جمعہ 2 مئی 2025 - 14:12
اولاد کی تربیت کا دینی اور روحانی نشونما سے تعلق ہے

حوزہ/ تاراگڑھ اجمیر ہندوستان کے امام جمعہ نے تربیت اولاد کے موضوع پر اپنے سلسلہ وار خطبہ ہائے جمعہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پرورش میں تربیت شامل ہے، لیکن پرورش میں جسمانی نشونما اور تحفظ کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، جبکہ تربیت کا تعلق دینی اور روحانی نشونما سے ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامے کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے نیک اولاد کے حوالے سے کہا کہ قرآن مجید کے سورہ مبارکہ فرقان میں ارشاد ہے "والَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا" جولوگ یہ دعاکرتے ہیں کہ پروردگارا! تو ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا دے۔

انہوں نے مزید کہا کہ رسول اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:"إنّ الوَلدَ الصّالِحَ رَيحانَةٌ مِن رَياحِينِ الجَنّةِ،" نیک اولاد بہشت کے پھولوں کا ایک گلدستہ ہے، ایک دوسری حدیث میں آپ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:"الوَلَدُ الصّالِحُ رَيحانَةٌ مِن الله، قَسَمَها بَينَ عِبادِهِ،" نیک فرزند اللہ کی طرف سے پھولوں کا گلدستہ ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کردیا ہوا ہے۔ نیک اولاد کو انسان کی سعادت قرار دیتے ہوئے آپ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا "مِن سَعادَةِ الرّجُلِ الوَلَدُ الصّالِحُ،"انسان کی سعادت میں سے ہے نیک اولاد، حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ما سَألتُ ربِّي أولادا نُضْرَ الوَجهِ، ولاسَألتُهُ وَلَدا حسَنَ القامَةِ، ولكنْ سَألتُ ربِّي أولادا مُطِيعِينَ لله ِ وَجِلِينَ مِنهُ؛ حتّى إذا نَظَرتُ إلَيهِ وهُو مُطيعٌ لله ِ قَرَّت عَيني،" میں نے اپنے رب سے نہ تو خوبصورت چہرے والی اولاد کی دعا کی ہے اور نہ ہی حسین قامت اولاد مانگی ہے۔ بلکہ اس سے ایسی اولاد کی درخواست کی ہے جو خدا کی فرمانبردار اور اس سے ڈرنے والی ہو اور میں جب بھی اسے دیکھوں تو وہ رب کی اطاعت میں ہو، جس سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں، امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا:"ميراثُ الله مِن عَبدِهِ المؤمنِ وَلَدٌ صالِحٌ يَستَغفِرُ لَهُ،"خدا کے مومن بندے کی خدائی میراث اس کا نیک فرزند ہے جو اس کے لیے استغفار کرتا ہے۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے اولاد کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پرورش میں تربیت شامل ہے، لیکن پرورش میں جسمانی نشونما اور تحفظ کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، جبکہ تربیت کا تعلق دینی اور روحانی نشونما سے ہے، والدین جس طرح بچے کے لیے جسمانی آسودگی اور مادی آسائشوں کا اہتمام کرتے ہیں اسی طرح ذہنی اور روحانی آسائش اور سکون فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے، تربیت میں سب سے زیادہ اہم دو چیزیں ہیں ایک تعلیم اور دوسرے آداب زندگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم انسانی شخصیت کا زیور ہے، بچے کی شخصی نشونما کے لیے تعلیم بے حد اہم ہے؛ کتب روایت میں ہے: "علموا أولادكم فإنهم مخلوقون لزمان غير زمانكم" تم اپنے بچوں کو تعلیم دو اس لیے کہ وہ ایک ایسے زمانے کی مخلوق ہیں جو تمہارے زمانے سے مختلف ہے۔ بچہ کی تعلیم و تربیت اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ معاشرے کی اساس و بنیاد ہے کیونکہ فرد سے خاندان، اور خاندان سے معاشرہ وجود میں آتا ہے اچھے افراد جو تربیت یافتہ اور زیور علم سے آراستہ ہوں گے وہ معاشرے کو جنت کا نمونہ بنائیں گے، وہ ایسا ماحول تشکیل دیں گے جس میں تمام افراد خوشحال زندگی بسر کر سکیں، اس لیے اسلام نے بچے کی تعلیم اور تربیت دونوں پر زور دیا ہے اور اسے آزاد اور بے مہار نہیں چھوڑا حضور اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے تربیت کے حوالے سے بنیادی اصول بیان فرمایا کہ بچہ فطرت اسلام پر یعنی فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اس کے بعد اس کے والدین اس کی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں اور اسے جس رنگ میں چاہیں ڈال دیں حدیث کے الفاظ میں آیا ہے "كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ،"ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں، اسلام نے آداب زندگی کے بارے میں مفصل ہدایات دی ہیں والدین بچوں کی عمر اور ان کے مزاج کے مطابق آہستہ آہستہ اسلامی آداب سکھاتے ہیں کھانا پینا گفتگو کرنا لوگوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا جن کی طرف والدین توجہ دے سکتے ہیں۔

خطیبِ جمعہ تاراگڑھ نے عشرۂ کرامت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایام‌ عشرۂ کرامت کے ایام ہیں، عشرۂ کرامت یعنی ولادت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا یعنی یکم ذیقعدۃ الحرام سے لیکر ۱۱ذی قعدة الحرام ولادت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت تک کے عرصے کو عشرۂ کرامت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس لئے کہ جہاں حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا کو کریمہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کہا جاتا ہے، وہیں امام علی رضا علیہ السلام کریم اہلبیت (ع) ہیں، یوں تو اہلبیت اطہار علیہم السلام کا ہر فرد کریم ہے، لیکن چونکہ معصومہ قم کو کریمہ اہلبیت (ع) کہا جاتا ہے اور امام رضا علیہ السلام کا کرم بھی کسی پر پوشیدہ نہیں، لہٰذا آپ کو کریم اہلبیت علیہم السّلام سے بھی جانا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہن کی ولادت سے لیکر بھائی کی ولادت کے اس عرصے کو عشرۂ کرامت کے طور پر منایا جاتا ہے۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے مزید کہا کہ ماہ ذی القعدہ قمری سال کا گیارہواں مہینہ ہے، ماہ ذی القعدہ سال کے ان چار حرام مہینوں میں سے ایک ہے، جنمیں جنگ کرنا حرام ہے۔ دور جاہلیت میں کفار و مشرکین بھی اس مہینے میں جنگ روک دیتے تھے، قعود یعنی بیٹھنا، چونکہ اس ماہ میں جنگ سے بیٹھ جاتے تھے اس لیے اسے ذو القعدہ کہتے ہیں، یہ پورا مہینہ اور ماہ ذی الحجہ کے دس دن یعنی چالیس دن کلیم خدا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر بسر کئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماہ ذی القعدہ عبادت و اطاعت اور توبہ و استغفار کا مہینہ ہے؛ اس مہینے میں اتوار کے دن خاص شرائط کے ساتھ ایک نماز وارد ہوئی ہے، جس کی بہت زیادہ فضیلت نقل ہوئی ہے؛ اس نماز کی مستند ایک حدیث ہے، جسے سید ابن طاؤوس (رہ) نے مالک بن انس کے توسط سے پیغمبر اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم سے نقل کیا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: جو شخص ماہ ذی القعدہ میں اتوار کے دن کی نماز بجا لائے تو اس کی توبہ‌ قبول ہوگی، گناہ معاف کئے جائیں گے، قیامت کے دن دشمن اس سے راضی ہونگے، دنیا سے دین اور ایمان کے ساتھ مرے گا، اس کی قبر کشادہ اور نورانی ہوگی اور اس کے والدین اس سے راضی ہونگے؛ اسی طرح اس کے والدین اور ذریۃ کو بھی بخش دیا جائے گا؛ رزق و روزی میں اضافہ ہو گا؛ موت کے وقت ملک الموت اس سے مدارا کریں گے اور وہ آسانی سے جان دے گا، عرفاء میں آیت اللّہ میرزا جواد ملکی تبریزی (رہ) نے بھی اس نماز کی سفارش کی ہے۔اس نماز کی ترکیب یہ ہے کہ ماہ ذی القعدہ کے اتوار کے دن غسل کرکے وضو کرو، پھر چار رکعت نماز توبہ یوں پڑھو کہ ہر رکعت میں حمد کے بعد، تین بار«قل هو اللّه احد» اور ایک بار «معوذتین» (قل اعوذ برب الناس‌ و قل اعوذ برب الفلق) پڑھو. پھر ۷۰/ ستر بار استغفار کرو اور آخر میں«لا حول و لا قوّة إلا باللّه»کہو. پھر اسکے بعد یہ کہو: «یا عزیز یا غفّار اغفر لی ذنوبی و ذنوب جمیع المؤمنین و المؤمنات فإنّه لا یغفر الذّنوب إلا أنت""»؛ (اے عزیز! اے بخشنے والے! ہمارے گناہوں اور جملہ مومنین اور مومنات کے گناہوں سے در گزر فرما کہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرتا ہے)۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha