ہفتہ 17 مئی 2025 - 13:45
کتاب ”تذکرۂ علامہ میر حامد حسین ؒ صاحب عبقات الانوار“ کی افادیت

حوزہ/قلم انسان کی فکری و تہذیبی ترقی کا وہ عظیم ذریعہ ہے جس نے انسانی خیالات کو دوام بخشا، علم کو محفوظ کیا اور تمدن و تہذیب کی بنیاد رکھی؛ زبان انسان کا فطری عطیہ ہے، لیکن قلم اس زبان کو تحریری شکل دے کر آنے والی نسلوں تک منتقل کرتا ہے۔

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری

حوزہ نیوز ایجنسی| قلم انسان کی فکری و تہذیبی ترقی کا وہ عظیم ذریعہ ہے جس نے انسانی خیالات کو دوام بخشا، علم کو محفوظ کیا اور تمدن و تہذیب کی بنیاد رکھی؛ زبان انسان کا فطری عطیہ ہے، لیکن قلم اس زبان کو تحریری شکل دے کر آنے والی نسلوں تک منتقل کرتا ہے؛ اسی لیے قرآن مجید میں بھی قلم کی قسم کھائی گئی: "ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ" (سورۃ القلم: 1)

قلم ایک ایسا ہتھیار ہے جو جنگ کے میدانوں کو بھی بدل دیتا ہے، افکار کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ شاعر ہو یا مفکر، عالم ہو یا مصنف، سب کی عظمت کا راز قلم کی نوک میں پوشیدہ ہے۔ قلم نہ صرف علم کا محافظ ہے، بلکہ عدل کا نمائندہ اور امن کا سفیر بھی ہے۔علمی دنیا میں قلم کی افادیت سب پر عیاں ہے۔ مدارس، جامعات اور کتب خانے اسی کی برکت سے آباد ہیں۔ اہل قلم ہی تاریخ کو رقم کرتے ہیں، آئندہ نسلوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور معاشرے کی فکری تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔

عہد حاضر میں ارباب قلم کی قلت آئندہ نسلوں کے علمی اور تحقیقی انحطاط کی دلیل ہے ، ایسے میں اگر کچھ لوگ اپنے قلم کے ذریعہ حقائق و معارف رقم کررہے ہیں اور موجودہ نسلوں کی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ آئندہ نسلوں کی ترقی و کامرانی اور حقائق و معارف سے آشنائی کے وسائل فراہم کررہے ہیں تو ایسے افراد بہر حال لائق صد تحسین و آفرین ہیں۔

برادر عزیز حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شہوار حسین نقوی عہد حاضر میں اپنے قلم حقیقت رقم سے یہی عظیم کارنامہ انجام دے رہے ہیں، آپ کا قلمی سفر کافی طویل ہے، آپ نے حوزۂ علمیہ قم میں درسی مصروفیات کے باوجود بعض اہم قلمی خدمتیں انجام دی ہیں، جن میں سر فہرست ’’تالیفات شیعہ در شبہ قارۂ ہند‘‘ ہے، یہ کتاب فارسی زبان میں۹۴۵ صفحات پر مشتمل ہے اور ۲۰۰۵؁ میں ایران کے ایک اہم ادارہ ’’دلیل ما ‘‘ سے شائع ہوئی ہے اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں بر صغیر کے شیعہ مصنفین کے علمی آثار اور کارناموں کا تعارف مع ناشر و سنہ اشاعت کے پیش کیاگیا ہے ، اس کتاب کی افادیت و اہمیت کی وجہ سے آپ کو ایران میں ۱۴ سکۂ بہار آزادی (گولڈ مڈل) سے نوازا گیا۔

کتاب ”تذکرۂ علامہ میر حامد حسین ؒ صاحب عبقات الانوار“ کی افادیت

مذکورہ کتاب کے علاوہ آپ کے جو قلمی کارنامے منصۂ شہود پر آئے ان کی اجمالی فہرست یہ ہے:

فہرست کتب شبہات و ردیھای علمائے شیعہ (فارسی)، ناشر : وزارت ارشاد تہران ۱۹۹۸؁؛
تذکرۂ علمائے امروہہ،ناشر: انجمن وظیفہ سوسایٹی دہلی ۲۰۰۳؁؛
اسلامی جنرل نالج، ناشر : عباس بک ایجنسی(لکھنؤ) ۲۰۰۲؁
جواہر الحدیث، ہدیٰ بک ایجنسی ۲۰۰۳؁
تذکرۂ مفسرین امامیہ، ناشر : نمایندگی جامعۃ المصطفی دہلی، صفحات ۷۱۵؛
شارحین نہج البلاغہ؛ناشر : ولایت فاوٗنڈیشن دہلی ۲۰۱۲؁؛
مترجمین صحیفۂ سجادیہ۔ ناشر : ولایت فاونڈیشن دہلی ۲۰۱۴؁
مولفین غدیر، ناشر: ولایت فاونڈیشن دہلی،۲۰۱۲؁؛

سیرت نگاران فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، ناشر: ولایت فاؤنڈیشن دہلی ،۲۰۱۴؁
علی شناسی در کتب، ناشر : ولایت فاؤنڈیشن دہلی ، ۲۰۱۷؁

تذکرۂ علمائے شیعہ ۔ ناشر : ولایت فاؤنڈیشن دہلی ۲۰۱۹؁

تاریخ شیعیانِ امروہہ، ناشر : ولایت فاؤنڈیشن دہلی ،۲۰۱۹؁

ناموران فقہ و اصول، ناشر : کوثر پبلیکیشنز دہلی ۲۰۲۲؁

تذکرۂ علامہ میر حامد حسین صاحب عبقات الانوار، ولایت پبلیکیشنز دہلی ۲۰۲۴؁

کتاب ”تذکرۂ علامہ میر حامد حسین ؒ صاحب عبقات الانوار“ کی افادیت

مذکورہ تمام کتابیں بڑی علمی اور تحقیقی ہیں، مؤلف گرامی قدر نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ہر موضوع کی مناسبت سے مواد فراہم کیا ہے، یقین جانیئے ان میں سے اکثر کتابیں اپنے موضوع کے اعتبار سے اردو زبان و ادب میں ’’نقش اول ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں، آئندہ آنے والے محققین و ارباب قلم مختلف موضوعات پر کام کرنے کے لیے ان کتابوں کی ضرورت محسوس کریں گے۔

مولانا سید شہوار حسین نقوی کے قلم کی ایک خاصیت بلکہ انفرادیت یہ ہے کہ آپ نے تذکرہ نگاری کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے، راقم السطور کے خیال خام میں مولانا موصوف نے تذکرہ نگاری کے حوالے سے جو کارنامے انجام دئیے ہیں وہ مذہبی اعتبار سے ہندوستانی علماء کے درمیان بے نظیر نہیں تو کم نظیر ضرور ہیں اور الحمدللہ !یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے ۔

ظاہر ہے آپ کی ہر کتاب پر سیر حاصل تبصرہ کیا جاسکتا ہے لیکن سر دست آپ کی آخری مطبوعہ کتاب ’’تذکرۂ علامہ میر حامد حسین ‘‘ کا ایک خاکہ پیش کرنا مقصود ہے، تاکہ قارئین کو اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا قدرے اندازہ ہوسکے ۔

’’تذکرۂ میر حامد حسینؒ صاحب عبقات الانوار‘‘، مولانا سید شہوار حسین نقوی کی علمی کاوش کا نادر نمونہ ہے جو انہوں نے شیعی دنیا کے مایہ ناز محقق، علامہ میر حامد حسین ہندی کی حیات و خدمات کے تذکرے پر مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب صرف ایک سوانحی خاکہ نہیں بلکہ ایک فکری و تحقیقی دستاویز ہے جس کی شدید ضرورت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ مولانا موصوف نے زیر نظر کتاب تحریر کرکے ایک دیرینہ ضرورت کی تکمیل فرمائی ہے۔

مولانا شہوار حسین نے نہایت سلیقے اور گہرے مطالعے کے ساتھ میر حامد حسین کی علمی زندگی، ان کے زمانے کے حالات، ان کی فقہی و کلامی بصیرت، اور عبقات الانوار کی تالیف میں صرف کی گئی محنت کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں صرف تاریخی حقائق کا بیان ہی نہیں، بلکہ اسلوب بیان میں عقیدت، تحقیق اور فکری تجزیے کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔

تذکرۂ میر حامد حسین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ قاری کو میر حامد حسین کی شخصیت کے صرف ظاہر سے نہیں بلکہ ان کے باطن، ان کی فکری گہرائی اور علمی وسعت سے روشناس کراتی ہے۔ مولانا شہوار حسین نے عبقات الانوار کی تدوین، اس کے علمی مصادر و مراجع، اس کے رد و قبول کے علمی پس منظر اور اس کی امتیازی خصوصیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، جو ایک طالب علم سے لے کر محقق تک کے لیے نہایت مفید ہے۔

کتاب ”تذکرۂ علامہ میر حامد حسین ؒ صاحب عبقات الانوار“ کی افادیت

کتاب کا اسلوب سادہ مگر مؤثر ہے، زبان و بیان میں شائستگی اور وقار پایا جاتا ہے۔ مولانا نے جس دقتِ نظر سے مواد اکٹھا کیا اور اسے ترتیب دیا، وہ ان کے محققانہ ذوق کا آئینہ دار ہے۔

یہ کتاب اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے ذریعے نئی نسل کو عبقات الانوار جیسے عظیم الشان علمی ذخیرے کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔

مولانا شہوار حسین نے میر حامد حسین کی زندگی کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے، جو علمی جدوجہد، خلوص، دیانت، اور استقامت کا حسین امتزاج ہے۔

’’تذکرۂ علامہ میر حامد حسین ‘‘اپنے متن و مواد کے اعتبار سے بے حد جامع ہے ، اس سے قبل علامہ میر حامد حسین پر اتنی جامع کتاب نہیں لکھی گئی، اسے پانچ ابواب میں مرتب کیاگیا ہے :

باب اول:ہندوستان میں تاریخ شیعیت؛

باب دوم : حیات و شخصیت ( علامہ میر حامد حسین )

باب سوم : جامعیت علمی ؛

باب چہارم :وفات حسرت آیات اور مراثی و قطعات تاریخ ؛

باب پنجم: خطوط و تقاریظ ؛

ہر باب کے ذیل میں موضوع کی مناسبت سے کافی مواد موجود ہے، آخری باب خطوط و تقاریظ سے مربوط ہے، اس حصے میں وہ خطوط شامل کئے گئے ہیں جو علمی دنیا میں بھی نہایت کمیاب ہیں، ان خطوط کو کتاب میں شامل کرکے مؤلف نے آئندہ نسلوں کے لیے خاصے کی چیز فراہم کردی ہے۔

آخری باب اور دیگر ابواب میں خطوط و تقاریظ سے متعلق مباحث میں اس بات کا احساس ہوا کہ اگر اردو داں حضرات کے لئے فارسی اور عربی خطوط کا اردو ترجمہ بھی کر دیا جاتا تو اس کی افادیت کا دائرہ مزید وسیع ہو جاتا، چونکہ یہ خطوط بے حد علمی حیثیت کے حامل ہیں اور اس سے علامہ میر حامد حسین کی شخصیت کے وہ گوشے آشکار ہوتے ہیں جو عوام الناس کے لئے قطعی غیر معروف ہیں، اگر ان کا ترجمہ بھی شامل کیاجاتا تو شخصیت کے اہم گوشوں سے عام لوگ بھی آشنائی حاصل کرسکتے تھے؛ اس کے باوجود خطوط و تقاریظ کو شامل کتاب کرنے کا فیصلہ قابلِ قدر ہے، یہ کمیاب خطوط ارباب قلم کے لئے دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں، آئندہ ان سے بہت کچھ استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

بہر حال کتاب اپنے موضوع پر انتہائی جامع اور تحقیقی ہے، ہمیں امید ہی نہیں یقین کامل بھی ہے کہ علامہ میر حامد حسین اعلی اللہ مقامہ کی شخصیت شناسی میں یہ کتاب انتہائی مفید اور کار آمد ثابت ہوگی اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ قرار پائے گی۔

کتاب ”تذکرۂ علامہ میر حامد حسین ؒ صاحب عبقات الانوار“ کی افادیت

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha