حوزہ نیوز ایجنسی| سید المتکلمین، فخر المحدثین، افتخارِ تشیع، علامہ میر حامد حسین کنتوری کا تعلق ہندوستان کے اس جلیل القدر خانوادہ سے تھا جو علم ومعرفت، عبادت وریاضت، طہارت ونفاست، زہد وتقویٰ میں ممتاز حیثیت کا حامل رہا، اس خانوادہ کے علماء نے تحفظ عقیدہ امامت اور دفاع شیعیت کو اپنی حیات کا نصب العین اور مخالفین کے اعتراضات کے دندان شکن جوابات دینا اپنا مقصد حیات بنا لیا تھا ۔ آپ کے والد ماجد مفتی محمّد قلی جید عالم دین، بےبدل متکلم اور لاثانی مناظر تھے۔
علامہ میر حامد حسین موسوی کا رجحان بھی شروع سے علم کلام و مناظرہ کی طرف رہا، لہٰذا آپ نے " عبقات الانوار" جیسی مقدس کتاب تصنیف کر کے ایک طرف مخالفین کی زبانوں کو گنگ اور ان کے افکار کو مفلوج کیا تو دوسری جانب عقیدہ امامت کو قوت اور شیعیت کو استحکام بخشا، جس کی بناء پر آپ کا شمار جناب شیخ مفید علیہ الرحمہ کے بعد صف اول کے علماء میں ہوتا ہے ۔
ایک عرصے سے ایسی جلیل القدر شخصیت کے حالات زندگی پر مشتمل مفصل کتاب کی ضرورت اردو زبان میں محسوس کی جارہی تھی، اس ضرورت کو محقق ڈاکٹر شہوار حسین امروہوی نے " تذکرہ علامہ میر حامد حسین" تصنیف کر کے پورا کیا، یہ کتاب علامہ کی حیات اور خدمات کے سلسلے میں تحقیقی اور انتہائی معلوماتی ہے جس میں تفصیل سے علامہ کے حالات اور ان کے عہد کا جایزہ لیا ہے، یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے:
باب اول۔۔۔ ہندوستان کی تاریخ اور آپ کا عہد
باب دوم۔۔۔۔۔ حیات و شخصیت کے ذیل میں آپ کا شجرہ نسب، آباء واجداد کا ذکر، تعلیم و تربیت، اساتذہ، سفر حج و زیارات، تصنیف وتالیف میں جدو جہد، کتابوں کی جمع آوری، شدایدو مشکلات زندگی، روحانی عظمت، تصنیف وتالیف میں غیبی امداد، عشق ومحبت اہلبیت، اکابرین علماء کے تاثرات بلخصوص حضرت امام خمینی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اظہارِ خیال خاص اہمیّت کا حامل ہے۔
باب سوم۔۔۔۔۔ علامہ میر حامد حسین کنتوری کے علمی آثار کا جائزہ؛ عبقات الانوار جو شاہ عبدالعزیز دہلوی کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ کے باب ہفتم کا جواب ہے جو طرز استدلال اور روش تحریر کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عبقات الانوار علامہ کا ایسا علمی شاہکار ہے کہ جس کا شاہ عبدالعزیز دہلوی بھی جواب الجواب لکھنے کی ہمت نہ کر سکے۔ اس کتاب کو حدیث کا دائرہ المعارف کہا جاتا ہے اور بڑے بڑے علماء و فقہاء نے اس کتاب کی جامعیت کو تسلیم کیا ہے ۔
اس کے علاوہ علامہ کے وصیت نامے کا ترجمہ بھی شامل کیا ہے ۔
باب چہارم ۔۔۔۔۔ علامہ کی وفات جو ١٨ صفر ١٣٠٦ ھ مطابق ٢٥ اکتوبر ١٨٨٨ میں واقع ہوئی اس کا ذکر اور آپ کی اولاد اور خانوادہ کے دیگر افراد کا بھی ذکر تفصیل سے ہے ۔
باب پنجم ۔۔۔۔آپ کے نام آیت اللہ زین العابدین مازندرانی کے توصیفی خطوط اور آیت اللہ العظمٰی میرزا محمد حسن شیرازی کی تقاریظ شامل ہیں۔
آیت اللہ شیخ محدث نوری صاحب مستدرک الوسائل کے ١٣ خطوط مندرج ہیں ۔
یہ کتاب ٢٥٦ صفحات پر مشتمل ہے، ولایت فاؤنڈیشن نئی دہلی سے ٢٠٢٤ میں شائع ہوئی ہے۔
اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں محقق ڈاکٹر شہوار حسین نے انتہائی محنت وعرقریزی سے صاحب عبقات الانوار کے حالات بہت خوش اسلوبی اور تحقیق کے ساتھ پیش کیۓ ہیں۔
مولانا ڈاکٹر شہوار حسین نقوی نے یہ کتاب تصنیف کر کے نسل نو کو علامہ میر حامد حسین کنتوری کی حیات و خدمات سے آشنا کروایا، تاکہ ان کے اندر بھی اعلیٰ پیمانے پر علمی و مذہبی خدمات انجام دینے کا جذبہ پیدا ہو سکے۔
آپ کا تبصرہ