جمعہ 16 مئی 2025 - 13:50
تربیت اولاد؛ مغفرت الٰہی کا باعث، حجت الاسلام نقی مہدی زیدی

حوزہ/ حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامے کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے نیک اولاد کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ  رسول اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ "أکْرِمُوا أوْلادَکُم وَأحْسِنُوا آدابَهُم یُغْفَرْ لَکُمْ" اپنی اولاد کا احترام کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو تاکہ پروردگار عالم کی مغفرت تمہارے شامل حال ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر ہندوستان میں نمازِ جمعہ کے خطبوں میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامے کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے نیک اولاد کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ رسول اکرم صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ "أکْرِمُوا أوْلادَکُم وَأحْسِنُوا آدابَهُم یُغْفَرْ لَکُمْ" اپنی اولاد کا احترام کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو تاکہ پروردگار عالم کی مغفرت تمہارے شامل حال ہو۔ آج بہت سے والدین کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ وہ دنیاوی امور کو ترجیح دیتے ہیں اور بچوں کی دینی تربیت کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ ایسے میں جب والدین خود دین کو اپنی زندگی میں عملی طور پر اہمیت نہیں دیتے نافذ نہیں کرتے، تو وہ اپنے بچوں سے دینی اُمور کی پابندی کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ: اس حوالے سے ایک نہایت اہم اور ہولناک روایت بھی اس طرح موجود ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللّہ علیہ‌ و آلہ‌ وسلّم نے ایک موقع پر کچھ بچوں کو دیکھا اور فرمایا: "انَّهُ نَظَرَ إِلَى بَعْضِ اَلْأَطْفَالِ فَقَالَ وَيْلٌ لِأَوْلاَدِ آخِرِ اَلزَّمَانِ مِنْ آبَائِهِمْ فقِيلَ يَا رَسُولَ اَللَّهِ مِنْ آبَائِهِمُ اَلْمُشْرِكِينَ فقَالَ لاَ مِنْ آبَائِهِمُ اَلْمُؤْمِنِينَ لاَ يُعَلِّمُونَهُمْ شَيْئاً مِنَ اَلْفَرَائِضِ وَ إِذَا تَعَلَّمُوا أَوْلاَدُهُمْ مَنَعُوهُمْ و رَضُوا عَنْهُمْ بِعَرَضٍ يَسِيرٍ مِنَ اَلدُّنْيَا فَأَنَا مِنْهُمْ بَرِيءٌ وَ هُمْ مِنِّي بِرَاءٌ"۔ یعنی "آخرالزمان کے بچوں پر افسوس!" صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ بچے مشرک والدین کے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، بلکہ یہ مؤمن والدین کے بچے ہیں، مگر ان کے والدین کی زندگی میں ایمان کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔" رسول خدا صلی‌ اللہ‌ علیہ‌ و آلہ‌ و سلم نے ان والدین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: "یہ والدین اپنے بچوں کو دین کے واجبات میں سے کچھ بھی نہیں سکھاتے۔ اور جب بچے خود سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں روک دیتے ہیں۔" مزید فرمایا: "یہ والدین دنیا کے معمولی فائدے پر قناعت کرتے ہیں اور بچوں کی صرف مادی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں، روحانی اور فکری تربیت کو نظر انداز کرتے ہیں۔" ایسے والدین صرف خود کو ہی نہیں، بلکہ اپنی نسلوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ گھریلو ماحول کو دین سے دوری کا ذریعہ بناتے ہیں؛ جیسے کہ گھروں میں بے دینی پروگرامز دیکھنے والے چینلز کی موجودگی، غیر مناسب محافل میں بچوں کو لے جانا، آخرکار، پیغمبر اکرم صلی‌ اللہ‌ علیہ‌ وآلہ‌ وسلّم نے فرمایا: "میں ایسے والدین سے بیزار ہوں اور وہ بھی مجھ سے بیزار ہیں۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ جو والدین اپنے بچوں کی دینی تربیت کو نظرانداز کرتے ہیں اور انہیں نماز، روزہ اور ایمان سے دور رکھتے ہیں، وہ نہ صرف اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا سامنا کریں گے، بلکہ قیامت کے دن شدید بازپرس کا سامنا بھی کریں گے، پس، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے دیندار ہوں، تو ہمیں خود دین کو اپنی عملی زندگی میں ظاہر کرنا ہوگا۔ کیونکہ بچے وہی سیکھتے ہیں جو وہ والدین کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، نہ کہ وہ جو صرف زبانی کہا جائے۔

خطیبِ جمعہ تاراگڑھ نے اس مضمون کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ: استاد اخلاق آیت اللّہ حائری شیرازی نے تربیتِ اولاد کے صرف علمی پہلو پر اکتفا کرنے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ ایک صالح اور دیندار انسان کی پرورش کے لیے والدین کو دین و تقویٰ کے میدان میں بھی سرمایہ‌گذاری کرنی چاہیے، انہوں نے کہا کہ اکثر والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر بھرپور خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ ڈاکٹر یا انجینئر بنیں، لیکن یہ صرف آدھی تربیت ہے۔ جیسے اگر بچہ پانی کی ڈول ہے اور علم اُس سے باہر کھینچا جانے والا پانی، تو تقویٰ اُس کی مضبوط رسی ہے۔ جتنا علم بڑھے گا، اُتنی ہی تقویٰ کی رسی مضبوط ہونی چاہیے، ورنہ پانی نیچے گر جائے گا!، علم کے ساتھ ساتھ احساسِ ذمہ داری اور دینداری بھی ضروری ہے، اور ان پر بھی ویسا ہی خرچ ہونا چاہیے جیسے تعلیم پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی دینی مدرسہ بچے کو علم کے ساتھ نماز، عبادت اور خدمتِ دین کی طرف مائل کرے، تو خواہ اس کا خرچ دوگنا ہو، یہ خرچ کرنا واجب الاحترام اور قابلِ ترجیح ہے،جب تم دنیا کے لیے خرچ کرتے ہو، تو کیا آخرت کے لیے خرچ کرنا ضروری نہیں؟ اولاد کا صالح بنانا ضروری ہے۔

مولانا نقی مھدی زیدی نے مزید کہا کہ: ٢٣ ذی قعدۃ الحرام روایت کی بناء پر بر صغیر میں روز شہادت حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہما السلام سے منسوب ہے آپ کی تاریخ شہادت میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے صفر کی آخری تاریخ یا 17 یا 21 رمضان یا 18 جمادی الاول یا 23 یا 30 ذی القعدہ سنہ 202 یا 203ھ یا 206ھ ذکر ہوئی ہے۔سید جعفر مرتضیٰ عاملی کے مطابق اکثر علما اور مورخین کا کہنا ہے کہ امام رضاؑ سنہ 148 ہجری کو مدینہ میں متولد ہوئے اور سنہ 203 ہجری کو شہید ہوئے، مفاتیح الجنان میں شیخ عباس قمی رہ نے اس دن حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کو مستحب جانا ہے، امام علی رضا (ع) کی زیارت کی جزا اور ثواب کے بارے میں خود حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے ایک حدیث وارد ہوئی ہے آپ(ع) نے فرمایا : مَنْ زَارَنِي عَلَى بُعْدِ دَارِي أَتَيْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي ثَلَاثِ مَوَاطِنَ حَتَّى أُخَلِّصَهُ مِنْ أَهْوَالِهَا إِذَا تَطَايَرَتِ الْكُتُبُ يَمِيناً وَ شِمَالًا وَ عِنْدَ الصِّرَاطِ وَ عِنْدَ الْمِيزَانِ، جو شخص دوریِ مسافت کے باوجود میری زیارت کے لیے آئے تو میں قیامت کے دن تین مقامات پر اس کے پاس آؤں گا تاکہ اسے ان کی ہولناکیوں سے نجات دوں:

١۔ جب اعمال نامے دائیں اور بائیں جانب سے دئے جا رہیں ہوں گے

٢۔ پل صراط پر

٣۔ اور میزان (ترازو) کے وقت۔ یعنی اس وقت جب اعمال کا حساب و کتاب ہو گا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha