بدھ 28 مئی 2025 - 12:15
امام محمد تقی (ع)؛ خدا کے جود و سخا کا مظہر تام: مولانا سید نقی مہدی زیدی

حوزہ/تاراگڑھ اجمیر میں امام بارگاہ آل ابو طالب علیہ السّلام میں ٢٨ ذی قعدۃ الحرام شب شہادتِ امام محمد تقی علیہ السلام کی مناسبت سے ایک مجلسِ عزاء منعقد ہوئی، اس مجلس عزاء سے امام جمعہ تاراگڑھ مولانا سید نقی مہدی زیدی نے "تقی اور متقی" کے عنوان پر خطاب کیا؛ مجلس میں مؤمنین و مؤمنات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تاراگڑھ اجمیر میں امام بارگاہ آل ابو طالب علیہ السّلام میں ٢٨ ذی قعدۃ الحرام شب شہادتِ امام محمد تقی علیہ السلام کی مناسبت سے ایک مجلسِ عزاء منعقد ہوئی، اس مجلس عزاء سے امام جمعہ تاراگڑھ مولانا سید نقی مہدی زیدی نے "تقی اور متقی" کے عنوان پر خطاب کیا؛ مجلس میں مؤمنین و مؤمنات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ولادت شیعوں کے لئے باعث خوشی قرار پائی، کیونکہ آپ کی ولادت میں تاخیر کی وجہ سے بعض شیعوں میں جو شک و شبہات پیدا ہو رہے تھے وہ ختم ہو گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے نویں امام محمد تقیؑ آٹھ یا نو سال کی عمر میں امامت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔ " معلّی بن احمد " کی روایت ہے کہ : امام رضا ؑ کی شہادت کے بعد میں نے امام تقی ؑ کی زیارت کی اور آپ کے خد وخال ‏‏، قد و اندام پر غور کیا ‏‏‏، تاکہ لوگوں کے لئے بیان کر سکوں، اتنے میں امام محمد تقیؑ نے ارشاد فرمایا : "اے معلّی " خداوند عالم نے نبوّت کی طرح امامت کے لئے بھی دلیل پیش کی ہے “یا یحْیى‏ خُذِ الْكِتابَ بِقُوَّةٍ وَ آتَیناہ الْحُكْمَ صَبِیا”، یحیی کتاب کو مظبوطی سے پکڑلو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں یحیی کو نبوّت عطا کردی، جناب یحییؑ کو بچپنے میں اور جناب عیسیؑ کو گہوارے ہی میں نبوت کا منصب مل گیا تھا۔ “یا یحْیى‏ خُذِ الْكِتابَ بِقُوَّةٍ وَ آتَیناہ الْحُكْمَ صَبِیاہ قالُوا كَیفَ‏ نُكَلِّمُ‏ مَنْ كانَ فِی الْمَہدِ صَبِیا قالَ‏ إِنِّی‏ عَبْدُ اللَّہ آتانِی الْكِتابَ وَ جَعَلَنی‏ نَبِیا” اے یحیی ! کتاب کو مظبوطی سے پکڑو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں علم و حکمت سے نوازا۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم نے اس سے کس طرح بات کریں گے جو ابھی گہوارہ میں ( کمسن) بچہ ہے ؟ ( مگر) وہ بچہ بولا : میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ یہ ان لوگوں کی کج فکری اور عقل سے انحراف ہے، پس قرآن کریم کی آیتیں، اعتراض کرنے والوں کےلئے منہ توڑ جواب ہے۔ اگر عیسیٰ گہوارے میں صاحب کتاب و شریعت نبی ہوسکتے ہیں تو آٹھ برس کا بچہ امام کیوں نہیں ہوسکتا، امام محمد تقی علیہ السّلام وہ امام ہیں کہ جس کی امامت نے حضرت عیسیٰ و یحییؑ کی نبوّت کی صداقت کو مستحکم کردیا۔ جس نے ثابت کردیا کہ نبوّت اور امامت سن و سال میں مقید نہیں ہے۔

خطیبِ مجلس نے علم‌ امام محمد تقی علیہ السّلام کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب عباسیوں کو مامون کے اس ارادے کی خبر ملی کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی امام محمد تقی علیہ السّلام سے کرنا چاہتا ہے۔ یہ سن کر وہ سب مامون کے پاس آئے اور اس کی ملامت کی اور یہ قسم دلا‏ئی کہ وہ اپنا ارادہ بدل دے اور کہنے لگے ہم تمہیں قسم دیتے ہیں ہمیں رنجیدہ نہ کرو اور یہ رشتہ نہ کرو، اپنی بیٹی کی شادی بنی عباس کے کسی نمایاں فرد سے کردو، مامون نے جواب دیا ابو جعفر محمد بن علی (حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام) کے بارے میں اتنا کہوں گا، میں نے ان کو شادی کے لئے اس لئے منتخب کیا ہے کہ اس کم سنی میں بھی انہیں تمام علما اور دانش مندوں پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ چیز اگرچہ تعجب کا سبب ہے مگر یہ حقیقت جس طرح میرے لئے واضح ہو ‏گئ ہے امید کرتا ہوں کہ دوسروں کے لئے بھی روشن ہوجائے گی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ میرا انتخاب کتنا صحیح ہے ۔ خاندان والوں نے کہا : یہ نوجوان اگرچہ تمارے لئے بہت زیادہ تعجب خیز ہے لیکن ابھی کم سن ہے، اس نے ابھی علم و فن ہی کیا حاصل کیا ہے۔؟ صبر کرو تا کہ یہ کچھ سیکھ لے، علم و ادب سے واقف ہو جائے۔ اس وقت تم اپنے ارادے پر عمل کرنا۔ مامون نے کہا وائے ہو تم پر، میں اس جوان کو تم سے بہتر جانتا ہوں۔ وہ اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جہان علم خدادادی ہے۔ انہیں سیکھنے کی کو ئی ضروت نہیں ہے۔ ان کے آباء و اجداد علم وادب میں ہمیشہ تمام لوگوں سے مستغنی رہے ہیں۔اگر چاہتے ہو تو امتحان کر لو تاکہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ واضح ہو جائے۔ کہنے لگے، یہ تو بڑی اچھی پیش کش ہے۔ ہم انہیں ‎آزمائیں گے، ہم تمہارے سامنے ان سے ایک فقہی مسئلہ دریافت کریں گے، اگر صحیح جواب دے دیا تو ہمیں کو‏‏‏ئی اعتراض نہ ہو گا اور ہم سب پر تمہارے انتخاب کی حقیقت آسان ہو جا‎ئے گی ورنہ تمہیں اس رشتہ سے صرف نظر کرنا ہو گا۔ مامون نے کہا۔ جب چاہو امتحان کر لو۔ عباسیوں نے اس وقت کے قاضی القضاۃ، نامی گرامی مشہور زمانہ قاضی یحیی بن اکثم کی طرف رجوع کیا اور اس سے بہت زیادہ انعام و اکرام کا وعدہ کیا تاکہ وہ امام جواد‏ سے ایک مسئلہ پوچھے جس کا وہ جواب نہ دے سکیں۔ یحیی نےیہ بات قبول کر لی۔ یہ سب لوگ مامون کے پاس آئے اور کہا۔ تم ہی کوئی دن معین کرو، مامون نے دن معین کردیا۔ اس روز ہر ایک وہاں پہونچ گیا۔ مامون نے حکم دیا کہ مجلس کے بالائی حصہ میں امام جواد کے لئے جگہ بنا‏ئی جائے۔ امام تشریف لائے اور معین جگہ پر بیٹھ گئے۔ آپ کے سامنے یحیی بن اکثم نے جگہ پائی۔ ہر ایک اپنی اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ مامون امام کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ یحیی بن اکثم نے مامون سے کہا مجھے اجازت ہے کہ میں ابو جعفر سے ایک سوال کروں ؟ مامون نے کہا : خود ان سے اجازت طلب کرو ۔ یحیی نے امام کی طرف رخ کرکے کہا : آپ پر فدا ہوجا‏ؤں؛ کیا مجھے ایک سوال کرنے کی اجازت ہے؟ امام نے فرمایا اگر چاہتے تو ضرور سوال کرو۔

یحییٰ نے کہا میں آپ پر قربان ہو جاوں، جو شخص احرام کی حالت میں شکار کرے اس کا کیا حکم ہے ؟ امام نے فرمایا اس مسئلہ کی متعدد صورتیں ہیں۔ حرم میں شکار کیا تھا، یا حرم کے باہر، اس کو شکار کی حرمت کا علم تھا یا نہیں، جان بوجھ کر شکار کیا تھا یا بھولے سے، شکار کرنے والا غلام تھا، یا آزاد۔ کم سن تھا یا بالغ۔ پہلی مرتبہ شکار کیا تھا دوسری مرتبہ۔ شکار پرندہ تھا یا کو‏ئی اور چیز، شکار چھوٹا تھا یا بڑا، شکار کرنے والا اپنے اس عمل پر نادم تھا یا دوبارہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، شکار دن میں کیا تھا، یا رات میں، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا ؟

امام کی یہ عالمانہ وضاحت دیکھ کر یحییٰ بالکل حیران رہ گیا۔ شکست اور عاجزی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں ہو گئے۔ زبان لکنت کرنے لگی۔ یہاں تک کہ ہر ایک پر یحییٰ کی یہ حالت واضح ہو گئ۔ مامون نے کہا میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرا انتحاب صحیح نکلا۔ عباسیوں کی طرف رخ کرکے کہنے لگا۔ تم لوگ جس چیز کا انکار کر رہے تھے وہ اب تمہیں معلوم ہوگئ۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے مزید کہا کہ امام محمد تقی علیہ السلام کو "جواد الائمہ" کہا جاتا ہے، "جواد" یعنی بخشش کرنے والا، اور یہ لقب آپ کو صرف شیعوں کی طرف سے نہیں دیا گیا، بلکہ اہل سنت کے بڑے علما بھی اس لقب کے قائل ہیں۔ مثلاً: ذهبی کہتا ہے: ان کا لقب "جواد"، "قانع"، اور "مرتضیٰ" تھا۔ وہ اہل بیت کے نمایاں افراد میں سے تھے، سخاوت کے سبب "جواد" کہلائے، اس کے علاوہ شیعہ روایت میں بھی ملتا ہے کہ امام نے زیتون کے پتوں پر ہاتھ رکھا تو وہ چاندی کے سکوں میں تبدیل ہو گئے، جنہیں بازار میں خرچ کیا گیا اور وہ اصلی چاندی ہی کے سکے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امام محمد تقی علیہ السّلام کا لقب سخی نہیں، بلکہ جواد ہے جو مانگنے پر دے اس کو کہتے ہیں اور جو بن مانگے عطا کرے اس کو جواد کہتے ہیں جس طرح خدا کو سخی نہیں جواد و کریم کہا جاتا ہے اسی طرح امام محمد تقی علیہ السّلام خدا کے جود و سخا کا مظہر تام ہیں۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے چور کا ہاتھ کاٹے جانے کا واقعہ جو کتابوں میں موجود ہے بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر بھی امام محمد تقی علیہ السّلام کو شریک کیا گیا اور اس وقت قاضی بغداد “ابن ابی دا‏ؤد” اور دوسروں کو شرمندگی برداشت کرنا پڑی تھی، اس واقعہ کے چند روز بعد ابن ابی داؤد کینہ و حسد سے بھرا ہوا معتصم کے پاس پہنچا اور کہا : تمہاری بھلائی کے لئے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ چند روز پہلے جو واقعہ پیش آیا ہے وہ تمہاری حکومت کے حق میں نہیں ہے کیونکہ تم نے بھری بزم میں ؛ جس میں بڑے بڑے علماء اور ملک کی اعلی شخصیات موجود تھیں، ابو جعفر (امام جوادؑ) کے فتوے کو ہر ایک پر فوقیت دی۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کے آدھے عوام انہیں خلافت کا صحیح حقدار اور تمہیں غاصب سمجھتے ہیں۔ یہ خبر عوام میں پھیل گئی ہے اور شیعوں کو ایک مضبوط دلیل مل گئی ہے۔ معتصم، جس میں دشمنی امامؑ کے تمام جراثیم موجود تھے، یہ سن کر بھڑک اٹھا اور امامؑ کے قتل کے درپے ہوگیا، آخر کار ام‌ فضل کے ذریعے امامؑ کو زہر دے کر شہید کردیا۔ایک روایت میں ہے کہ امام جواد علیه‌السلام نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں پیاسے ہونٹوں اور زہر آلود جسم کے ساتھ کربلا کا رخ کیا اور پکارا: «السلامُ علیکَ یا اَباعبداللهِ»

روایت میں اس طرح ہے: جب حضرت امام جواد ع کے جسم مبارک پر زہر کا اثر ہوا تو اِرتَعَشَتْ یَدُهُ و تَغَیَّرَ لَونُهُ و تَقَطَّعَتْ اَمعاؤُهُ. صارَ یَشعُرُ کَانَّمَا یُقَطَّعُ بِالسَّکاکینِ. آپ کا ہاتھ مبارک کانپ رہا تھا اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا اور (زہر کی شدت کی وجہ سے) آپ کی آنتیں اس طرح پھٹ گئیں جیسے کسی نے ان کو چاقوؤں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہو! سَنَدَ ظَهرَهُ اِلیٰ الْحائِطِ عَطشانٌ فَیُنادِی جَدَّهُ الْحسینِ سَلامُ اللهِ علیهِ آپ نے شدید پیاس کی حالت میں دیوار سے ٹیک لگائی اور اپنے دادا حسین علیہ السلام کو پکارنے لگے: ثُمَّ صارَ یَتَمایَلُ یُمنَةً و یُسرَیٰ مِن اَثَرِ ذٰلِکَ السَّمِ اِلیٰ اَن هَویٰ عَلیٰ الْاَرضِ زہر کی وجہ سے کبھی دائیں طرف جھکتے اور کبھی بائیں طرف؛ یہاں تک کہ آپ زمین پر گر گئے۔پھر کچھ دیر کے بعد اٹھے و صَعِدَ اِلیٰ سَطحِ الدَّارِ و هو یَضطَرِبُ اِضطِراباً شَدیداً اِلیٰ اَن نادیٰ بِضعیفِ صَوتِهِ «السلامُ علیکَ یا اَباعبداللهِ» و مازالَ کذلک حَتّیٰ قَضَیٰ نَحبَهُ پھر بڑے سخت اضطراب اور الجھن کی حالت میں گھر کی چھت پر پہنچے اور پھر اپنی کمزور آواز میں پکارا: «السلامُ علیکَ یا اَباعبداللهِ» آخری وقت میں امام جواد علیہ السّلام کے لبوں پر یہی ذکر رہا، یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha