیت عطا کی ہے۔ خداوند متعال اِستقرارِ حمل کے چار ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دیتا ہے۔ اور اِسقاطِ حمل کرنا گناهِ کبیرہ، حرام اور قتلِ انسانی کے مترادف ہے۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا: حق حیات کے بعد اولاد کا دوسرا بنیادی حق پرورش ہے، پرورش سے مراد وہ طریقۂ کار جو بچے کی زندگی اور اس کی نشو نما کا ضامن ہو، اسلام نے والدین کو اپنے بچوں کی بقا اور نشوونما کا ذمہ دار بنایا ہے چنانچہ یہ ذمہ داری بچے کے شکم مادر سے شروع ہو جاتی ہے، ماں دورانِ حمل خاص کر رزقِ حلال کھائے کیوں کہ اس کے مثبت اثرات نہ صرف بچے کی جسمانی بلکہ روحانی نشو و نما پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی ترغیب قرآن و حدیث سے بھی ملتی ہے۔ ارشاد خداوند تعالیٰ ہے: یاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّهٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ"، اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، رحم مادر میں رزقِ حلال پر پرورش پانے والے بچے پر مثبت اثرات کا عکس تا دمِ زیست اس کی شخصیت میں مختلف صورتوں میں نظر آتا ہے:
١۔ اَکلِ حلال اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی جنت تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ ہے۔
٢۔ جب رزقِ حلال انسان کے بطن میں جاتا ہے تو اس سے خیر کے اُمور صادر ہوتے ہیں۔ بھلائیاں پھیلتی ہیں اور وہ نیکیوں کی اشاعت کا سبب بنتا ہے۔
٣۔ دل میں نورانیت پیدا ہوتی ہے اور اللہ کی اطاعت و بندگی کا شوق بڑھ جاتا ہے۔
٤۔ رزقِ حلال دعاؤں کی قبولیت کا سبب بنتا ہے۔
٥۔ اَخلاقِ حسنہ مثلاً حلم، شکر، صبر، تقویٰ، تواضع پیدا ہوتے ہیں۔
٦۔ آخرت کی فکر دنیا کے غم پر غالب ہو جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسی طرح دورانِ حمل ماں کا رزقِ حرام کھانے سے روحانی طور پر بچے کی آئندہ شخصیت پر مختلف منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں:
١۔ بچے کی شخصیت میں اَخلاق رزیلہ یعنی جھوٹ، غیبت، تکبر، حسد وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔
٢۔ رزقِ حرام دل کی سختی اور تاریکی کا باعث بنتا ہے۔
٣۔ شیطان اس کے قلب پر قابض ہو جاتا ہے۔
٤۔ نور ایمانی بجھ جاتا ہے۔
٥۔ عبادات و دعائیں مقبول نہیں ہوتیں۔
خطیب جمعہ تاراگڑھ نے کہا: سورہ بقرہ آیت ٢٣٣ میں ارشاد ہوتا ہے وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ وَ عَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَ کِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ لَا تُکَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِہَا وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ وَ عَلَی الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰلِکَ ۚ فَاِنۡ اَرَادَا فِصَالًا عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡہُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَا ؕ وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا سَلَّمۡتُمۡ مَّاۤ اٰتَیۡتُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ"، اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، (یہ حکم) ان لوگوں کے لیے ہے جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہتے ہیں اور بچے والے کے ذمے دودھ پلانے والی ماؤں کا روٹی کپڑا معمول کے مطابق ہو گا, کسی پر اس کی گنجائش سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا، بچے کی وجہ سے نہ ماں کو تکلیف میں ڈالا جائے اور نہ باپ کو اس بچے کی وجہ سے کوئی ضرر پہنچایا جائے اور اسی طرح کی ذمے داری وارث پر بھی ہے، پھر اگر طرفین باہمی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہتے ہیں تو اس میں ان پر کوئی مضائقہ نہیں ہے نیز اگر تم اپنی اولاد کو (کسی سے) دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ تم عورتوں کو معمول کے مطابق طے شدہ معاوضہ ادا کرو اور اللہ کا خوف کرو اور جان لو کہ تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نظر ہے۔
مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا: ’’مائیں پورے دو سال یعنی چوبیس ماہ دودھ پلائیں‘‘، اس جملے میں دو اہم نکتے ہیں۔ ایک یہ کہ مائیں دودھ پلائیں۔ دوسرے یہ کہ دو سال تک دودھ پلائیں، دو سال کی حد انتہائی حد ہے۔ دو سال پورے کرنا ہر صورت میں ضروری نہیں ہیں بلکہ اگر بچے کی صحت اس بات کی اجازت دے تو دو سال سے پہلے دودھ چھڑانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "لاَ رِضَاعَ بَعْدَ فِطَامٍ"، دو سال پورے ہونے کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں ہے۔
امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا: صدیوں کے تجربات کے بعد آج انسان کو دو باتوں کا پتہ چلا ہے:
١۔بچے کے لیے ماں کا دودھ بہترین غذا ہے اور ماں کے دودھ سے مثبت اخلاقی، نفسیاتی، عقلی اور جسمانی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
٢۔ طبی تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ دوسال کے دوران بچے کو فراہم کی جانے والی غذا سے بچے پر اخلاقی، نفسیاتی اور جسمانی و عقلی لحاظ سے ٹھوس اثرات مترتب ہوتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ